صوبائی وزیر اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ
اروڑا نے کہا ہے کہ سماج میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہئے، سکھ
برادری کے لیے حضرت میاں میر رحمتہ اللہ کے دربار پر جانے کی ہمیشہ خواہش
ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار رمیش سنگھ اروڑا نے ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں
سوسائٹی کے لیے سماجی اور ثقافتی اقدامات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے
خطاب کے دوران کیا۔ سیمینار میں وائس چانسلر ڈاکٹر فلیحہ زہرا کاظمی، ممبر
امن کمیٹی مفتی عاشق حسین، وائس چانسلر یو ای ٹی ڈاکٹر شاہد منیر، برگد کی
ایگزیکٹو ڈائریکٹر صبیحہ شاہین، ایس ایس پی ساجد کھوکھر، ایس پی سید محمود
الحسن سمیت اساتذہ اور طالبات نے شرکت کی۔ رمیش سنگھ اروڑا نے اپنے خطاب
میں کہا کہ اس خطے میں بدھ ازم، سکھ ازم کو فروغ ملا، پاکستان کو نکال کر
سکھوں کی تاریخ نامکمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسیحی برادری کی خوشیوں میں ہر
پاکستانی شریک ہوتا ہے۔ سیمینار سے خطاب میں وائس چانسلر ڈاکٹر فلیحہ زہرا
کاظمی نے کہا کہ ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں اقلیتوں کے لیے 2 فیصد نشستیں
مختص ہیں اور یونیورسٹی میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا
خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقلیتی برادری پاکستان کی ترقی
میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ تقریب سے خطاب میں مفتی عاسق حسین نے کہا کہ
ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی جب متحد ہوں گے تو پاکستان مزید خوبصورت بنے
گا۔ وائس چانسلر یو ای ٹی ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کی تعلیم
کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی، تعلیم یافتہ اقلیتوں کے لئے 5 فیصد
ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا جانا چاہئے۔ سیمینار کے دوران لاہور کی مختلف
یونین کونسلز میں فلاحی کام کرنے والی مسیحی خواتین کو خصوصی طور پر مدعو
کیا گیا تھا اور انھوں نے اپنے تجربات شیئر کیے۔ برگد کے اشتراک سے منعقدہ
اس سیمینار کے موقع پر کرسمس کا کیک بھی کاٹا گیا۔
—
Uncategorized
قرآن کے میسج کو سمجھنے اورمسلم ممالک کے مابین روابط کو مضبوط کرنے کیلئے عربی زبان کا فروغ ضروری ہے، ڈاکٹر محمد علی۔۔۔۔۔۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ عربی کے زیر اہتمام عربی زبان کے عالمی دن پر ’آپ بیتی۔عربی ادب میں‘ کے موضوع پردو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ۔۔۔۔۔۔۔۔ سعودی عرب، اردن، فلسطین، عراق، مصر، الجزائراور پاکستان سے مندوبین، محققین، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعداد میں شر کت کی۔
وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے میسج کو سمجھنے اورمسلم ممالک کے مابین روابط کو مضبوط کرنے کے لئے عربی زبان کا فروغ ضروری ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ عربی کے زیر اہتمام عربی زبان کے عالمی دن پر ’آپ بیتی۔عربی ادب میں‘ کے موضوع پرالرازی ہال میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پرپرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران، پرنسپل اورینٹل کالج پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان، چیئرمین شعبہ عربی پروفیسر ڈاکٹر حامد اشرف ھمدانی، سعودی عرب، اردن، فلسطین، عراق، مصر، الجزائراور پاکستان سے مندوبین، محققین، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعداد میں شر کت کی۔ اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ مسلم امہ کی مضبوطی، اتحاد اوریکجہتی کیلئے عربی زبان بہت اہمیت کی حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جو ہے وہ تقسیم کرکے معاشرے کو بگاڑ سے بچانا چاہیے اوراللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فرقہ واریت سے باہرنکلنا ہوگا تاکہ اسلامی،فلاحی اورمثبت سوچ کے ساتھ مملکت کو اکٹھا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر میں اسلام کی ترویج کیلئے صوفیاء کا کردار ناقابل ِ فراموش ہے۔ انہوں نے بہترین کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کی کاوشوں کو سراہا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے کہا کہ اردو اور عربی زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ بیتی لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ انہو ں نے کہا کہ علمی و باہمی روابط کو فروغ دینے، ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے اور طلباء کے علم میں اضافہ کے لئے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد خوش آئند ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے کہا کہ کانفرنس میں پیش کیا جانے والا لٹریچر، آئیڈیاز اور موضوعات شاندار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ بیتی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ادب کا تعلق صرف خیال سے نہیں بلکہ حقیقت سے بھی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر حامد اشرف ھمدانی نے کہا کہ عربی زبان کے عالمی دن پر دو روزہ کانفرنس میں وائس چانسلرڈاکٹر محمد علی،ملکی و غیر ملکی مندوبین، محققین، اساتذہ اور طلباء کو خوش آمدید کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں 65سے زائد تحقیقی مقالے پیش کئے جائیں گے۔کانفرنس بروز جمعرات (آج) بھی جاری رہے گی۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے تعاون جاری رکھیں گے……… بین وارینگٹن ہیڈ آف لاہور آفس برٹش ہائی کمیشن کا پنجاب یونیورسٹی ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیر اہتمام کرسمس کیک کاٹنے کی تقریب سے خطاب …
ہیڈ آف لاہور آفس برٹش ہائی کمیشن بین وارینگٹن نے کہا ہے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے تعاون جاری رہے گا۔وہ پنجاب یونیورسٹی ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیر اہتمام کرسمس کیک کاٹنے کی تقریب سے وحید شہید ہال میں خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر وائس چانسلر ڈپٹی ہیڈ آف لاہور آفس برٹش ہائی کمیشن سعید الحسن،مسز ماریہ وارینگٹن، پنجاب یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد، ممبر قومی اسمبلی شمائلہ رانا، ممبر صوبائی اسمبلی سلمہ سعید ہاشمی، ڈائریکٹر ادارہ تعلیم و تحقیق پروفیسر ڈاکٹر عبدالقیوم چوہدری، فیکلٹی ممبران، مسیحی ملازمین اور طلباؤطالبات نے شرکت کی۔ اپنے خطاب میں بین وارینگٹن نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے کرسمس ہمارے لئے بہت اہم ایونٹ ہے جس میں امن اور بھائی چارے کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی آنے سے پہلے اس کی خوبصورتی کے بارے میں جیسا سنا تھا اس سے زیادہ بہتر پایا۔ڈاکٹر محمد علی نے بہترین تقریب کے انعقاد پر ڈاکٹر عبدا لقیوم چوہدری اور ان کی ٹیم کو مبارک بادپیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتیں پاکستان کے بہترین شہری ہیں جو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقلیتی براداری پاکستان میں محبت، امن اور آزادی سے زندگی گزارتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب آپ کی خوشیوں میں شریک ہیں۔سعید الحسن نے کہا کہ امن کے سوا کوئی دوسرا رستہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے، سننے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ شمائلہ رانا نے کہا کہ اقلیتیں ہمارے جسم کا حصہ ہیں جو ہمارے دلوں میں رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آپ کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی اور دفاع میں ہم سب اکھٹے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القیوم چوہدری نے کہا کہ پروگرام کے انعقاد کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی، امن، برداشت اور رواداری کو فروغ دینا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ تعلیم و تحقیق کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا پروگرام ہوا ہے جس کے لئے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کے شکر گزار ہیں۔ اس موقع طلباء کی طرف سے موسیقی پیش کی گئی۔ بعد ازاں بین وارینگٹن، ڈاکٹر محمد علی و دیگر نے کرسمس کا کیک کاٹا۔
پنجاب یونیورسٹی آسا کے زیر اہتمام ریٹائرڈ اساتذہ کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا انعقاد
لاہور (17دسمبر،منگل): پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام رواں برس ریٹائرڈ ہونے والے اساتذہ کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا انعقاکیا گیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، پرووائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود، صدر آساڈاکٹر امجد عباس مگسی، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد اسلام اور فیکلٹی ممبران نے شرکت کی۔ اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ اساتذہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے شروع کیا گیا سلسلہ لائق تحسین ہے،جس کے لئے پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن مبارک باد کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعات کو لازمی طور پر اپنے ریٹائرڈ اساتذہ کا شکر گزار رہناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ بہت قابل ہیں جن کی معاونت سے ادارے کو بہت فرق پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ استاد کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا بلکہ ریسرچ کو فروغ دینے کے لئے زیادہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ڈاکٹر امجد عباس مگسی نے کہا کہ کامیاب تقریب کے انعقاد کیلئے تعاون پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کے شکر گزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن نے اپنے منشور کے مطابق اساتذہ کی خدمات کو سراہنے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تقاریب سے محبت، اخوت اورباہمی احترام کو فروغ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آساپنجاب یونیورسٹی اساتذہ کی خدمت کیلئے اپنا بھرپور کردار اداکرتی رہے گی۔ بعد ازاں وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد علی نے ریٹائرڈ اساتذہ کواعزازی شیلڈز پیش کی۔
–گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور سول سروسز اکیڈمی کے درمیان تعلیمی اور پیشہ ورانہ تعاون کے فروغ کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
–گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور سول سروسز اکیڈمی کے درمیان تعلیمی اور پیشہ ورانہ تعاون کے فروغ کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط۔ سول سروسز اکیڈمی میں منعقد تقریب میں جی سی یو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور سی ایس اے کے ڈائریکٹر جنرل فرحان عزیز خواجہ نے معاہدہ پر دستخط کیے۔معاہدے کا مقصد زیر تربیت افسران میں مشترکہ طور پر سائنس و ٹیکنالوجی، آرٹس اور اردو زبان کی مہارتوں کو فروغ دینا ہے۔اس کے علاوہ، تربیتی پروگرام میں سپورٹس سائنسز کو شامل کر کے افسران میں قیادت، ٹیم ورک، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا بھی اس معاہدے کا حصہ ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے اسے دونوں اداروں کے لیے اہم پیشرفت قرار دیا اور کہا کہ یہ تعاون تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے افسران کی پیشہ ورانہ تربیت کو بہتر بنائے گا۔ڈائریکٹر جنرل سی ایس اے فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ دونوں اداروں کے درمیان فیکلٹی کے تبادلوں اور مشترکہ تربیتی پروگرامز کے ذریعے اہم پیش رفت ہوگی۔تقریب میں دونوں اداروں کے سینئر اساتذہ نے شرکت کی۔
شعبہ خصوصی تعلیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام خصوصی تعلیم میں ریسرچ کے موضوع پر دوروزہ چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ۔۔۔۔۔۔۔انفرنس کے دوسرے روز وائس چانسلر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر مظہر ایاز نے خصوصی شرکت کی۔ کانفرنس کے دوسرے روز پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی نے کی
شعبہ خصوصی تعلیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام خصوصی تعلیم میں ریسرچ کے موضوع پر دوروزہ چوتھی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ کانفرنس میں آن لائن ذرائع سے انڈیا، نائجیریا، ملائیشیاء اور پاکستان کی مختلف جامعات اور اداروں سے مندوبین شریک ہوئے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران وائس چانسلر افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی تھے۔ افتتاحی سیشن میں اپنے خطاب میں وائس چانسلر نے کہا کہ اس کانفرنس کا انعقاد خصوصی تعلیم کے شعبے میں خصوصی افراد کیلیے اعلیٰ تعلیم کے لیے ہماری کوششوں کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے خصوصی تعلیم کے محققین، مدرسین، پالیسی ساز اداروں کے نمائندے اور طلباو طالبات ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں گے تاکہ خصوصی افراد کے لیے تعلیم میں جدید طریقوں کو اپنا کر جدت لائی جا سکے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور تمام طلباو طالبات کے لیے مہیا وسائل کو زیادہ سے زیادہ قابل استعمال اور موثر بنا کر ذہنی اور فکری ابیاری کے لیے کوشاں ہے۔ امید واضح ہے کہ کانفرنس کے مندوبین اور اسٹیک ہولڈر خصوصی افراد کے اہم ایشو کی بہتری سے متعلق مفید سفارشات پیش کر ے گے۔ ڈین فیکلٹی آف ان لائن اینڈ ڈسٹنس ایجوکیشن و کانفرنس چیئر پروفیسر ڈاکٹر نسرین اختر نے کہا کہ اس کانفرنس میں ہونے والے مباحث اور تحقیقی مقالات خصوصی تعلیم کے شعبے میں قومی اور بین الاقوامی دائیلاگ میں اہم پیش رفت ثابت ہوں گے۔ خصوصی تعلیم کو دور حاضر میں درپیش چیلنجز کے تناظر میں اس کانفرنس کا انعقاد نہایت اہم ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نسرین اختر نے ہیلپنگ ہیڈ فار ریلیف اور شعبہ سپیشل ایجوکیشن کے تعاون کو سراہا۔ پروفیسر ڈاکٹر ارشاد حسین ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن نے کہا کہ فیکلٹی ہذا تعلیم کے شعبے میں ایک سنٹر آف ایکسی لینسی کے طور پر جامعہ اسلامیہ کا نام روشن کر رہی ہے۔ ہمارے اساتذہ نہ صرف جامعہ میں بلکہ دیگر اداروں کے ساتھ بھی ملکر تعلیم کی ترقی و ترویج کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شعبہ خصوصی تعلیم بھی اساتذہ کی استعدادکار میں اضافے اور جدید طریقہ تعلیم سے میسر نصاب و عملی تعلیم کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کانفرنس میں ڈاکٹر عمران لطیف سیفی، عکس نور، فائضہ رمضان، محمد اویس شہزاد، ڈاکٹر فریحہ سہیل، راؤ اسامہ، چوہدری زاہد اجمل، پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر، پروفیسر ڈاکٹر رانا محمد دلشاد، ڈاکٹر محمد شاہد فاروق نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس سیکرٹری ڈاکٹر عمران لطیف سیفی نے شریک مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات کو اعلیٰ پالیسی ساز اداروں اور حکومتی ایوانوں تک پہنچایا جائے گا۔ کانفرنس میں مجموعی طور پر 100 سے زائد مقالات مقالہ جات پیش کئے گئے۔کانفرنس کے دوسرے روز وائس چانسلر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر مظہر ایاز نے خصوصی شرکت کی۔ کانفرنس کے دوسرے روز پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی نے کی اور ڈاکٹر محمد امجد نے کلیدی خطبہ دیا۔ دوسرے سیشن میں ڈاکٹر مسعود احمد اور ڈاکٹر محمد عدیل نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔
جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس کے تین رکنی وفد کاگورنمنٹ سکالرشپ پروگرام کے سربراہ محمد خاصکیہ کی سربراہی میں پنجاب یونیورسٹی کا دورہ
جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس کے تین رکنی وفد نے گورنمنٹ سکالرشپ پروگرام کے سربراہ محمد خاصکیہ کی سربراہی میں پنجاب یونیورسٹی کا دورہ کیا اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی سے ملاقات کی۔اس موقع پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایڈوائزر ایچ آر ڈی محمد رضا چوہان، ڈائریکٹر جنرل ریجنل سنٹر،لاہور غلام نبی،پراجیکٹ ڈائریکٹر جہانزیب خان، پنجاب یونیورسٹی ڈائریکٹر ایکسٹرنل لنکجزپروفیسر ڈاکٹر یامینہ سلمان اور دیگرنے شرکت کی۔ دورے کے دوران فریقین نے طلباء اور فیکلٹی کے تبادلے کے پروگراموں، مشترکہ تحقیقی منصوبوں اور استعداد کار میں اضافے کے حوالے سے ممکنہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے داد(DAAD) کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم میں بین الاقوامیت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے جدت کو فروغ دینے کے لیے طلباء اور فیکلٹی کی زیادہ نقل و حرکت کی ضرورت پر زور دیا۔ وفد کے شرکاء نے پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کو وفروغ دینے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔بعد ازاں وفد نے سنٹر آف ایکسی لینس ان مالیکیولر بائیولوجی(کیمب) کا دورہ کیا۔ ڈائریکٹر کیمب پروفیسر معاذالرحمن نے انہیں ہیلتھ اینڈ ایگری بائیوٹیک لیبز میں جاری تحقیقی سرگرمیوں کے بارے میں بریف کیا۔ وفد نے کیمب میں تیار کردہ سٹیم سیل مصنوعات، بائیو فارماسیوٹیکل اور ایگری بائیوٹیک مصنوعات میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔وفد نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا بھی دورہ کیا اور قدیم مخطوطات کا ذخیرہ دلچسپی کے ساتھ ملاحظہ کیا
ی آئینی ترمیم ۔ ایک جائزہ کے عنوان سے 9نومبر بروز بدھ شوریٰ ہمدرد لاہور کا اجلاس مقامی ہو ٹل شالیمار ٹاور میں منعقد کیا گیا اجلاس میں اسپیکر کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے ادا کیے جبکہ معزز اراکین میں جناب قیوم نظامی جناب ،برگیڈیئر حامد سعید اختر ،جناب ڈاکٹر خالد محمود عطا ،جناب رانا امیر احمد خان، جناب کاشف ادیب جاویدانی، جناب پروفیسرنصیر اے چوہدری ،جناب ثمرجمیل خان ،جناب حکیم راحت نسیم سوہدوری اور مبصرین کے طور پر جناب حکیم عمر توصیف ،جناب راشد حجازی ،محترمہ آمنہ پروین صدیقی ،جناب اے ایم شکوری ،جناب نصیر الحق ہاشمی ،جناب جمیل بھٹی ،جناب انوار قمر، انجینیئرمحمدآصف ، رفاقت حسین رفاقت ،ایم آر شاہد سمیت دیگر نے شرکت کی ماہر قانون صدر لیگل کونسل ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان جناب اشتیاق چوہدری بطور مہمان خاص شریک ہوئے انہوں اپنے خطاب میں بتایا کہ26ویں آئینی ترمیم کے ایک مثبت پہلو پر نظر ڈالی جائے تو آئین کے آرٹیکل 9-اے میں صاف و شفاف ماحول کی ضمانت دی گئی ہے جو زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح آئین کے آرٹیکل 38کی کلاز (ایف)میں سود کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائیگا جبکہ 26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ تنقید آئین کے آرٹیکل 175اے کے بارے میں سامنے آئی ہے جس میں جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد9سے بڑھا کر 13کر دی گئی ہے جس کے ذریعے 2قومی اسمبلی کے ممبر ہوں گے جبکہ 2سینٹ کے ممبر ہوں گے جبکہ ایک غیر مسلم رکن یا خاتون وہ بھی اسپیکر کی صوابدید پر کمیشن کا ممبر بنے گا، اس طرح سیاست دانوں اور انتظامیہ کے ممبران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ 20اکتوبر کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کیاگیا جس کے بعد اس بل کو اگلی صبح 21اکتوبر کو قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت منظور کرلیاگیا، بنیادی مقاصد میں سپریم کورٹ کے ازخود(سوموٹو) اختیارات لینا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنا اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینا شامل ہیں۔ اسکے تحت ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور اس کمیٹی میں مختلف تجاویز پر بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ بل میں اپوزیشن کی جانب سے اختلافات پر مبنی ردعمل دیکھنے میں آیا تنازع کی ایک بڑی وجہ ایک مجوزہ وفاقی آئینی عدالت تھی، اس کی بجائے آئینی بینچ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جسے مسودے میں شامل کر لیا گیا ہے۔جے یو آئی(ف) نے پی پی پی کے ساتھ مسودے پر معاہدہ کیا جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں حتمی مسودے پر ’کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ انہوں نے ووٹنگ کے طریقہ کار کا باضابطہ بائیکاٹ کیاابتدائی مسودے میں مبینہ طور پر 56 ترامیم تجویز کی گئی تھیں تاہم تمام جماعتوں کے درمیان بھرپور غور و خوض کے بعد پارلیمنٹ میں آنے والے حتمی مسودے میں ان کی تعداد کم کر کے 22 کر دی گئی۔
٭ ماہرین واراکین شوریٰ کی جانب سے گذشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں درج ذیل تجاویز پیش کی گئیں:
٭ 26 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 175 اے کی کلاز تھری کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کو تجویز کیا گیا ہے جو کہ 12 ارکان پر مشتمل ہوگی جن میں سے آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینٹ سے لیے جائیں گے اس ترمیم کی وجہ سے اب سینیئرترین تین ججوں میں حکومتی پارلیمنٹیرین خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوگا کہ جو زیادہ پارلیمنٹیرین کے قریب ہوگا وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فاٸز ہو اگر اس ترمیم کو بدل دیا جائے کہ سینیئر ترین جج ہی چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوگا تو عدلیہ کی
آزادی کے لیے بہتر ہو جائے گا۔٭ آئین کے آرٹیکل 175 اے کی کلاز فور کے مطابق ججز کی کارکردگی جانچنے کے طریقہ کار کا اختیار بھی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے جو کہ عدلیہ کے معاملات میں براہ راست مداخلت ہے ججز کی کارکردگی جانچنے کا معیار فقط سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس رہنا چاہیے ٭ آرٹیکل 191 اے کے تحت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دے دیا گیا ہے جو کہ درست نہیں آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس اور ساتھی ججز کے پاس ہی رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح حکومت من پسند فیصلوں کے لیے خود آئینی بینچ تشکیل نہیں دے سکے گی٭ آئین کے آرٹیکل 193(2) میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے جس کے تحت پہلے جج بننے کی عمر 45 سال مقرر تھی جبکہ اب 40 سال کر دی گئی ہے دنیا بھر میں مسلمہ اصول یہی ہے کہ تمام آئینی عہدوں پر تقرر کے لیے کم از کم عمر 45 سال ہونی چاہیے۔٭ آئین کے آرٹیکل 199 میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے ہائی کورٹ کا از خود نوٹس کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے اسی طرح آرٹیکل 184 میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور سپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کا اختیار اعلی عدلیہ کے پاس رہنا چاہیے تاہم از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی ملنا چاہیے٭ آئین کے آرٹیکل 175اے کا کلاز 18 کے مطابق جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ حکومت میں بیٹھے سیاستدان ججز کو انفلوئنس کر سکیں گے کیونکہ ججز کی سالانہ رپورٹ کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں پارلیمنٹیرین کا حصہ بڑھ چکا ہے ، وزیر قانون ،اٹارنی جنرل کے علاوہ پانچ مزید ارکان اسمبلی و سینٹ سے ارکان کی تعداد ملا کر 7ہو جاتی ہے جبکہ کل تعداد 13 میں سے 7ارکان ہر فیصلے کو منظور کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ججز کو بااختیار کیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کے دبائو سے بالاتر ہوکر فیصلہ کر سکیں۔٭ آئین کے آرٹیکل 175-اے کی کلاز 8کیمطابق ججز کی تعنیاتی میں بھی ارکان پارلیمنٹ کا بنیادی رول سامنے آیا ہے ، حکومتی ارکان /سیاستدان من پسند ججز نامزد کرسکے گی ۔ججز کی سلیکشن کی شفافیت کیلئے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کو بیلنس کیا جائے تاکہ حکومتی ارکان من پسند ججز کی بھرتی نہ کر سکیں ۔٭ شوریٰ ہمدرد قومی اداروں بشمول پارلیمنٹ وعدلیہ کو تجویز کرتی ہے کہ قوم میں بڑھتی ہوئی تفریق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات
کیے جائیں جس کے لیے ہر شعبہ کے ماہرین پر مشتمل غیر جانبدار اور سمجھدار افراد پر مبنی ایک قومی ادارہ تشکیل دے دیا جائے تاکہ اس
تفریق کو ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
From:
IUB News….فیکلٹی آف لاء اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے زیراہتمام خصوصی تقریب ……..شعبہ ہارٹیکلچر سائنسز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے لیکچرر ڈاکٹر فیصل ذوالفقار دنیا کے1فیصد بااثر محققین کی فہرست میں شامل
فیکلٹی آف لاء اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے زیراہتمام خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے کی۔تقریب میں ڈین فیکلٹی آف لاء پروفیسر ڈاکٹر راو عمران حبیب،ڈین فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کے صدر سردار عبدالباسط خان، جنرل سیکریٹری سہیل اختر الکڑا، جوائنٹ سیکریٹری میاں سعادت علی ندیم، فنانس سیکریٹری عمران میسن، لائبریری سیکرٹری محمد طفیل ٹھاکرنیز ایگزیکٹو ممبران صفوان رضا عباسی اوراحمدداؤدچوہان نے خصوصی شرکت کی۔تقریب کا مقصد ایل ایل بی داخلوں کی بحالی کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو سراہنا اور اس پروگرام کی اہمیت پر زور دینا تھا۔ وائس چانسلر نے اس موقع پر کہا کہ لاء فیکلٹی کے نئے انفراسٹرکچر کا کیس سینڈیکیٹ میں پیش کیا جا چکا ہے اور جلد ہی تعمیراتی کام کا آغاز ہوگا۔ انہوں نے ایل ایل بی پروگرام کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا ایک فلیگ شپ پروگرام قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس موقع پر ڈین فیکلٹی آف لاء پروفیسر ڈاکٹر راو عمران حبیب نے کہا کہ یہ تقریب فیکلٹی آف لاء کی ہائیکورٹ بار ایسوسی سے دیرینہ تعلقات کی عکاس ہے۔ اس موقع پر صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سردار عبدالباسط خان اور جنرل سیکریٹری سردار سہیل اختر الکڑا کی خدمات کو بھی سراہا گیا جنہوں نے پاکستان بار کونسل کے سامنے یونیورسٹی کے کیس کو بھرپور انداز میں پیش کیا اور اس کے لیے خصوصی سفارشات دیں۔ جوائنٹ سیکریٹری میاں سعادت علی ندیم کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا گیا جنہوں نے لاء لائبریری کے لیے خطیر رقم کی کتابیں بطور تحفہ دی ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ اڑھائی سو کتابیں بطور تحفہ دے چکے ہیں۔ تقریب میں ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کی جانب سے پچاس کمپیوٹرز پر مشتمل کمپیوٹر لیب کے قیام کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ یہ تعاون طلبہ کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
شعبہ ہارٹیکلچر سائنسز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے لیکچرر ڈاکٹر فیصل ذوالفقار دنیا کے1فیصد بااثر محققین کی فہرست میں شامل
شعبہ ہارٹیکلچر سائنسز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے لیکچرر ڈاکٹر فیصل ذوالفقار دنیا کے1فیصد بااثر محققین کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔ دنیا بھر سے 59 ممالک اور خطوں کے ہزاروں اسکالرز میں سے ڈاکٹر فیصل ذوالفقار کا شمار ان 6,886 محققین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے فیصل ذوالفقار ان دو پاکستانی محققین میں سے ایک ہیں جنہیں کلیریویٹ ویب آف سائنس کے ذریعہ مرتب کردہ کثیر حوالہ جات والے محققین 2024 کی ٹاپ 1فیصد عالمی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران اور ڈین فیکلٹی آف ایگریکلچر اینڈ انوائرمنٹ پروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین ترابی نے سکالر کی اس منفرد کامیابی کو سراہتے ہوئے مبارکباد دی ہے۔
پاک، جرمن منصوبہ بندی: یو ای ٹی لاہور میں شہری و دیہی زمینوں اور ثقافتی ورثے کی کراس کلچرل پرسیپشن پربین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد۔۔۔۔۔ ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے جرمنی اور پاکستان کے مابین مشترکہ کاوشوں پر اتفاق
شعبہ سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ (سی آر پی) کے زیر اہتمام یو ای ٹی میں شہری اور دیہی زمین کی تزئین و آرائش اور ثقافتی ورثے کے کراس کلچرل پرسیپشن پربین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔کانفرنس میں پاکستان اور جرمن کے ماہرین اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کا انعقادٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈورٹمنڈ جرمنی،یو ای ٹی، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی (ایل سی ڈبلیو یو) اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)اسلام آباد کے اشتراک سے ہوا،جس میں پائیدار شہری منصوبہ بندی، دیہی ترقی، اور ثقافتی ورثے کے تحفظ پر تبادلہ خیال کیاگیا۔کانفرنس کا مقصدجرمنی، فلپائن، ایران اور پاکستان کے درمیان ثقافتی ورثے کے تحفظ پرتعاون کو فرغ دینا تھا۔وائس چانسلر یو ای ٹی پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔
مہمان مقررین نے جرمنی کی شہری منصوبہ بندی کے فریم ورک اور پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے ان کے ماڈلز پر روشنی ڈالی،انہوں نے پائیدار شہری منصوبہ بندی کے اقتصادی پہلوؤں پر گفتگو بھی کی۔مقررین نے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے اور جدید انفراسٹرکچر کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔انہوں نے مقامی کمیونٹیز کی منصوبہ بندی کے عمل کی اہمیت اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد منیر نے جرمنی اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور علمی تعاون کو فروغ دینے کے عمل کو خوش آئند قرار دیا۔کراس کلچرل نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کانفرنس عالمی چیلنجز حل کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ کانفرنس میں شریک عالمی مندوبین نے پاکستان کے ثقافتی اور قدرتی ورثے کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ کانفرنس میں وائس چانسلر ایل سی ڈبلیو یو پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی،بین الاقوامی مقررین پروفیسر ڈاکٹر ڈائیٹوالڈ گرُون (ٹی یو ڈورٹمنڈ یونیورسٹی، جرمنی)،ڈاکٹر سید کومائل طیب (یونیورسٹی آف اصفہان، ایران)، پروفیسر ڈاکٹر طبسم رضا (یونیورسٹی آف فلپائن)،پروفیسر ڈاکٹر شاکر محمود مایو (یو ای ٹی لاہور)،تعلیمی و انتظامی شعبہ جات کے سربراہان اور طلبی کی کثیر تعداد نے سرکت کی۔