سید علی بخاری
جمہور کا براہ ِ راست تعلق معاشروں سے ہوتا ہے ،معاشرہ اور جمہور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ،اگر معاشرہ درست سمت نہ ہوگا تو جمہور(لوگ)بھی درست سمت میں نہ ہوں گے بالکل اسی طرح اگر جمہور درست سمت میں نہیں ہو گا تو معاشرہ بھی متضادسمت میں ہوگا،اسلام نے پوری دُنیا کو ایک الگ معاشرہ اور معاشرتی نظام فراہم کیا یہ نظام احترام انسانیت،احترام معاشرہ اور احترام جمہور کیلئے رہتی دُنیا تک کسی اندھیرے میں چراغ سے کم نہ ہے ،اگر مشاہدہ کیا جائے تو دُنیا میں 57اسلامی ممالک ہیں جو کہ پوری دُنیا کا ایک چوتھائی حصہ سے زیادہ بنتا ہے مگر اکثریتی علاقوں میں روشن معاشرتی نظام کے باوجود آج پوری دُنیا میں سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار قوم بھی مسلمان ہی ہیں ،بدنام بھی ،غریب بھی اور مظلوم بھی جبکہ قابل غور امر یہ ہے کہ 70 فیصد آمدنی کے قدرتی و دیگر وسائل بھی مسلم ممالک کے پاس موجود ہیں۔۔احترام جمہور کے لیے احترامِ نظامِ اِسلامی قوانین نہایت ضروری ہیں اور انفرادی سطح پر تزکیہ بھی ناگزیر ہو گیا ہے ۔ان خیالات کا اظہار سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان نے گزشتہ دنوں شوریٰ ہمدرد لاہورکے زیر اہتمام ”احترام جمہور“ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کیا۔اجلاس میں اسپیکر کے فرائض محترم قیوم نظامی نے ادا کیے جبکہ محترمہ مہناز رفیع،برگیڈیئر (ر)حامد سعید اختر،محترم ثمر جمیل خان،رانا امیر احمد خان،پروفیسر ڈاکٹر پروین اے خان،پروفیسر خالد محمود عطاء،محترم راشد حجازی،محترمہ خالدہ جمیل چوہدری،ڈاکٹر عمران مرتضی،محترم راشد حمید کلیانوی،محترم کاشف ادیب جاویدانی، محترم شعیب مرز،ایم آر شاہد اودیگر شامل تھے۔قاری فاروق اکرم کی تلاوت کلام مجید سے اجلاس کاآغاز ہوا۔ محترم خالدہ جمیل چوہدری نے مرحوم ایس ایم ظفر کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا اور دعائے مغفرت کروائی محترم قیوم نظامی نے محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کا پیغام پڑھ کر سنایا اس موقع پر نظامی صاحب کا کہنا تھا کہ عنوان کے حوالے سے ہمارے پاس دو مثالیں بہت اہم ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کو معلوم ہوا کہ ایک صحابیؓ کئی ایام سے مسجد نہیں آ رہے تو وہ اُنکے گھر چلے گئے معلوم ہوا کہ وہ معزور ہو گئے ہیں تو خلیفہ وقت نے اُنکے لیے ایک خادم بیت المال سے وقف کیا جو اُنکی خدمت پر معمور ہو گیا ،یہ تھا ایک ووٹر کا احترام،انہوں نے کہا کہ آج ہمیں قائداعظم جیسے رہنماﺅں کی ضرورت ہے ،قائداعظم ؒ کو وائس رائے نے آفر دی کہ میری کانگریس کے راہنماﺅںسے بات ہوگئی ہے آپ کو پورے ہندوستا ن کا وزیراعظم منتخب کیا جائے گا اور کیبنٹ بھی آپکی مرضی کی ہوگی بس آپ علیحدہ وطن کا مطالبہ کچھ عرصہ کے لیے مو¿ خر کر دیں اور اس پر قائداعظمؒ نے تاریخی الفاظ کہے کہ ’میں اپنی قوم کا سودانہیں کر سکتا محترمہ مہناز رفیع نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں ہم صرف تقاریر سے محض نہ بہل جائیں بلکہ کارکردگی دیکھ کر اپنا نمائندہ منتخب کریں،اب جمہور کو اتنا شعور آ جانا چاہیے کہ شکل دیکھ کر نہیں بلکہ انکے کارکردگی دیکھ کر ووٹ دینا ہے ،انہوں نے ہمارے پاس احترام جمہور کے حوالے سے شہید حکیم محمد سعید کی مثال بھی موجود ہے جنہوں نے احترام معاشرہ اور احترام انسانیت کے لیے عملی اقدام اٹھائے برگیڈیئر (ر)حامد سعید اختر نے کہا کہ جمہوریت جمہور کی فلاح و بہبود کا نظام ہے ،جسمیں جمہور اپنے مسائل اور بہترمستقبل و حکومت بنانے کے لیے نمائندہ منتخب کرتی ہے اور اِسی کے تحت اختیارات اُسی حکومت کوسونپ دئیے جاتے ہیں لہذا جمہور کو اپنا حق منوانا ہوگا اور ماضی میں کی ہوئی غلطیوں سے ہمیں سیکھنا ہوگا۔محترم راشد حجازی نے کہا کہ جمہوریت کی روح جمہوری ہے اور جمہور اکثریت کو کہتے ہیں یعنی عوام کی کثیر تعداد جمہور کہلاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں سسٹم خواص کے ہاتھوں میں ہے نہ کہ جمہور کے ہاتھوں میں ،ہمارے ملک میں جمہور تو صرف ایک دن کے لیے ہیں جس دن الیکشن ہوتا ہے اس دن لائنوں میں لگ کر ووٹ دیا جاتا ہے ،ہمارا آئین کہتا ہے کہ جمہور کی رائے سے ریاست قائم کی جائے گی لیکن اس ملک میں پڑھے لکھے اشرافیہ کے ہاتھوں جمہور کی تذلیل ہو رہی ہے جسکی روشن دلیل حکمرانوں کا پروٹوکول ہے اورعدالتوں میں لگے کیس ہیں۔محترم راشد حمید کلیانوی نے کہاکہ جمہور اور الیکشن الگ الگ معاملات ہیں ،پاکستان میں جتنے بھی الیکشن ہوئے آج تک جمہورکی مرضی کے نہیں ہوئے،انہوں نے اپنی تجاویز میں صدارتی نظا م کے رائج ہونا کیطرف توجہ دلائی ۔اجلاس کوسمیٹتے ہوئے محترم قیوم نظامی نے کہا کہ ریاست کی سطح پر جمہور کے احترام کا تقاضا ہے کہ جمہور کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی حقوق یکساں ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی دی جائے۔ جب جمہور کا ریاستی سطح پر اس طرح احترام کیا جاتا ہے تو پھر جمہور بھی ہجوم سے قوم کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔