ڈاکٹر حکم داد (ایسوسی ایٹ پروفیسر، ایجوکیشن) نمل، اسلام آباد
زندگی کے ہر سفر میں منزل تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کسی کامل راہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ منزل تک پہنچانے والے راہنما کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ منزل کی سمت اور اس کے وقوع سے آشنا ہو۔ تحقیقی سفر میں راہنمائی کیلئے صرف منزل سے آشنائی ہی ضروری نہیں ہوتی بلکہ بہت سی دوسری خوبیاں اور ایسی باریکیاں بھی ضروری ہوتی ہیں جو کسی سکالر کو تحقیقی سفر کی دشوار اور خاردار گھاٹیوں سے گزار کر کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار کر سکیں۔ پنجاب یونیورسٹی آئ ای آر میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ میں میرا داخلہ، تحقیقی سفر اور کامیابی بھی ایک ایسی داستان ہے جس میں کامل رہبر کی شفقت اور راہنمائی کا عمل دخل میری کاوش سے زیادہ ہے ۔
میں جنوری 2022ء کے آغاز میںآئی ۔ای۔ آر پنجاب یونیورسٹی کا مذکورہ ریسرچ فیلو شپ کیلئے حصہ بنا۔ اِس ریسرچ فیلو شپ میں پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر کی نہ صرف راہنمائی شامل تھی بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اُن کی شخصیت سے متاثر ہو کر میں اس سفر پر روانہ ہوا تو یہ بات بھی بےجا نہ ہو گی۔ ڈاکٹر رفاقت علی اکبر نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوے مجھے اپنی راہنمائی میں قبول کر لیا۔
تحقیق کیلئے سب سے پہلا مرحلہ موضوع کے انتخاب کاہوتا ہے۔ یہ مرحلہ ہر تحقیقی منصوبے کو ایک ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر سارا منصوبہ استوار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اِس موضوع پرکئی نشستیں ہونے کے بعد آخرکار میں تحقیق کا عنوان منتخب کرنے کے قابل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ عنوان منفرد نوعیت کا ہو اور اس سے حاصل ہونے والی علمی و تحقیقی راہنمائی معاشرے کےلئے خصوصی اہمیت کی حامل ہو۔ طویل مشاورت اور غور فکر کے بعد تحقیقی موضوع ’’قرآن پاک اور اکیسوی صدی کی مہارتیں‘‘ منتخب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے اِس تحقیقی کام کا آغاز قرآن پاک کے اشاریہ جات سےکیا، یہ کام ہمارے تحقیقی منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا ۔ڈاکٹر صاحب کی تجویز کے مطابق میں نے تفہیم القرآن کی تمام جلدوں کا مطالعہ غور سے کیا اور قرآن پاک کے حوالے سے سات مہارتوں کو فائنل کر لیا۔ اِن مہارتوں میں تنقیدی سوچ،اجتماعیت،اشتراک،ابلاغ،راہنمائی، جذباتی فراست، اور معلوماتی فراست شامل تھیں۔
ایک سال کے تحقیقی سفر کے دوران اپنے نگران کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال شفقت اور خوشدلی کے ساتھ مجھے وقت دیا اور راہنمائی فرمائی۔اُن کے ساتھ ہونے والی ہر نشست مفیدمعلومات اور علمی بحث پر مشتمل ہوتی۔وہ ہر بار مختلف تصورات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے۔
ہر ملاقات میں علم کی نئی راہیں کھلتی تھیں۔ میں اِس لحاظ سے بھی خوش قسمت رہا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس بیش بہا علم کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ بھی موجود تھا۔ میرے لئے اُن سب کتابوں سے استفادہ کرنا بہت مفید رہا۔
پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر کا رویہ بہت ہی دوستانہ اور مشفقانہ تھا۔ اِس سلسلے میں مجھے ایک بات کا تذکرہ کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر حلیمی کے باوجود میرے تحقیقی کام کو مطلوبہ معیار سے گرنے نہیں دیا وہ مجھے مختلف لائبریریوں کا چکر لگانے کا حکم دیتے اور وہاں سے حاصل ہونے والا مواد خود چیک کرتے تھے ۔اُن کی حوصلہ افزائی میرے لئے عطیہ خداوندی سے کم نہ تھی۔اُن کی شخصیت میں ہمدردی، دوستی، علمیت اور شفقت جیسی سب خوبیاں موجود ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ سب کچھ تحریر کرنے کے بعد بھی میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے اظہار بیان کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
قرآنِ پاک کے بارے میں یہ تحقیق فیض اوربرکت کے خزینوں سےمالامال تھی انشاءاللہ بہت جلد یہ تحقیقی کاوش کتاب کی شکل میں بھی شائع ہو جائے گی ۔تحقیق کے اِس سفر میں پر جو لوگ ہمارے بعد گامزن ہوں گے۔ اُن کیلئے صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ مسلسل محنت،خلوص و محبت اور اپنے راہنما کی راہنمائی میں صحیح خطوط پر رواں رہنا ہی تحقیقی میدانمیں کامیابی کی ضمانت ہے ۔