پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے پوسٹ گریجویٹ ریسرچ سنٹر برائے کری ایٹیو آرٹس کے زیر اہتمام شعبہ گرافک ڈیزائن کے اشتراک سے پہلی بین الاقوامی کانفرنس برائے تخلیقی فنون (آئی سی سی اے) کے لیے پری کانفرنس/ سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔یہ تقریب 1924 میں اپنے آغاز سے لے کر اب تک لالی ووڈ کے سنیما سفر کی ایک صدی کو اعزازبخشنے کیلئے پاکستان میں پہلی تخلیقی آرٹس کانفرنس کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس موقع پر ڈائریکٹر پوسٹ گریجوئیٹ ریسرچ سنٹر برائے کری ایٹیو آرٹس پروفیسر ڈاکٹر احمد بلال، ایورنیو گروپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سجاد گل، آرٹسٹ اور مورخ ڈاکٹر اعجاز انور، ڈاکٹر خالد محمود، ڈاکٹر مسرت حسن، ڈاکٹر نسیم اختر، ڈاکٹر شوکت محمود، ڈاکٹر راحت نوید مسعود، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے شرکت کی۔ اپنے خطاب میں سجاد گل نے اپنے والد آغا گل کی خدمات پر روشنی ڈالی جنہوں نے فردوس سنیما اور ایورنیو اسٹوڈیوز قائم کرکے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو آگے بڑھایا۔زہرین مرتضیٰ، سنبل نتالیہ، ارم سید، نادیہ ظفر، فریحہ راشد، ثنا یوسف، محمد علی، نمرہ اکرم، مدیحہ ذوالفقار، حرا گل، سرمد چیمہ اور عثمان رانا نے تحقیقی مقالے پیش کئے۔ سمپوزیم میں پوسٹ گریجوئیٹ ریسرچ سنٹر برائے کری ایٹیو آرٹس کی فیکلٹی کوزبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، جن کی لگن نے تخلیقی عمدگی کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تقریب میں سنیما کے تبدیلی کے ارتقاء پر ایک بھرپور مکالمہ بھی شامل تھا جس میں خاموش فلمی دور کو عصری ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک پھیلایا گیا۔ مقررین اور محققین کے ایک پینل نے ثقافتی تبادلے، سماجی ارتقاء، اور اقتصادی ترقی میں سینما کے کردار پر فکر انگیز گفتگو پیش کی۔ تقریب کے شرکاء نے تخلیقی صنعتوں کی تشکیل اور ثقافتی ورثے کے تحفظ پر سنیما کے کثیر جہتی اثرات پر زور دیا۔منتظمین نے تمام شرکاء، سینئرنگران اور تعاون کرنے والوں کاشکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان کے تخلیقی فنون کے منظر نامے میں مکالمے اور جدت کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اہم خبریں
پنجاب یونیورسٹی اور برونیل یونیورسٹی آف لندن کے مابین علمی و تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے معاہدہ
پنجاب یونیورسٹی اور برونیل یونیورسٹی آف لندن کے مابین علمی و تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے معاہدہ طے پاگیا۔ اس سلسلے میں مفاہمتی یاداشت پر دستخط کی تقریب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی آفس کے کمیٹی روم میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پروائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، برونیل یونیورسٹی آف لندن سے پروفیسر سین ہومز، ڈائریکٹر پنجاب یونیورسٹی سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم، ڈائریکٹر ایکسٹرنل لنکجز پروفیسر ڈاکٹر یامینہ سلمان و دیگرنے شرکت کی۔ معاہدے کے مطابق،دونوں جامعات تعلیمی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گی۔جامعات تعلیمی وسائل، سکالرز، طلباء وفود کے تبادلے، مطالعہ، تحقیق اور تربیتی پروگراموں پرمل کر کام کریں گی۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے معاہدے کو دونوں جامعات کیلئے سود مند قرار دیا۔انہوں نے دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں کے درمیان تحقیق کے فروغ کے لئے تعاون بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ڈاکٹر سین ہومز نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی سکول آف کمیونیکشن سٹڈیز کے ساتھ کام کر کے بہت اچھا لگا اور مستقبل میں بھی متعدد پروگرامز کئے جائیں گے۔
—
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جنوبی ایشیاء میں آثار قدیمہ کے ورثے کا نقشہ بنانے کے پروجیکٹ فیز 1 کے معاہدے کی تکمیل اور فیز 2پر دستخط کرنے کی تقریب
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جنوبی ایشیاء میں آثار قدیمہ کے ورثے کا نقشہ بنانے کے پروجیکٹ فیز 1 کے معاہدے کی تکمیل اور فیز 2پر دستخط کرنے کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔یہ معاہدہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپوراور یونیورسٹی آف کیمبرج برطانیہ کے درمیان پانچ سالہ تعاون کا اعادہ کرتا ہے۔تقریب کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کامران نے کی اور پروفیسر ڈاکٹر عامر سہیل ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز، ڈائریکٹر انٹرنیشنل لنکجز ڈاکٹر عابد شہزاد، چیئرپرسن شعبہ تاریخ ڈاکٹر سمیعہ خالد، چیئرپرسن شعبہ بشریات ڈاکٹر فاروق احمد اور MAHSA پروجیکٹ کے معاونین وقار مشتاق اور ڈاکٹر معظم خان درانی موجود تھے جبکہ یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر ڈاکٹر کیمرون پیٹری پرنسپل انویسٹی گیٹر، ڈاکٹر ربیکا رابرٹس، ڈائریکٹر MAHSA پروجیکٹ، اور ڈاکٹر آزادہ وفاداری، ٹریننگ کوآرڈینیٹر، عفیفہ خان پروجیکٹ کوآرڈینیٹربذریعہ آن لائن شریک ہوئے۔وقار مشتاق لیکچررنے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور کیمبرج یونیورسٹی کی ڈاکٹر ربیکا رابرٹس سے شرکاء کا تعارف کرایا۔ پروفیسر ڈاکٹر کیمرون پیٹری نے سامعین کو جنوبی ایشیاء میں آثار قدیمہ کے ورثے کا نقشہ بنانے کے پروجیکٹ کے دائرہ کار اور اس کے پہلے مرحلے کی کامیابیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ ڈاکٹر ربیکا نے 2029 تک فیز 2 کے روڈ میپ کے بارے میں بتایا۔ڈائریکٹر انٹرنیشنل لنکجز ڈاکٹر عابد شہزاد نے اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے بین الاقوامی روابط کے دفتر سے متعلق بریفنگ دی۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپوراور کیمبرج یونیورسٹی کے درمیان پانچ سالہ تعاون کے معاہدے کی دستاویزات پر دستخط کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمدکامران نے پہلے مرحلے کے معاہدے کو مکمل کرنے اور اس میں توسیع کرنے میں وقار مشتاق اور ڈاکٹر معظم خان درانی کی کوششوں کو سراہا۔
عالمی رینکنگ میں یو ای ٹی کی نمایاں درجہ بندی کا سلسلہ جاری…….. عالمی درجہ بندی،انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے میدان میں یو ای ٹی دنیا کی 236بہترین جامعات میں شامل
کیو ایس ورلڈ رینکنگ میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی)نے ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا۔یو ای ٹی نے ایشیا کے بعد دنیا بھر کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں بھی اپنی نمایاں پوزیشن حاصل کر لی۔کیو ایس یونیورسٹیز کی عالمی درجہ بندی میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں یو ای ٹی کو دنیا کی 236 بہترین جامعات میں شامل کرلیاگیا ہے، جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔گزشتہ تین برسوں سے یو ای ٹی کی عالمی رینکنگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2023 میں یو ای ٹی 279ویں نمبر پر تھی، 2024 میں 250ویں اور رواں برس 236ویں نمبر پر پہنچ گئی ہے۔
وائس چانسلریو ای ٹی ڈاکٹر شاہد منیر نے اس کامیابی پر فیکلٹی، انتظامیہ اور طلبا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ”یہ یو ای ٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اساتذہ، انتظامی آفیسرز اور طلبا نے مل کر اس کامیابی کو ممکن بنایا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یو ای ٹی ترقی کی راہوں پر اسی طرح گامزن رہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ اگلے سال یو ای ٹی کی عالمی رینکنگ میں مزید بہتری اور اونچا مقام حاصل کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔یو ای ٹی لاہور کی ترقی کی یہ خبریں یقیناً خوش آئند ہیں جو نا صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر ایک سرکردہ ادارے کے طور پر اس کی ساکھ کو مستحکم کرتاہے۔
پاکستانی یونیورسٹیاں، ایچ ای سی کے ’مکتب‘ کو عالمی معیار کے مطابق آپریشنز کو خودکار بنانے کے لیے اپنانے میں پیش پیش
محمد نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر، ملتان؛ اروڑ یونیورسٹی، سکھر؛ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن، لاہور؛ شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی، پشاور؛ یو ای ٹی، پشاور؛ اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی، کوئٹہ نے طالب علموں کے داخلوں سے لے کر گریجویشن تک کے آپریشنز کو ڈیجیٹلائز کرنے (ERP-SLC) میں قیادت کی۔
ایچ ای سی اپنے ہائر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پروگرام – HEDP کے ذریعے ’مکتب‘ نامی دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سلوشن کو پاکستانی یونیورسٹیوں تک لانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ مکتب کے ذریعے طالب علموں کے پورے لائف سائیکل کو خودکار بنا کر، یہ حل نہ صرف آپریشنل اخراجات کو کم کرے گا بلکہ ایک جدید تعلیمی تجربہ فراہم کرے گا، وہ بھی نمایاں طور پر سبسڈائزڈ نرخوں پر۔
پچھلے ہفتے ہونے والے سلوشن ڈیزائن سائننگ ایونٹ نے مخصوص ضروریات کے مطابق یونیورسٹی آپریشنز کو ڈیجیٹلائز کرنے کے عزم کو ظاہر کیا۔ اس تقریب میں، ایچ ای سی کے ممبر آئی ٹی، ڈاکٹر جمیل احمد نے دیگر یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اس منفرد آٹومیشن کے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
گھانچے جیسے دور دراز علاقے میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے کا قیام انتہائی خوش آئند ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے 11 ہزار فٹ کی بلندی پر تھاگوس کے مقام پر قائم ہونیوالی یہ یونیورسٹی جدید علوم اور تحقیق کے معیار کی بلند چوٹیاں سر کریگی۔۔۔۔۔۔وزیراعظم شہباز شریف
اسلام آباد (آن لائن)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں نجی شعبے کا کردار انتہائی اہم ہے،نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونیوالے طلباء نے ہر شعبے میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے،گلگت بلتستان کی ترقی اور وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے،گزشتہ روز گلگت بلتستان کے دورے کے دوران سیلاب سے 62 متاثرہ خاندانوں کو گھر حوالے کیے گئے ہیں،وزیراعظم شہباز شریف نے گلگت بلتستان میں تھاگوس، ضلع گھانچے کے مقام پر قائم کی جانیوالی رمدے یونیور سٹی کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی۔سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔رمدے یونیورسٹی ایک ٹرسٹ کے تحت قائم کی جا رہی ہے۔رمدے یونیورسٹی کی تعمیر سمندر پار پاکستانیوں سمیت پاکستان بھر سے مخیر افراد کے تعاون سے مکمل ہو گی۔وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے اور اْن کے تمام احباب کو دِل کی گہرائیوں سے ’رمدے یونیورسٹی‘ کے قیام کی مبارک پیش کرتا ہوں،رمدے یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے تعاون کرنیوالے تمام اداروں اور افراد کی کوششیں لائق تحسین ہیں،آج ہم سب نے مل کر یہاں کے بچوں اور بچیوں کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھی ہے،گلگت بلتستان کے گھانچے جیسے دور دراز علاقے میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے کا قیام انتہائی خوش آئند ہے،مجھے یقین ہے 11 ہزار فٹ کی بلندی پر تھاگوس کے مقام پر قائم ہونیوالی یہ یونیورسٹی جدید علوم اور تحقیق کے معیار کی بلند چوٹیاں سر کریگی
ویٹرنری یونیور’ٹی نے خوراک پیدا کرنے والے جا نوروں کے لیئے ضروری ویٹرنری میڈ یسن کی تقریب رونما ئی کا انعقاد کیا
;16; 0(: یونیور’ٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل ’ائن’ز لاہور نے بروک پاک’تان کے باہمی ا‘‘تراک ’ے ’ٹی کیمپ’ لاہور میں خوراک پیدا کرنے والے جا نوروں ;223; موی‘‘یوں کے علاج معالجے ’ے متعلقہ میڈی’ن اور ویک’ین کے لیئے ضروری ویٹرنری میڈی’ن ل’ٹ کی تقریب رونما ئی کا انعقادکیا ۔ تقریب کی م‘‘ترکہ ’’دارت واء’ چان’لر میری ٹو ریء’ پروفی’رڈاکٹر محمد یون’ (تمغہ امتیاز) اور بروک ہ’پتال بر طانیہ کے چیف ایگزیکٹیو آفی’ر م’ٹر کر’ وائن راءٹ نے کی جبکہ دیگر اہم ‘‘خ’’یات میں قائم مقام چیف ایگزیکٹیو آفی’ر بروک پاک’تان ڈاکٹر جاوید اقبال گوندل، ہیلتھ کیئر مینیجر بروک پاک’تان ڈاکٹر محمد جاوید اقبال خان ، ڈین فیکلٹی آف ویٹر نری ’ائن’ پروفی’ر ڈاکٹر انیلہ ضمیر درانی کے علا وہ مختلف یونیور’ٹیو ں اوریوا’ ’ب کیمپ’ ’ے فیکلٹی ممبران اور طلبہ کی کثیر رتعداد نے ظاہری طور پر اور ویڈیو لنک کے زریعے ‘‘رکت کی ۔
{ تقریب ’ے خطاب کرتے ہو ئے پروفی’رڈاکٹر محمد یون’ نے خوراک پیدا کرنے والے موی‘‘یوں کی ہیلتھ کیئر اور فلا ح ’ے متعلقہ ا’ نئے اقدام کو ’را ہا نیز کہا کہ ویٹر نری یونیور’ٹی لائیو ’ٹاک ’یکٹر کی تر قی کے لیئے ا’ طرح کے مثبت اقدا مات کو ہمی‘‘ہ ’پورٹ کرتی ہے اور یونیور’ٹی جانوروں کے علاج معالجے کی بہترین ’رو’ز مہیا کر رہی ہے ۔ م’ٹر کر’ وائن راءٹ نے ویٹر نری یونیور’ٹی کی جا نوروں کے علاج معالجے ’ے متعلقہ ’ر و’ز کی تعریف کی نیز کہا کہ یونیور’ٹی کا بروک پاک’تان کے ’اتھ ا‘‘تراک خوراک پیدا کرنے والے موی‘‘یوں کی فلا ح اور ہیلتھ کیئر ’’ٹم کومزید بہتر بنانے کے لیئے انتہا ئی اہم اقدام ہے ۔
;2341; قبل ازیں ڈاکٹر محمد جاوید اقبال خان نے مختلف اق’ام کے خوراک پیدا کرنے والے جانوروں ;223; موی‘‘یوں کی ویک’ین اور میڈی’ن ’ے متعلقہ ضروری ویٹرنری میڈی’ن ل’ٹ کے بنیا دی ا’’ول، چیلنجز، ایک’ٹرنل ریویو اور اغرا ض و مقا ’’د کے بارے میں ‘‘ر کا کو تف’’یلی بتا یا ۔
یو ای ٹی لاہور میں پروفیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) اور فنانشل ایڈ اینڈ کیریئر سروسز (FACS) آفس کے تعاون سے تربیتی سیشن کا انعقاد کیا گیا۔جس کا مقصد طلباء کو کیریئر کی ترقی کے لیے سی وی لکھنے، کمیونیکیشن اسکلز اور شخصیت کی ترقی جیسی ضروری مہارتیں فراہم کرنا تھا۔
وائس چانسلر یو ای ٹی ڈاکٹر شاہد منیرپروگرام کے مہمان خصوصی تھے جبکہ معروف کیریئر ڈویلپمنٹ اسپیشلسٹ سہیل صدیقی نے بطور مہمان مقرر شرکت کی اور طلباء سے خطاب کیا۔ڈاکٹر شاہد منیر نے انٹرویو کی تکنیک اور جاب مارکیٹ میں خود کو پیش کرنے کی اہمیت پرروشنی ڈالی۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے خود کو برانڈ بناکر پیش کرنے اور جاب انٹرویوز میں پائیدار تاثر قائم کرنے کے لیے عملی حکمت عملی فراہم کی۔ ”اپنے آپ کو مؤثر طریقے سے پیش کرنا آج کے مقابلہ جاتی دور میں نمایاں ہونے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے،جو نا صرف آپ کی تعلیمی قابلیت بلکہ آپ اپنی مہارتوں، رویے، اور منفرد قدروں کو ملازمت دینے والے کے سامنے کس طرح پیش کرتے ہیں دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اپنے خطاب میں سہیل صدیقی نے طلباء کو سلسلہ وار انٹرایکٹو مشقوں کے ذریعے رہنمائی فراہم کی تاکہ وہ مؤثر سی وی تیار کر سکیں، اپنی کمیونیکیشن اسکلز کو بہتر بنا سکیں اور اپنی پیشہ ورانہ موجودگی کو نکھار سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ سافٹ اسکلز اور ذاتی برانڈنگ اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ ٹیکنیکل مہارتیں۔ پی ای ایف اور ایف اے سی ایس کے درمیان یہ تعاون دونوں اداروں کے مابین اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ یو ای ٹی کے طلباء کو بااختیار بنائیں اور انہیں جدید جاب مارکیٹ کی پیچیدگیوں سے نمٹنے میں مدد ملے۔ سیشن کے اختتام پر وائس چانسلر نے پی ای ایف کے معزز مہمانوں کو ایک یادگاری شیلڈز سے نوازا۔
وزیر تعلیم سے گرینڈ ٹیچر الائنس کے وفد کی ملاقات، مسائل کے ازالے کیلئے 6 رکنی کمیٹی تشکیل …….پرفارمنس ترجیح، ٹی این اے ٹیسٹ ہر صورت ہوں گے، مقصد سسٹم کی بہتری ہے۔ رانا سکندر حیات …….کسی کو نوکری سے نہیں نکال رہے…….کمیٹی ٹی این اے ٹیسٹ کے طریقہ کار پر سفارشات دے۔ وزیر تعلیم
وزیر تعلیم رانا سکندر حیات سے گرینڈ ٹیچر الائنس کے وفد نے ملاقات کی جس میں وفد نے بیشتر امور پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ وزیر تعلیم نے اساتذہ کے تحظات دور کرنے کیلئے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں گرینڈ ٹیچر الائنس کے 3 ارکان رانا لیاقت، کاشف شہزاد چوہدری اور صفدر چوہدری کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کمیٹی ٹی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل بنائے گی۔ گرینڈ ٹیچر الائنس کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ ٹی این اے ٹیسٹ ہر صورت ہوں گے، تاہم کمیٹی ٹیسٹ کے حوالے سے طریقہ کار پر اپنی سفارشات دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کوئی بھی فیصلہ اساتذہ کو اعتماد میں لئے بغیر کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ کی بہتری کیلئے تمام اقدامات ان کی مشاورت سے ہی اٹھائے جائیں گے۔ وزیر تعلیم نے گرینڈ ٹیچر الائنس پر واضح کیا کہ کسی ٹیچر کو نوکری سے نہیں نکال رہے، نہ ہی کسی سکول کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی این اے ٹیسٹ میں ناکام ہونے والے اساتذہ کو بھی نوکریوں سے نکالنے کی بجائے ان کی ٹریننگ کا لائحہ عمل طے کیا جانا ہی مقصود تھا، لیکن بعض افراد کی طرف سے بلاجواز افواہیں پھیلائی گئیں۔ حالانکہ ٹی این اے ٹیسٹ دینے والے 80 فیصد اساتذہ کے نمبر 75 سے زائد تھے۔ رانا سکندر حیات نے کہا کہ پرفارمنس ہی ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔ نان پرفارمنگ سکولوں اور اساتذہ کا احتساب ہر صورت ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں انہوں نے کمیٹی کو نان پرفارمر اساتذہ کیلئے بھی ایک خصوصی کرائیٹیریا بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ جو اس کرائیٹیریا پر پورا نہ اترے، اس کا احتساب کیا جائے گا۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ ہمارے ہر اقدام کا مقصد فقط اساتذہ کی بہتری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کی غیر تدریسی سرگرمیاں ختم کرنے کا تاریخی اقدام اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی بہتری اور اساتذہ کو سہولیات کی فراہمی کیلئے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔
۔65 فیصد سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ہے جو نجی اسکولوں میں صرف 23 فیصد اساتذہ کے پاس پائی جاتی ہے……..سرکاری تعلیمی اداروں کے 44 فیصد طلباء اور طالبات نے 41 فیصد سکور حاصل کیا ……..نجی اسکولوں کے طلباء کی صرف انگریزی میں برتری رہی جن کا ا اوسط اسکور 46 فیصد رہا……. سرکاری تعلیمی اداروں کے لڑکے جبکہ نجی تعلیمی اداروں کی لڑکیوں کی کاکردگی بہتر رہی ……..۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای کی جائزہ رپورٹ برائے کلاس چہارم
انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای)نے وفاقی دارالحکومت میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں (کم فیسوں والے) میں کلاس چہارم میں زیر تعلیم مجموعی کارکردگی کی جائزہ رپورٹ کا اجراء کر دیا ہے، نتائج کے مطابق بہتر کارکردگی مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری تعلیمی اداروں کے 44 فیصد طلباء اور طالبات نے 41 فیصد سکور حاصل کیا ۔نجی اسکولوں کے طلباء کی صرف انگریزی میں برتری رہی جن کا ا اوسط اسکور 46 فیصد رہا ، سرکاری تعلیمی اداروں کے لڑکے جبکہ نجی تعلیمی اداروں کی لڑکیوں کی کاکردگی بہتر رہی ۔
جمعرات کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای)میں تعلیمی معیار کو کیسے بہتر بنایا جائے کے موضوع پر پالیسی ڈائیلاگ میں اسلام آباد کے سرکاری اور نجی اسکولوں کی کارکردگی کے موازنہ رپورٹ کا اجراء کیا گیا ۔ مہمان خصوصی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری سہیل اختر نے اپنے خطاب میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامع حکمت عملی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں اساتذہ کی تربیت، جدید تدریسی مواد کی فراہمی اور تعلیمی اداروں کی انفراسٹرکچر کی بہتری شامل ہے۔
– Advertisement –
سہیل اختر نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے کلاس سائز کو کم کرنا اور اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ ہر طالب علم کو بہترین تعلیمی سہولت مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں معیار کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے ایک معیاری فریم ورک کی ضرورت ہے، جو دونوں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے یکساں ہو تاکہ پورے ملک میں تعلیمی معیار میں یکسانیت لائی جا سکے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے بتایا کہ یہ رپورٹ اسلام آباد میں چوتھی جماعت کے طلباء کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔
اس تجزیے کو انجام دینے کے لیے نیشنل اسیسمنٹ ٹیسٹ سے حاصل کیے گئے تازہ ترین دستیاب ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، طلباء، والدین اور اساتذہ سے کیے گئے سرویز کی بنیاد پر مختلف تعلیمی موضوعات پر معلومات بھی جمع کی گئی ہیں۔ اس تجزیے کے اہم نتائج کے مطابق دیہی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کے طلباء نجی اسکولوں کے طلباء کی نسبت زیادہ کامیاب رہے جبکہ شہری علاقوں میں نجی اسکولوں کے طلباء کا پلہ بھاری رہا۔انہوں نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں میں اوسط کلاس سائز 41 طلباء فی کلاس ہے جبکہ نجی اسکولوں میں یہ سائز کم ہو کر 19 طلباء فی کلاس رہتا ہے۔
بڑے کلاس سائز کے سبب سرکاری اسکولوں میں تدریسی توجہ کم ہوسکتی ہے۔65 فیصد سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ہے جو نجی اسکولوں میں صرف 23 فیصد اساتذہ کے پاس پائی جاتی ہے۔ اساتذہ کے تجربے کے لحاظ سے 73فیصد سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے پاس 11 سال یا اس سے زیادہ تدریسی تجربہ ہے جبکہ نجی اسکولوں میں یہ شرح صرف 17فیصد ہے۔ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے بتایا کہ نجی اسکولوں میں 33فیصد اساتذہ ایک ہی دن میں ایک سے زیادہ کلاسز پڑھاتے ہیں، جو سرکاری اسکولوں میں 4 فیصد اساتذہ ایسے ہیں جو ایک سے زائد کلاسز پڑھاتے ہیں ،