پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اور کراپ ڈیفنڈرز لمیٹڈ کینیڈاکے درمیان زرعی تحقیق کو فروغ دینے کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس سلسلے میں مفاہمتی یاداشت پر دستخط کی تقریب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی آفس کے کمیٹی روم میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، ڈین فیکلٹی آف ایگریکلچرل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم حیدر، چیئر مین ڈیپارٹمنٹ آف اینٹامولوجی پروفیسر ڈاکٹر شہباز احمد، فوکل پرسن کراپ ڈیفنڈرز (کینیڈا) ڈاکٹر مجاہد منظور (اینٹامولوجسٹ)، ڈائریکٹر ایکسٹرنل لنکجز پروفیسر ڈاکٹر یامینہ سلمان،جاوید انور (سی ڈی ایل فنانشل افیئرز)و دیگرنے شرکت کی۔ معاہدے کے مطابق، کراپ ڈیفنڈرز پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی آف ایگریکلچرل سائنسز کے طلباء کو ان کی تحقیق کے انعقاد اور اشاعت میں معاونت کرے گی۔ کراپ ڈیفنڈرزکے پیشہ ور افراد متعلقہ ورکشاپس، قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کریں گے جن میں اینٹومولوجیکل/بائیولوجیکل ریسرچ شامل ہے۔ سمپوزیا، ورکشاپس اور سرحدوں کے پار بین الاقوامی کانفرنسز میں سرکردہ ماہرین سمیت محققین کے ساتھ نیٹ ورکنگ کی سہولت سے مستقبل کی تحقیق اور فنڈنگ کے دروازے کھلیں گے۔ اس اقدام کا مقصد پیشہ ورانہ ترقی کی حمایت کرنا، تعاون کو فروغ دینا اور تحقیق کے مواقعوں کو بڑھانا ہے۔
Uncategorized
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ناصر کاظمی کی صد سالہ.گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام معروف شاعر ناصر رضا کاظمی کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں خصوصی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں ان کی ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی ناصر کاظمی کے صاحبزادے اور معروف شاعر و ڈرامہ نگارباصر سلطان کاظمی تھے۔ دیگر معزز مہمانوں میں پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید، پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی، ڈاکٹر صائمہ ارم، صدیق اعوان اور پروفیسر ساجد علی شامل تھے۔مہمانوں نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر چوہدری سے بھی ملاقات کی، جس میں اردو ادب کے فروغ اور جی سی یو کی ادبی روایت پر گفتگو ہوئی۔ باصر سلطان کاظمی نے اپنی کتاب “شجر ہونے تک”بھی وائس چانسلر کو پیش کی۔
سیمینار میں مقررین نے ناصر کاظمی کی شاعری، ان کی فکری گہرائی اور اردو ادب میں ان کی خدمات پر اظہارِ خیال کیا۔ جاوید اقبال نے طلبہ کو تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی تلقین کی۔اپنے خطاب میں باصر سلطان کاظمی نے نوجوانوں میں جذبے اور لگن کی اہمیت پر زور دیا، جبکہ پروفیسر ساجد علی نے سوال کرنے اور تجسس پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی نے ناصر کاظمی کو لاہور کی ثقافتی پہچان قرار دیا، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے انہیں جدید دور کا نمایاں شاعر کہا۔ ڈاکٹر صائمہ ارم نے کہا کہ ان کی شاعری ہر زمانے میں نئی معنویت کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔سیمینار میں طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور ناصر کاظمی کی شاعری پر خراجِ عقیدت پیش کیا۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای)اور یونیسکو کی قیادت میں اسلام آباد میں تین روزہ قومی مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد…….ورکشاپ میں یونیسکو کے تحت کی گئی تحقیقی رپورٹ کی سفارشات کو حتمی شکل دی گئی جن میں ضلعی تعلیمی قیادت کو بااختیار بنانے، ادارہ جاتی ترقی، اور ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای)اور یونیسکو کی قیادت میں اسلام آباد میں تین روزہ قومی مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں ضلعی تعلیمی مینیجرز کے کردار اور صلاحیت کو مؤثر بنانے کے لیے پالیسی سفارشات پیش کی گئیں۔ 15 سے 17 اپریل تک جاری رہنے والی اس ورکشاپ کا مقصد ضلعی سطح پر تعلیمی اصلاحات کے لیے ایک جامع روڈمیپ مرتب کرنا تھا۔ اس میں چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے تعلیمی حکام، پالیسی سازوں اور ترقیاتی شراکت داروں نے شرکت کی۔
ورکشاپ میں یونیسکو کے تحت کی گئی تحقیقی رپورٹ کی سفارشات کو حتمی شکل دی گئی جن میں ضلعی تعلیمی قیادت کو بااختیار بنانے، ادارہ جاتی ترقی، اور ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔ شرکاء نے متفقہ طور پر ایسے اقدامات کی توثیق کی جو پیشہ ورانہ ترقی کو ادارہ جاتی شکل دینے، تربیتی پروگراموں، ہم منصب سیکھنے اور رہنمائی کے نظام کے نفاذ کی تجویز دیتے ہیں۔ورکشاپ کے شرکاء نے ضلعی مینیجرز کو فیصلہ سازی میں زیادہ خودمختاری دینے اور اس کے ساتھ ساتھ جوابدہی کے مؤثر نظام کی ضرورت پر زور دیا۔
شفاف بھرتیوں اور کارکردگی کے یکساں جائزے کے لیے ایک معیاری صلاحیتی فریم ورک کی منظوری کی بھی سفارش کی گئی تاکہ تمام صوبوں میں اہلیت اور ذمہ داریوں کا واضح تعین کیا جا سکے۔بین الحکومتی روابط کو بہتر بنانے کے لیے وفاق، صوبہ اور ضلعی سطح پر افقی و عمودی تعاون کے ادارہ جاتی میکنزم کی تشکیل پر بھی زور دیا گیا۔ تمام صوبوں کو کارکردگی پر مبنی مراعاتی نظام متعارف کرانے، اور تعلیمی منصوبوں میں صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور محروم طبقات کی تعلیم تک رسائی کو بنیادی حیثیت دینے کی سفارش کی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ، اصلاحات کے تسلسل کے لیے سیاسی و مالیاتی عزم کو کلیدی حیثیت دی گئی۔ڈائریکٹر جنرل پی آئی ای ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے کہا کہ یہ سفارشات سیکھنے کے بحران سے نمٹنے اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کو فروغ دینے کے لیے اہم سنگ میل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سفارشات صوبائی اور وفاقی سطح پر تعلیمی پالیسیوں کی رہنمائی کریں گی اور تعلیمی گورننس کو مؤثر بنانے میں مدد دیں گی۔یونیسکو پاکستان کے انچارج کار ہنگ انتھونی ٹام نے اس مشاورتی عمل کو “نچلی سطح سے نظام تعلیم کو مستحکم کرنے کی اہم کوشش” قرار دیا۔ انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنس (آئی سیپ) کے پروگرام منیجر نے ادارہ جاتی تبدیلی اور ضلعی سطح پر مستقل معاونت کو ضروری قرار دیا۔
پی ای سی ٹی اے اے کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد الوحید رضا نے تعلیمی پالیسیوں کے مؤثر نفاذ کے لیے مڈل ٹیئر مینیجرز کو عملی آلات فراہم کرنے پر زور دیا۔آئی-سیپس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان ہمایوں نے مڈل ٹیئر کو مضبوط بنانے کے لیے ادارہ جاتی شراکت داریوں اور استعداد کار میں اضافے کے تسلسل کا اعادہ کیا۔ ورکشاپ کے اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے اس اسٹڈی کو “اسٹریٹجک روڈ میپ” قرار دیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے شواہد پر مبنی، مساوات پر مرکوز اور صوبائی ضروریات سے ہم آہنگ اصلاحات کے عزم کا اعادہ کیا۔ورکشاپ کے اختتام پر شرکاء نے صوبائی تناظر میں عملی منصوبے پیش کیے جو اس تحقیق کی کلیدی بصیرت پر مبنی تھے۔
یونیسکو کی نمائندہ محترمہ باربرا اور پی آئی ای کے ڈاکٹر ضیغم قدیر نے اس مشاورتی عمل کی شراکتی فضا اور خیالات کے تبادلے کو سراہا۔اپنے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر شاہد سرویا نے ضلعی تعلیمی مینیجرز کے لیے پیشہ ورانہ ترقی اور ہم منصب سیکھنے کے نظام کو ادارہ جاتی شکل دینے کے عزم کو دہرایا اور اسے پاکستان میں پائیدار تعلیمی اصلاحات کا بنیادی ستون قرار دیا۔
ماضی میں ہمارے دانشور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دنیا کو پاکستان کا نقطہ نظر سمجھانے سے قاصر رہے۔ ……..2014ء کے بعد کے بعد سے اس حوالے سے شائع ہونے والا مواد بہترین تحقیق کی بدولت زیادہ موثرہے جو بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈ ہ کا مقابلہ کررہا ہے۔ …….وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی……….پاکستان ایک خود مختار ایٹمی ملک ہے۔ کہ ہمیں اپنے ماہرین تعلیم، محققین، پبلشرز، سکالرز اور دانشوروں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ملک سے کتب بینی کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر لکھاری کا تحقیقی کام اچھا ہو تو دنیا خریدتی ہے اور پڑھتی ہے…….. پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال
:وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہاہے کہ پروفیسر ز کا کام صرف طلباؤطالبات کو پڑھانا نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملک وقوم اور انسانیت کے لئے کردار ادا کرنابھی ہوتا ہے۔وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کے زیر اہتمام پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کی ’نیوکلیئر آرمز کنٹرول ان ساؤتھ ایشیا: پولیٹکس، پوسچرز اور پریکٹسز‘ کی تقریب رونمائی سے ادارہ تعلیم و تحقیق کے وحید شہید ہال میں خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پرڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آبادپروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال،ڈ ین فیکلٹی آف بیہوریل اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد، پروفیسر ایمریطس پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، چیئرمین شعبہ سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز احمد،اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد شارع قاضی، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی نے پاکستان کے لئے انتہائی قابل اور نامور سیاست دان، تعلیم دان، بیوروکریٹس اور سول سرونٹس پید کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی پالیسی سازی میں ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے ریسرچ پر توجہ دینا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ یہ کتاب عالمی سطح پر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو زائل کرنے میں مدد دے گی۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی کے چار سالہ سفر میں ڈاکٹر ظفر نواز نے بہت سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپورٹ کسی سے حاصل نہیں کی جاتی بلکہ یہ کمائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرنواز جیسے پروفیسرز طلباء کے لئے رول ماڈل ہیں جو ملک، معاشرے، حکومت اور کمیونٹی کے لئے بہت اچھا کام کررہے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ سکیورٹی اور بین الاقوامی روابط کے لئے یہ کتاب خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نیوکلئیرپروگرام پر 1979کے بعد سے دنیا کا فوکس آیا، جو منفی تھا۔انہو ں نے کہا کہ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اسلامی بم کا نام دیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہمارے دانشور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دنیا کو پاکستان کا نقطہ نظر سمجھانے سے قاصر رہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد سے اس حوالے سے شائع ہونے والا مواد بہترین تحقیق کی بدولت زیادہ موثرہے جو بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈ ہ کا مقابلہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بھی بہترین تحقیقی مواد پر مشتمل ہے جس کے لئے مصنف کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان سکالرز کو مستقبل میں ایمرجنگ ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت، جدید کمیونیکیشن بارے سیکھنا ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال نے کتاب کے خدو خال بیان کرتے ہوئے کاکہا کہ علم ہمیشہ وسعت اختیارکرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور مصنف کوشش کی ہے کہ غلطیاں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا پاکستان ایک خود مختار ایٹمی ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ماہرین تعلیم، محققین، پبلشرز، سکالرز اور دانشوروں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک سے کتب بینی کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر لکھاری کا تحقیقی کام اچھا ہو تو دنیا خریدتی ہے اور پڑھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں بھارت اور پاکستان کے جوہری موقف اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے حوالے سے بیان بازی اور عملی نقطہ نظر کو بھی واضح کیا گیا۔پروفیسرڈاکٹر ارم خالد نے کہا کہ یہ کتاب وقت کی ضرورت ہے جو یقینا پڑھنے والوں کو فائدہ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب سے ہمارے نوجوان طلباء کو پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بہترین موضوع پر کتاب لکھنے پر ڈاکٹر ظفر نوازجسپال کو مبارک بادپیش کی۔ انہوں نے کی کتاب کی تعریف کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کا پھیلا ؤاور کنٹرول کے چیلنجوں کی نظریاتی اور تجرباتی وجوہات پر روشنی ڈالی۔پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز نے کہا کہ یہ خطہ پاکستان، چین، بھارت اور روس کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے کے لئے حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جوہری صلاحیت حاصل کی تھی جو اس کی جائز سیکورٹی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ضروری تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کسی بھی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ سیاسیات اپنے طلباء کی تنقیدی سوچ کوفروغ دینے کے لئے کردار ادا کرتا رہے گا۔ ڈاکٹر محمد شارع قاضی نے کہا کہ مصنف نے کتاب میں نظریہ اور جوہری پوسچرز کے مسائل کو خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سپرسونک میزائل، بیلسٹک میزائل ڈیفنس، اور نظریاتی تبدیلیوں جیسی ہندوستان کی تکنیکی ترقی بارے باخبر رہنا ضروری ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے منعقدہ ملکی جامعات کے درمیان تقریری مقابلہ جات میں مہران یونیورسٹی کے طلباء نے میدان مار کر ٹرافی اپنے نام کر لی………اردو کیٹیگری میں مہران یونیورسٹی کے میکاٹرونکس ڈیپارٹمنٹ کے عبدالغفار درس، انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ثانیہ امجد اور سافٹ ویئر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ذیشان ٹالپر نے مہران یونیورسٹی کی نمائندگی کی اور پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے منعقدہ ملکی جامعات کے درمیان تقریری مقابلہ جات میں مہران یونیورسٹی کے طلباء نے میدان مار کر ٹرافی اپنے نام کر لی۔ ترجمان جامعہ مہران کی جا نب سے جاری کردہ بیان کے مطابق این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں ہونے والے مقابلوں میں اردو کیٹیگری میں مہران یونیورسٹی کے میکاٹرونکس ڈیپارٹمنٹ کے عبدالغفار درس، انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ثانیہ امجد اور سافٹ ویئر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ذیشان ٹالپر نے مہران یونیورسٹی کی نمائندگی کی اور پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

مہران یونیورسٹی کے طلباء کو مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر ٹرافی اور ایک لاکھ روپے نقد انعام دیا گیا۔ طلباء کی اس کامیابی پر مہران یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیل کمار نے کہا کہ طلباء کا مقابلے میں حصہ لینا ایک کامیابی ہے اور پہلی پوزیشن حاصل کرنا دوسری کامیابی ہے۔ ڈاکٹر انیل کمار نے کہا کہ مہران یونیورسٹی کے طلباء ملکی سطح کے مقابلوں میں حصہ لے کر نمایاں پوزیشن حاصل کرتے ہیں، جو کہ مہران کی محنت کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہران یونیورسٹی میں تدریسی اور غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے بہترین ماحول موجود ہے۔ اگر طلباء اسی طرح محنت کرتے رہے تو انہیں مزید مواقع ملیں گے۔ طلباء کے وفد نے ریجنل مقابلے میں انجینئر فیض احمد ابڑو کی قیادت میں شرکت کی، جو مہران یونیورسٹی کے فوکل پرسن ہیں

ایچ ای سی (HEC) نے قومی نصاب جائزہ کمیٹی (NCRC) کے ذریعے نظرِ ثانی شدہ تعلیم کے شعبے میںنصاب کی منظوری دیدی ہے۔ یہ تازہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجلاس کی صدارت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (NACTE) کے چیئرمین ڈاکٹر ناصر محمود نے بطور کنوینر کی۔ لاہور لیڈز یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر رفاقت علی اکبر نے اجلاس میں بطور کو کنوینر معاونت فراہم کی، جبکہ ایچ ای سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب ہدایت اللہ کاکسی نے بطور سیکرٹری این سی آر سی کی معاونت کی
ایچ ای سی (HEC) نے قومی نصاب جائزہ کمیٹی (NCRC) کے ذریعے نظرِ ثانی شدہ تعلیم کے شعبے میںنصاب کی منظوری دیدی ہے۔ یہ تازہ ترین نصاب تعلیمی معیار کو بہتر بنانے، تعلیمی شعبے کی ضروریات اور بدلتی ہوئی مارکیٹ کی طلب سے ہم آہنگ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔این سی آر سی (NCRC) میں ممتاز اساتذہ، سینئر فیکلٹی، اور نامور علمی شخصیات شامل ہیں، جن کا تعلق جامعات، منظوری دینے والے اداروں، تحقیق و ترقی کی تنظیموں اور صنعت کے ماہرین سے ہے۔

اجلاس کی صدارت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (NACTE) کے چیئرمین ڈاکٹر ناصر محمود نے بطور کنوینر کی۔ لاہور لیڈز یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر رفاقت علی اکبر نے اجلاس میں بطور کو کنوینر معاونت فراہم کی، جبکہ ایچ ای سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب ہدایت اللہ کاکسی نے بطور سیکرٹری این سی آر سی کی معاونت کی۔نظرِ ثانی شدہ نصاب میں درج ذیل تعلیمی معیارات پر زور دیا گیا ہے: ڈگری پروگرام کا نام، اہلیت کے اصول، پروگرام کے تعلیمی مقاصد، مطالعہ کے خاکے، کورس کے نتائج، ڈگری حاصل کرنے کی ضروریات، اور وہ اختیاری مضامین جن کے ذریعے عالمی معیارات، مقامی ضروریات اور مارکیٹ کی طلب کے مطابق خصوصی مہارتوں کو شامل کیا جا سکے۔ یہ نصاب نیشنل کوالیفیکیشنز فریم ورک کی سطح 05، 06 اور 07 کے پروگراموں کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
ایچ ای سی نے جامعات کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس نظرِ ثانی شدہ نصاب کو جلد از جلد نافذ کریں تاکہ پاکستان بھر میں تعلیم کے میدان میں یکسانیت اور معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ نظرِ ثانی شدہ نصاب ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

4o
سیرت چیئر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام ایک روزہ سیمینار سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں فرائض منصبی کی تکمیل کی ذمہ داری کے موضوع پر منعقد کیا گیا……..نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرے کی بنیاد دو چیزوں پر تھی اور وہ ہیں وہ ہے امانت وصداقت۔ اور آج بھی ہمارا معاشرہ بھی انہی اصولوں کی روشنی میں پروان چڑھ سکتا ہےپروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمٰن
سیرت چیئر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام غلام محمد گھوٹوی ہال میں ایک روزہ سیمینار سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں فرائض منصبی کی تکمیل کی ذمہ داری کے موضوع پر منعقد کیا گیا۔سیمینار کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمٰن ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عریبک اسٹڈیزنے کی۔ تقریب کے مہمان اعزاز پروفیسر علامہ محمد یوسف خان شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور تھے۔ نقابت کے فرائض اسسٹنٹ پروفیسر فیکلٹی آف عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز ڈاکٹر ذوہیب نے ادا کیے۔پروفیسر ڈاکٹر حافظ شفیق الرحمٰن ڈائریکٹر سیرت چیئر نے استقبالیہ اور خیر مقدمی کے کلمات ادا کیے، انہوں نے منتظمین، تمام شرکا، اور مہمان اعزاز کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ تقریب کے مہمان اعزاز پروفیسر علامہ محمد یوسف خان نے اپنے خصوصی خطاب میں حاضرین مجلس کے سامنے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں فرائض منصبی کی تکمیل کی ذمہ داری کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا، ذمہ داری کی بجا آوری کی اہمیت وضرورت کو واضح کیا، یونیورسٹی اور طلبہ وطالبات کی روز مرہ کے معاملات میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے سیرت نبوی کی روشنی میں حل وتعاون کا تعامل بھی پیش کیا، اس کے ساتھ ہی ذمہ داری کی تکمیل کے لیے حاضرین کو کئی تجاویز بھی دیں جس کی روشنی میں ایک مثالی معاشرے، بابرکت ماحول کا قیام عمل میں لایا جا سکتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اپنے فرائض منصبی کو سر انجام دیا، نبوی اصول کیا تھے اس کا چارٹ پیش کیا کہ فرائض منصب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کی ذمہ داری میں اصول اربعہ ہیں: آیات کی تلاوت، تزکیہ نفس، کتاب اللہ کی تعلیم، اور حکمت ودانائی، اس کی بدولت ایک مثالی معاشرہ قائم کیا۔ آج بھی انہی اصول کی تعلیمات کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ آخر میں صدرِ مجلس پروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمٰن ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عریبک اسٹڈیز نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرے کی بنیاد دو چیزوں پر تھی اور وہ ہیں وہ ہے امانت وصداقت۔ اور آج بھی ہمارا معاشرہ بھی انہی اصولوں کی روشنی میں پروان چڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں معاونت اور سرپرستی پر شکریہ ادا کیا۔اس موقع پرڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی، رجسٹرار محمد شجیع الرحمن، خزانہ دار ڈاکٹر عبدالستار ظہوری،ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز ڈاکٹر شہزاد احمد خالد، ایڈیشنل رجسٹرار عارف رموز،سینئر سٹاف افیسر وسیم احمد صدیقی، سینئر صحافی و ممبر اے پی این ایس ہمایوں گلزار اور طلبا وطالبات موجود تھے۔

ای سی او ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ (ECO-EI) کی پہلی ماہرین کا گروپ اجلاس جاری ۔ یہ میٹنگ ای سی او خطے کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کی بین الاقوامیت کے لیے ایک مشترکہ وژن تشکیل دیا جا سکے
ای سی او ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ (ECO-EI) کی پہلی ماہرین کا گروپ اجلاس جاری ہے۔ یہ میٹنگ ای سی او خطے کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کی بین الاقوامیت کے لیے ایک مشترکہ وژن تشکیل دیا جا سکے۔ایچ ای سی پاکستان، ای سی او ای آئی، اور ای سی او سیکریٹریٹ کی اعلیٰ قیادت نے افتتاحی تقاریر میں مؤثر خیالات پیش کیے، جنہوں نے ایک نتیجہ خیز اور جامع مکالمے کے لیے فضا قائم کی۔جاری اجلاسوں میں ای سی او رکن ممالک میں اعلیٰ تعلیم کی بین الاقوامیت کے بہترین تجربات اور موجودہ رجحانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین، برٹش کونسل، اور اناطولو یونیورسٹی کے جانب سے پیش کیے گئے بصیرت افروز خیالات اس مکالمے میں عالمی نقطہ نظر کی گہرائی کا اضافہ کر رہے ہیں۔
شرکاء 2025–2030 کے مجوزہ ایکشن پلان کی پیشکش اور اس پر غور و خوض میں بھی حصہ لیں گے، جس کے کلیدی موضوعات میں علمی نقل و حرکت، مشترکہ تعلیمی پروگرام، پالیسیوں کا ہم آہنگ بنانا، اور ڈیجیٹل جدت شامل ہیں۔اجلاس میں جوش و خروش نمایاں ہے اور گفتگو مستقبل کی طرف گامزن ہے، کیونکہ یہ خطہ مضبوط تر تعلیمی اشتراک عمل کی جانب بڑھ رہا ہے۔

چین کی امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے وارننگ جاری………وارننگ طلباء کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ “سیکیورٹی خطرات کا جائزہ لیں اور متعلقہ ریاستوں میں پابندیوں سے متعلق قوانین سے باخبر رہیں”، خاص طور پر اوہائیو کی حالیہ ہائیر ایجوکیشن بل کی منظوری کے بعد، جس نے چین کے ساتھ تعلیمی شراکت داری پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
بیجنگ نے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں چینی طلباء کو کچھ امریکی ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا ہے، کیونکہ اوہائیو ریاست نے پابندیوں میں اضافہ کیا ہے اور چین-امریکہ تجارتی کشیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔یہ “نرم لہجے میں کی گئی” وارننگ طلباء کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ “سیکیورٹی خطرات کا جائزہ لیں اور متعلقہ ریاستوں میں پابندیوں سے متعلق قوانین سے باخبر رہیں”، خاص طور پر اوہائیو کی حالیہ ہائیر ایجوکیشن بل کی منظوری کے بعد، جس نے چین کے ساتھ تعلیمی شراکت داری پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
اگرچہ یہ وارننگ “چین-امریکہ تعلیمی تعاون کے حوالے سے بڑھتی ہوئی حساسیت” کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس کا مقصد براہ راست بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے چینی طلباء کو متاثر کرنا نہیں ہے، چین کی ایجوکیشن ایجنسی ایسوسی ایشن (BOSSA) کے ڈائریکٹر، منگ زے سانگ نے کہا۔یہ مشورہ 9 اپریل کو جاری کیا گیا، اسی دن جب چین کی سیاحت کی وزارت نے ایک نئی وارننگ جاری کی، جس میں چینی شہریوں کو امریکہ کے سفر سے پہلے “مکمل خطرات کا جائزہ لینے” کی تلقین کی گئی، خاص طور پر موجودہ چین-امریکہ تجارتی کشیدگی اور امریکہ کے اندرونی سیکیورٹی حالات کے پیشِ نظر۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد تقریباً 1,000 بین الاقوامی طلباء کے ویزے منسوخ کیے، اس لیے یہ وارننگ بیجنگ کی جانب سے نسبتاً “متوازن” اور “معقول” ردعمل ہے۔

سن رائز انٹرنیشنل مارکیٹنگ اور ریسرچ فرم کے سی ای او، ڈیوڈ ویکس کے مطابق، “یہ نرمی سے دی گئی وارننگز امریکی پالیسی پر ناراضگی کا اظہار ہیں، نہ کہ سفر پر پابندی لگانے کی کوشش۔”انہوں نے مزید کہا، “یہ وارننگ اوہائیو کی پالیسی پر عدم اطمینان ظاہر کرتی ہے، لیکن یہ نہ تو طلباء کو اوہائیو سے دور رہنے کا کہتی ہے، اور نہ ہی چینی یونیورسٹیوں کو اس ریاست سے گریز کرنے کو کہتی ہے۔”اوہائیو کی اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات سے متعلق بل، جو 28 مارچ کو قانون بن گیا، عوامی اداروں میں DEI (تنوع، مساوات، شمولیت) پروگرامز اور اساتذہ کی ہڑتالوں پر پابندی لگاتا ہے، اور اس کے خلاف طلباء، عملے، اور ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیے۔یہ قانون اوہائیو کی سرکاری یونیورسٹیوں کو چینی عطیات قبول کرنے سے روکتا ہے اور نئی چینی شراکت داریوں کی سخت جانچ کی ہدایت دیتا ہے، لیکن یہ ٹیکساس یا فلوریڈا جیسی ریاستوں کی طرح مکمل پابندی نہیں لگاتا۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ جاری تجارتی جنگ امریکہ اور چین کے درمیان عوامی روابط پر کیا اثر ڈالے گی، کیونکہ پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے “ریاستی میڈیا نے ابھی تک امریکہ مخالف بیانیے کو مکمل طور پر اپنایا نہیں ہے، اور عوامی رائے بھی اب تک غیر یقینی ہے،” ویکس نے کہا۔اگر ٹیرف چین میں کم ترقی والے معاشی حالات پیدا کرتے ہیں، تو امکان ہے کہ چینی خاندان تعلیم پر خرچ سے پہلے منافع اور کیریئر کے مواقع کو مدنظر رکھیں گے، اور مختلف ممالک میں یونیورسٹیوں میں درخواست دیں گے۔
ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کا مزید39طلباء کے خلاف ایکشن…….
ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کا مزید39طلباء کے خلاف ایکشن
لاہور(15اپریل،منگل):پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈسپلن، قانون کی خلاف ورزی پرمزید 39طلباء کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے مختلف سزائیں دے دیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق انتظامیہ نے 10طلباء کو خارج کردیا،جس میں ادارہ تعلیم و تحقیق سے مجتبیٰ حسین، محمد انیس، زین شوکت،شعبہ جینڈر سٹڈیز سے منیب الرحمان،محمد عارف، انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز سے شمریز ممتاز،لاء کالج سے ارسلان اسلم، محمد عمار خان،شعبہ فلاسفی سے محمد اسرار اورشعبہ سیاسیات سے محمد احمد اخترشامل ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ شعبہ جینڈر سٹڈیز سے شاہ زیب خان برکی، واجد نور خان، محمد کاشف نواز،لاء کالج سے عاطف نواز،انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز سے محمد سالار احمد گوندل اورشعبہ سوشل ورک سے محمد سمیع اللہ کوایک تعلیمی سال کے لئے معطل کرکے جرمانے عائد کردیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے 19 طلباء کو تین ماہ تک زیر نگرانی رکھنے کی سزا بھی دی گئی جبکہ چار طلباء پر 20تا50ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈسپلنری کمیٹی نے 6طلباء کو الزامات ثابت نہ ہونے پر بری کردیا۔ترجمان کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کی ہدایت پر ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کے مرتکب طلباء کے خلاف بلا امتیاز کارروائی جاری رہے گی۔ترجما ن نے کہا کہ یونیورسٹی ڈسپلنری کمیٹی ترجیحی بنیادوں پر باریک بینی سے کیسز کا جائزہ لے رہی ہے۔