یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور اسکے سب کیمپسز سمیت پنجاب بھر کی سرکاری و نجی انجینئرنگ جامعات میں داخلے کیلئے انٹری ٹیسٹ کاآغاز ہوچکا ہے۔ پیر سے شروع ہونے والے ٹیسٹ پنجاب بھر کے 11 شہروں کے 12 سینٹرز اور 100 کمپیوٹر لیبز میں 20 مارچ بروز جمعرات تک جاری رہیں گے۔جبکہ انٹری ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان 28 مارچ کو کیا جائے گا۔ اسی طرح دوسرے انٹری ٹیسٹ کیلئے رجسٹریشن کا آغاز 7 اپریل 2025 سے ہو گا۔ جبکہ دوسرا انٹری ٹیسٹ جون میں ہو گا۔ اس موقع پر وائس چانسلر یو ای ٹی ڈاکٹر شاہد منیر نے امتحانی مراکز کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹری ٹیسٹ میں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد منیر نے انٹری ٹیسٹ انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
Uncategorized
PU NEWS……..پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی ممبرکا بڑا اعزاز: ائیر کوالٹی پر کی بہتری پر تحقیق کے لئے 50ہزار امریکی ڈالر ز کی گرانٹ جیت لی
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زعیم بن بابر
![]() |
پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف انرجی اینڈ انوائرمنٹل انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زعیم بن بابر کو 50ہزارامریکی ڈالرایئر کوالٹی گرانٹ سے نوازدیا گیا جو فیصل آباد کے پہلے مانیٹرنگ ایئر کوالٹی نیٹ ورک کو تیار کرنے کے لیے استعمال ہوگی۔اس گرانٹ میں پارٹنر انسٹیٹیوشن ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچرہے اور فنڈنگ ایجنسی انرجی پالیسی انسٹیٹیوٹ،شکاگو امریکہ ہے۔ڈاکٹر زعیم کے مطابق یہ ایوارڈ فیصل آباد کا پہلا ائیر کوالٹی مانیٹرنگ نیٹ ورک قائم کرکے پاکستان کی فضائی معیار کی نگرانی کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ فیصل آباد کے اہم علاقوں (صنعتی، تجارتی اور رہائشی شعبوں) میں 10کم لاگت والے ہوا کے معیار کے مانیٹر تعینات کرے گا، جو کہ پاکستان کا تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور ایک بڑا صنعتی مرکز ہے۔انہوں نے کہاکہ حاصل کردہ ڈیٹا کا استعمال آلودگی کے ہاٹ سپاٹ کی شناخت کے لیے کیا جائے گا اور ہوا کے معیار کے سخت معیارات کی وکالت کی جائے گی جس سے ہوا کے معیار اور صحت عامہ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ ڈاکٹر زعیم نے کہا کہ صاف ہوابنیادی انسانی حق ہے اورپراجیکٹ کا مقصد کمیونٹیز کو حقیقی وقت کے ڈیٹا کے ساتھ بااختیار بنانا ہے تاکہ فیصل آباد میں آلودگی پھیلانے والے مقامات کی نشاندہی کرنے، سخت ضابطوں کی وکالت کرنے اور اجتماعی کارروائی کی ترغیب دینے کے لیے کم لاگت ایئر کوالٹی مانیٹر کی تعیناتی کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہوا کے معیار کے ڈیٹا کو سب کے لیے قابل رسائی بنا کر ہم مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور صحت عامہ کو بہترکر سکتے ہیں۔
Minister Education……….وزیر تعلیم کے مختلف امتحانی سنٹرز کے دورے،……….. 2 جعلی امیدوار پکڑ لئے……….وزیر تعلیم کی تمام سنٹرز کے نگران عملہ کو امیدواروں کی جانچ پڑتال مزید سخت کرنے کی ہدایت
….
وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے امتحانات میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے مختلف امتحانی سنٹرز کے اچانک دورے کئے جہاں انہوں نے کیو آر کوڈ سکین کر کے امیدواروں کی شناخت چیک کی۔ وزیر تعلیم نے کیو آر کوڈ سکیننگ کے دوران جعلی امیدوار پکڑ لیا۔ طالبہ صبا اپنی بہن کی جگہ پرچہ دے رہی تھی۔ دوسری جانب چیئرمین ٹاسک فورس برائے امتحانات مزمل محمود نے بھی مختلف امتحانی سنٹرز کے دورے کے دوران ایک جعلی امیدوار رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جہاں فیضان اپنے دوست میسم علی کی جگہ امتحان دیتا پایا گیا۔ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کی ہدایت پر فیضان اور صبا کو قانونی کارروائی کیلئے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ نقل اور دھوکہ دہی میں ملوث افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کیو آر کوڈ سکین ٹیکنالوجی سے نقل اور دھوکہ دہی کا راستہ بند کر دیا ہے۔ اب کوئی امیدوار کسی کی جگہ پرچہ نہیں دے سکتا۔ رانا سکندر حیات نے کہا کہ جعل سازی کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں یقینی بنائی جا رہی ہیں۔ وزیر تعلیم نے تمام سنٹرز کے نگران عملہ اور سکواڈ کو امیدواروں کی جانچ پڑتال مزید سخت کرنے کی ہدایت کر دی
صوبے کے تمام سرکاری اور نجی کالجوں میں تفریحی میلوں اور کھیلوں کی تقریبات پر پابندی عائد کر دی……….یہ فیصلہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری کی جانب سے بعض تقریبات، بشمول تفریحی میلوں اور کھیلوں کی تقریبات، میں طلبہ اور اساتذہ کو بھارتی گانوں پر رقص کرتے دیکھنے پر اٹھائے گئے خدشات کے بعد کیا گیا۔……….تعلیمی ادارے “مقدس” مقامات ہیں، جہاں معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے، اور اس قسم کا رویہ ان کی حرمت کے منافی ہے
پنجاب ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشنز (ڈی پی آئی-کالجز) نے جمعہ کے روز صوبے کے تمام سرکاری اور نجی کالجوں میں تفریحی میلوں اور کھیلوں کی تقریبات پر پابندی عائد کر دی، ان ہم نصابی سرگرمیوں کو “غیراخلاقی” اور “فحش” قرار دیا۔
ڈی پی آئی، ڈاکٹر سید انصر اظہر نے 12 مارچ کو لاہور ڈویژن اور پنجاب کے دیگر تمام سرکاری اور نجی کالجوں کو سخت ہدایات جاری کیں کہ وہ فوری طور پر ایسی تمام سرگرمیاں بند کر دیں جو “غیراخلاقی یا فحش” سمجھی جاتی ہیں۔
یہ فیصلہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری کی جانب سے بعض تقریبات، بشمول تفریحی میلوں اور کھیلوں کی تقریبات، میں طلبہ اور اساتذہ کو بھارتی گانوں پر رقص کرتے دیکھنے پر اٹھائے گئے خدشات کے بعد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ت…..۔
ہدایات میں کہا گیا ہے کہ ایسی سرگرمیاں ان اداروں کی حرمت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور انہیں فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔
نوٹیفکیشن میں لاہور ڈویژن کے تمام ڈائریکٹرز آف ایجوکیشن (کالجز) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس پابندی کے نفاذ میں کوئی کوتاہی برتی گئی تو متعلقہ پرنسپلز، ڈپٹی ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹرز آف ایجوکیشن کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی
میڈیکل ایجوکیشن کی بڑھتی ہوئی لاگت کے بارے میں طلبا، والدین اور عوام کے بڑھتے ہوئے خدشات کے جواب میںاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم اینڈ ڈی سی) نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے لیے معیاری ٹیوشن فیس کا ڈھانچہ قائم کرے گی۔..
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم اینڈ ڈی سی) نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے لیے معیاری ٹیوشن فیس کا ڈھانچہ قائم کرے گی۔اس بات کا فیصلہ دوسری ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جو فیس کے ڈھانچے کو ریگولیٹ کرنے اور پاکستان میں طبی تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر عوامی خدشات کو دور کرنے کے لیے پی ایم اینڈ ڈی سی میں منعقد ہوا۔
میڈیکل ایجوکیشن کی بڑھتی ہوئی لاگت کے بارے میں طلبا، والدین اور عوام کے بڑھتے ہوئے خدشات کے جواب میں پی ایم ڈی سی نے فیس کے جواز کا تجزیہ کرنے، فیس کے ڈھانچے کو معقول بنانے کی فزیبلٹی کا جائزہ لینے اور میڈیکل کالج کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ٹیوشن میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک منظم اور مساوی فیس پالیسی تیار کرنے کے لیے اپنی دوسری ذیلی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔اجلاس میں نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے نمائندوں، ماہرین تعلیم، ماہرین قانون اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سمیت اہم اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔اجلاس کے دوران مختلف تجاویز پیش کی گئیں اور ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔
تاہم نجی اداروں کی ابتدائی سفارشات عوامی توقعات کے مطابق نہیں تھیں۔وسیع غور و خوض کے بعدپی ایم اینڈ ڈی سی اور اسٹیک ہولڈرز ٹیوشن فیسوں پر نظر ثانی کرنے پر اتفاق رائے پر پہنچ گئے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ مناسب حدود میں رہیں جبکہ اداروں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم کو برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے۔
کمیٹی نے فیس کا ڈھانچہ معیاری ہونے کے بعد ایک نگرانی کمیٹی کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کالج یکساں فیس کی پابندی کریں ۔کمیٹی طلباء سے زائد فیس لینے والے اداروں کے خلاف جرمانے اور پابندیاں نافذ کرے گی۔مزید برآں کمیٹی نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ کالجوں کو مستقبل میں کم آمدنی والے پس منظر کے طلباء کی مدد کے لیے اسکالرشپ اور قسط پر مبنی ادائیگی کے منصوبے متعارف کرانا چاہیے۔
صدر پی ایم اینڈ ڈی سی پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے ایک بیان میں کہا کہ اس اقدام کا نتیجہ نجی اداروں کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیوشن فیس کی حد قائم کرے گا جس سے طلبہ اور والدین کو مالی ریلیف ملے گا اور تعلیمی قابلیت کو برقرار رکھا جائے گا۔ذیلی کمیٹی کی تمام حتمی تجاویز نائب وزیر اعظم کی زیر صدارت میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی کو پیش کی جائیں گی۔پی ایم اینڈ ڈی سی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مزید تفصیلات اور حتمی فیس کا ڈھانچہ جلد ہی سرکاری چینلز کے ذریعے شیئر کیا جائے گا۔کونسل نے طلباء، والدین اور اسٹیک ہولڈرز سے کہا کہ وہ اس اہم پیش رفت کے بارے میں اپ ڈیٹ رہیں کیونکہ اس کا پاکستان میں طبی اور ڈینٹل کی تعلیم پر دیرپا اثر پڑے گا۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ہونہار اسکالرشپ پروگرام کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی منظوری دے دی ہے………. جس کے تحت گلگت بلتستان کے ان طلبہ کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی جو پنجاب میں پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ہونہار اسکالرشپ پروگرام کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت گلگت بلتستان (GB) کے ان طلبہ کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی جو پنجاب میں پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان، فیض اللہ فراق نے پنجاب کی تعلیمی ترقی کے عزم کو سراہتے ہوئے اس اقدام کو دونوں خطوں کے درمیان تعلیمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا۔طلبہ کی سہولت کے لیے ایک مخصوص ہونہار اسکالرشپ ہیلپ ڈیسک قائم کیا گیا ہے، جو صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کام کرے گا، تاکہ رہنمائی فراہم کی جا سکے اور طلبہ کے مسائل حل کیے جا سکیں۔ طلبہ واٹس ایپ (0303-4002777، 0303-4002999)، لینڈ لائن (042-99231903-4)، اور ای میل (complainthonhaar@punjabhec.gov.pk، honhaar@punjabhec.gov.pk) کے ذریعے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ اقدام ایک وسیع تعلیمی وژن کا حصہ ہے، جس میں حال ہی میں شروع کیا گیا “سی ایم ایجوکیشن کارڈ” بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کے تحت، وہ طلبہ جو سالانہ امتحانات میں 80 فیصد سے زائد نمبر حاصل کریں گے، انہیں “سی ایم اسٹار کارڈ” دیا جائے گا، جسے باضابطہ طور پر “سی ایم ایمیننس اسٹار کارڈ” کہا جاتا ہے۔ یہ کارڈ طلبہ کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے اور ان کی تعلیمی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔طلبہ کے انعامات کے علاوہ، حکومت نے متعدد اہم تعلیمی اصلاحات کا بھی اعلان کیا ہے۔ میٹرک اور تکنیکی تعلیم کے لیے جدید ترین لیبارٹری قائم کی جائے گی، جبکہ لاہور کے 338 اسکولوں میں انگلش اسپیکنگ کلاسز کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، طلبہ کو عملی مہارتیں سکھانے کے لیے پانچویں جماعت سے تکنیکی تعلیم کے مضمون کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق میٹرک ان ٹیکنالوجی کامیاب ماڈل ٹھہرے گا۔ …….. حکومت ملک کو خود مختار و ہنرمند افرادی قوت دینا چاہتی ہے۔ رانا سکندر حیات
جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اب تک کے امور کا جائزہ لیا گیا اور آئندہ سال اس میں مزید بہتری لانے کیلئے مختلف تجاویز زیر غور آئیں۔ وزیر تعلیم کو طلباء کی جانب سے مختلف ٹیک کمبینیشن اختیار کرنے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 1997 سکولوں میں ٹیک ایجوکیشن کا آغاز کیا جا رہا ہے جسے مرحلہ وار تمام سکولوں تک توسیع دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مڈل و میٹرک میں ٹیکنالوجی ایجوکیشن طلباء کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان کی کیپیسٹی بلڈنگ کیلئے لازمی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس ضمن میں اس پراجیکٹ میں جتنی بہتری لائی جا سکتی ہے فوری طور پر لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ملک کو خود مختار اور ہنرمند افرادی قوت دینا چاہتی ہے جس سے نوکری کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ نوجوان اپنے آپ کو خود مستحکم کرنے کے قابل ہوں گے۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق میٹرک ان ٹیکنالوجی نہ صرف ایک کامیاب ماڈل ٹھہرے گا بلکہ اس اقدام سے ملک کا ریونیو بھی بڑھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت جلد انٹر ٹیک ماڈل بھی متعارف کروانے جا رہے ہیں جس پر ورکنگ جاری ہے۔ اجلاس میں سیکرٹری سکولز و ہائیر ایجوکیشن، چیئرمین ٹاسک فورس برائے تعلیمی اصلاحات مزمل محمود، سی ای او پیکٹا شہنشاہ فیصل عظیم، ڈپٹی سیکرٹری بورڈ، ٹیوٹا اور سکلز ڈویلپمنٹ کے افسران نے شرکت کی۔
US NEWSٹرمپ نے انگریزی کو امریکی سرکاری زبان قرار دے دیا۔۔۔۔۔۔۔اسانی حقوق کی تنظیمو ں نے خبردار کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب۔ سے انگریزی کو امریکہ کی سرکاری زبان قرار دینےسے تارکین وطن کو سرکاری خدمات سے محروم کر دیا جائے گا اور کثیراللسانی روایت کو خطرہ لاحق ہوگا
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کا 78واں ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا، جس کے تحت انگریزی کو امریکہ کی سرکاری زبان قرار دے دیا گیا ہے۔یہ حکم نامہ سرکاری ایجنسیوں اور ان تنظیموں کو، جو وفاقی فنڈنگ حاصل کرتی ہیں، اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہیں تو انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں دستاویزات اور خدمات فراہم کریں یا نہ کریں۔
“انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کرنا نہ صرف مواصلات کو آسان بنائے گا بلکہ مشترکہ قومی اقدار کو بھی مستحکم کرے گا اور ایک زیادہ مربوط اور مؤثر معاشرہ تشکیل دے گا،” یکم مارچ کے حکم نامے میں کہا گیا۔یہ اقدام “اتحاد کو فروغ دے گا، سرکاری معاملات میں ہم آہنگی پیدا کرے گا اور شہری شمولیت کے مواقع فراہم کرے گا”۔امریکی اساتذہ اورانسانی حقوقکی تنظیموں نے وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ اس پالیسی سے انگریزی تدریسی پروگرام فوری طور پر متاثر ہونے کا امکان کم ہے، لیکن ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے تارکین وطن کو الگ تھلگ کر دیا جائے گا اور عوامی خدمات، بشمول انگریزی سیکھنے والوں کے لیے تعلیم، تک رسائی میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
یہ ہدایت سابق صدر کلنٹن کے اس حکم کو منسوخ کرتی ہے جس میں وفاقی اداروں کو غیر انگریزی بولنے والوں کو زبان سے متعلق معاونت فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔اسی وقت، یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ یہ حکم “کثیراللسانی روایت” کو تسلیم اور اس کا احترام کرتا ہے اور سرکاری اداروں کو غیر انگریزی زبانوں میں دستاویزات اور خدمات کی تیاری روکنے کا حکم نہیں دیتا۔“انگریزی بولنا نہ صرف معاشی مواقع پیدا کرتا ہے بلکہ یہ نوواردوں کو اپنی کمیونٹی کے ساتھ گھلنے ملنے، قومی روایات میں حصہ لینے اور معاشرے کی بہتری میں کردار ادا کرنے میں مدد دیتا ہے،” حکم نامے میں کہا گیا۔
شدید تنقید اور مخالفت
اس “غیر ذمہ دارانہ” حکم نامے پر ردعمل دیتے ہوئے کانگریشنل ایشین پیسفک امریکن کاکس نے کہا کہ یہ وفاقی ایجنسیوں کو “مہاجرین اور محدود انگریزی مہارت رکھنے والے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے لیے ایک دھوکہ دہی پر مبنی حربہ” ہے۔
اگرچہ 75 فیصد سے زیادہ امریکی گھروں میں صرف انگریزی بولی جاتی ہے، لیکن امریکہ میں 4 کروڑ 20 لاکھ ہسپانوی زبان بولنے والے اور 30 لاکھ چینی زبان بولنے والے بھی رہائش پذیر ہیں۔1974 میں لاؤ بمقابلہ نکولس کے تاریخی مقدمے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اسکولوں کو انگریزی سیکھنے والے طلبہ کو تعلیمی رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے مناسب مدد فراہم کرنی چاہیے، جس کے برخلاف نیا حکم نامہ کھڑا ہے۔مزید برآں، تنظیم نے کہا کہ یہ حکم نامہ سول رائٹس ایکٹ کے خلاف ہے، جس کے تحت کسی بھی فرد کے ساتھ اس کی نسل، رنگ یا قومی شناخت – بشمول زبان – کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔
پس منظر اور قانونی رکاوٹیں
پالیسی ساز کئی دہائیوں سے انگریزی کو امریکہ کی سرکاری زبان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن 2021 میں ریپبلکن اراکین کی جانب سے متعارف کرایا گیا ایسا ہی ایک قانون پاس ہونے میں ناکام رہا تھا۔ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کے چند گھنٹوں کے اندر، وائٹ ہاؤس کی سرکاری ویب سائٹ کے ہسپانوی ورژن کو ہٹا دیا گیا۔ 6 مارچ تک، یہ ویب سائٹ بحال نہیں کی گئی۔

تحریر: پولی نیش
سندھ حکومت نے قیدیوں کے بچوں کے لیے پاکستان کا پہلا تعلیمی پروگرام شروع کر دیا………..پیغامِ پاکستان کے تعاون سے 10,000 سے زائد قیدیوں کے بچوں کو ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک معاونت فراہم کی جائے گی۔
سندھ حکومت نے قیدیوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے پاکستان کا پہلا پروگرام شروع کر دیا ہے۔ اس پروگرام کی افتتاحی تقریب سینٹرل جیل کراچی میں منعقد ہوئی، جس میں سندھ کے وزیر تعلیم و معدنیات سردار علی شاہ اور وزیر جیل خانہ جات حسن علی زرداری نے شرکت کی۔
یہ اقدام سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، سندھ پریزنز ڈیپارٹمنٹ، اور پیغامِ پاکستان کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت سندھ کی جیلوں میں موجود 4,684 سزا یافتہ قیدیوں کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی، جو ابتدائی جماعت سے لے کر یونیورسٹی تک جاری رہے گی۔
تقریب میں سندھ کے ہوم سیکریٹری محمد اقبال میمن، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن زاہد علی عباسی، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات قاضی نذیر احمد، پیغامِ پاکستان کے نمائندے پروفیسر محمد معراج صدیقی، اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، اسٹیوٹا، ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ اسکولز اور جیل خانہ جات کے دیگر افسران نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ، متعدد قیدی بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا ہوگا
سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، “ہم ان بچوں کی مدد کر رہے ہیں جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ انہیں تعلیم سے محروم کرنا سب سے بڑی ناانصافی ہوگی، کیونکہ بچوں کو والدین کے گناہ کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔”انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح ریاست مجرموں کو سزا دیتی ہے، اسی طرح یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائے۔ “ہم ایک مثبت مثال قائم کر رہے ہیں۔”انہوں نے واضح کیا کہ سندھ وہ پہلا صوبہ ہے جس نے ایسا اقدام کیا ہے، اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ماڈل ہے جو قیدیوں کے بچوں کو ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک معاونت فراہم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے، اور ان کے خاندانوں کی پسند کے مطابق 10,000 سے زائد بچوں کو اسکول اور یونیورسٹی میں داخلہ دلوایا جائے گا۔
پہلا مرحلہ: 100 بچوں کو داخلہ لیٹر جاری
پروگرام کے پہلے مرحلے میں 100 بچوں کو داخلہ لیٹر جاری کیے جا چکے ہیں، جب کہ 2,638 بچوں کا ڈیٹا جمع کر لیا گیا ہے اور جلد ہی انہیں بھی داخلہ لیٹر جاری کیے جائیں گے۔وزیر تعلیم نے مزید کہا کہ داخلہ لیٹر میں صرف بچے کی تعلیم کا ذکر ہوگا اور کسی بھی صورت میں یہ ظاہر نہیں کیا جائے گا کہ وہ قیدی کا بچہ ہے۔ “یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان بچوں کو مکمل تحفظ کے ساتھ تعلیمی اداروں میں بھیجیں۔”
قیدیوں کے بچوں کی بحالی تعلیم کے ذریعے ممکن
سندھ کے وزیر جیل خانہ جات حسن علی زرداری نے کہا کہ قیدیوں کے اہل خانہ بھی عملی طور پر قید کی زندگی گزارتے ہیں، کیونکہ ان کے گھر کا کفیل جیل میں ہوتا ہے۔ “ہمیں سندھ کی جیلوں کو اصلاحی مراکز میں بدلنا ہوگا، اور قیدیوں کے بچوں کو تعلیم فراہم کرکے ہم پورے خاندان کی بحالی کا عمل شروع کر سکتے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف مرد و خواتین قیدیوں کے بچوں کی تعلیم میں معاون ثابت ہوگا، بلکہ کم عمر قیدیوں کو بھی تعلیمی اور فنی تربیت فراہم کرے گا۔ اس وقت سندھ کی جیلوں میں 14 سزا یافتہ کم عمر قیدی اور 56 بچے اپنی ماؤں کے ساتھ قید میں ہیں، جن کے لیے تعلیمی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔
قیدیوں کے خاندانوں کے لیے اضافی مدد
پیغامِ پاکستان کے منتظم پروفیسر محمد معراج صدیقی نے بتایا کہ قیدیوں کے بچوں کی مدد کے لیے تین اقسام کے پروگرام تجویز کیے گئے ہیں:
- ابتدائی جماعت سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیمی اور فنی تربیت۔
- قیدیوں کے بچوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے 500,000 روپے تک کا مائیکرو فنانسنگ۔
- سزا یافتہ قیدیوں کے خاندانوں کو ہر ماہ 12,000 روپے کی مالی مدد تاکہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے جرائم کی طرف نہ بڑھیں۔
قیدیوں کا اظہار تشکر
سندھ کی جیلوں میں اس وقت 24,000 قیدی موجود ہیں، جن میں سے 4,102 سزا یافتہ اور 582 سزائے موت کے منتظر ہیں۔
ایک قیدی، ضمیر، نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “آج کا دن میرے لیے بڑی خوشی اور سکون کا دن ہے، یہ جان کر کہ میرے بچے اسکول جائیں گے اور جرائم سے دور رہیں گے۔”ایک اور قیدی، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، جذباتی انداز میں بولا، “میرے دو بچے اب ایک اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کریں گے اور معاشرے کے مفید شہری بنیں گے۔ جب میں اپنی سزا مکمل کر کے باہر آؤں گا، تو میں تعلیم یافتہ بچوں کا فخر سے باپ کہلا سکوں گا۔”
4o
O
HEC News……….یچ ای سی انتظامیہ اور وائس چانسلرز کاطلبہ یونین کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے پر عملدرآمد کے حوالے سے اجلاس کا انعقاد………..اجلاس میں تعلیمی، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں طلبہ کی شمولیت بڑھانے اور انتخابات کے ذریعے میرٹ پر مبنی قیادت کی تشکیل کو یقینی بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایچ ای سی انتظامیہ اور وائس چانسلرز کا اجلاس ایچ ای سی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا تاکہ طلبہ یونین کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء الحق قیوم اور قائداعظم یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ورچوئل یونیورسٹی، نیوٹیک، فیڈرل اردو یونیورسٹی، پی آئی ایف ڈی اور این سی اے سمیت مختلف بڑی جامعات کے وائس چانسلرز نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں تعلیمی، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں طلبہ کی شمولیت بڑھانے اور انتخابات کے ذریعے میرٹ پر مبنی قیادت کو یقینی بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈاکٹر ضیاء الحق قیوم نے ایک منظم فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا جو طلبہ کی قیادت کو فروغ دے، جبکہ ماضی میں درپیش چیلنجز جیسے کیمپس میں تشدد اور سیاسی تقسیم سے بچاؤ کو بھی یقینی بنائے۔ انہوں نے ایک نچلی سطح سے اوپر تک کے طریقہ کار کی تجویز دی، جس کے تحت جامعات تعلیمی لحاظ سے مضبوط طلبہ کی سربراہی میں مختلف موضوعاتی سوسائٹیز قائم کریں، اور ان سوسائٹیز کے منتخب صدور پر مشتمل ایک ایگزیکٹو اسٹوڈنٹ کونسل تشکیل دی جائے، جو طلبہ کی نمائندگی یونیورسٹی اور ایچ ای سی کی سطح پر کرے۔
اجلاس میں سوشل میڈیا کو مثبت طلبہ انگیجمنٹ کے لیے استعمال کرنے کے امکانات پر بھی غور کیا گیا، جبکہ تقسیم پیدا کرنے والے اثرات کو روکنے پر بھی بات چیت ہوئی۔ کمیٹی ایک جامع ماڈل پر مزید غور و خوض کرے گی تاکہ ذمہ دارانہ طلبہ نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
All reactions:
4949