پانچ سو سے زائد امریکی کالج رہنماؤںکے اتحاد کے صدرکی بین الاقوامی طلبہ کے تحفظ کے لیے قانونی جدوجہد میں شمولیت کا اعلانکر دیا ہےاتحاد (The Alliance)، جو کہ 500 سے زائد کالج رہنماؤں کی نمائندگی کرتا ہے، نے AAUP بمقابلہ روبیو (AAUP v. Rubio) مقدمے میں امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز (AAUP) کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اس اقدام کے تحت طلبہ اور اساتذہ کی بڑے پیمانے پر گرفتاری، حراست اور ملک بدری کو روکنے کے لیے عدالت سے حکم امتناعی لینے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ حمایت ایک عدالتی دستاویز کے ذریعے پیش کی گئی ہے جسے “ایمیکس بریف” (amicus brief) کہا جاتا ہے۔ اس میں اتحاد نے مؤقف اختیار کیا کہ بین الاقوامی طلبہ اور غیر شہری عملے کو نشانہ بنانے کی حالیہ کوششوں نے “خوف کا ماحول” پیدا کر دیا ہے، جو آزادانہ اظہارِ رائے کے تبادلے کو متاثر کر رہا ہے اور بین الاقوامی طلبہ و اسکالرز کو تنہا کر رہا ہے۔
اپریل کو صدر کے اتحاد کی سی ای او میریم فیلڈبلوم نے کہا:”حالیہ اقدامات نے افراد کی زندگیوں کو درہم برہم کر دیا ہے، ہمارے اداروں کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے اور کلاس روم کے اندر اور باہر علمی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔”ہوں نے مزید کہا:
“ویزا منسوخی اور ختم کیے جانے سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال نہ صرف فوری اثرات مرتب کر رہی ہے بلکہ مستقبل میں دنیا بھر سے باصلاحیت افراد کو بھرتی کرنے، ان کو برقرار رکھنے اور ملازمت دینے کی ہماری صلاحیت کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔”
یہ مقدمہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بین الاقوامی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے جانے اور حراست میں لیے جانے کے واقعات میں اضافے پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔Inside Higher Ed کی نگرانی کے مطابق، 10 اپریل تک 100 سے زائد امریکی اداروں نے 600 سے زائد بین الاقوامی طلبہ اور حالیہ گریجویٹس کی نشاندہی کی ہے جن کی قانونی حیثیت اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تبدیل کی گئی۔AAUP کی قیادت میں یہ مقدمہ 25 مارچ کو دائر کیا گیا تھا، جو ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کو چیلنج کرتا ہے جس کے تحت فلسطینی حامی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے غیر شہری طلبہ اور اساتذہ کو گرفتار، حراست اور ملک بدر کیا جا رہا ہے۔
مقدمہ کا دعویٰ ہے کہ انتظامیہ کی “نظریاتی ملک بدری پالیسی” (ideological-deportation policy) آزادی اظہار کے حق (پہلی ترمیم) اور Administrative Procedure Act کی خلاف ورزی کرتی ہے، اور یہ آئینی طور پر مبہم بھی ہے۔فیلڈبلوم نے کہا کہ بطور ایک سیکٹر متحد ہو کر وہ امید رکھتی ہیں کہ یہ بریف غیر شہری طلبہ اور اسکالرز کی خدمات کو اجاگر کرے گا، جن کے خیالات اور سائنسی ترقیات ہماری معیشت کو متحرک کرتے ہیں اور امریکی تعلیم کے تعاون پر مبنی جذبے کو برقرار رکھتے ہیں۔2023 میں بین الاقوامی طلبہ، امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کل آبادی کا 6 فیصد تھے اور انہوں نے امریکی معیشت میں 50 ارب ڈالر سے زائد کا حصہ ڈالا، جیسا کہ IIE کے مطابق بتایا گیا۔
امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ پر بے مثال حملوں نے دنیا بھر میں غصے کو جنم دیا ہے، جبکہ اتحاد نے ان طویل المدتی اثرات پر روشنی ڈالی ہے جو اختراع کو روک سکتے ہیں، ‘برین ڈرین’ میں اضافہ کر سکتے ہیں اور امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کی مسابقت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ جب ویزے جاری کرنے کی شرح میں کمی اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ کی دلچسپی میں کمی کے اشارے موجود ہوں تو پورے تعلیمی سیکٹر کا اتحاد پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ، یہ بریف امریکی طلبہ پر بھی روشنی ڈالتا ہے جو بین الاقوامی نظریات، بہتر تعلیمی تجربات اور عالمی سطح پر علمی تعاون سے محروم ہو جائیں گے۔
سائنسی ماہرین پہلے ہی امریکہ چھوڑنا شروع کر چکی ہے، خاص طور پر تحقیق میں کٹوتیوں اور علمی آزادی کو لاحق خطرات کے جواب میں۔ ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ تین چوتھائی امریکی سائنسدان ملک چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔دوسری طرف، US for Success Coalition کے ایگزیکٹو ارکان نے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتظامیہ پر زور دیں کہ وہ امیگریشن کے ایسے اقدامات اور سفری پابندیاں بند کرے جو امریکہ کی عالمی کشش کو خطرے میں ڈالتی ہیں، اور بین الاقوامی طلبہ کے امریکہ کی خوشحالی، سلامتی اور استحکام میں کردار کو اجاگر کیا۔
اتحاد تمام شعبوں بشمول اعلیٰ تعلیم، خارجہ پالیسی اور کاروبار کے طلبہ اور رہنماؤں کو اس پیغام کے ساتھ کانگریس کے ارکان سے رابطہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔AAUP بمقابلہ روبیو کا مقدمہ 23 اپریل کو عدالت میں سنا جائے گا۔
(The PIE network )بشکریہ پائی نیٹ ورک

تحریر پولی نیش