ن زہران ممدانی نے نیویارک سٹی کے میئر کے طور پر تاریخی کامیابی حاصل کر لی، جس کے ساتھ وہ امریکہ کے سب سے بڑے اور عالمی شہرت یافتہ شہر کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان، پہلے جنوبی ایشیائی نژاد اور پہلے افریقہ میں پیدا ہونے والے میئر بن گئے۔34 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ رہنما نے اپنے حریف، سابق گورنر اینڈریو کومو، پر واضح برتری حاصل کی۔ ابتدائی نتائج کے مطابق 90 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد ممدانی کو 10 لاکھ 33 ہزار سے زائد ووٹ ملے، جبکہ کومو کو 8 لاکھ 52 ہزار ووٹ ملے۔ ریپبلکن امیدوار کرٹس سلِوا تقریباً 7 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔
اپنی کامیابی کے بعد نیویارک میں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ممدانی نے کہا:
“آج رات، تمام مشکلات کے باوجود، ہم نے مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ نیویارک نے تبدیلی کا مینڈیٹ دیا ہے — ایک ایسا شہر بنانے کا مینڈیٹ جو سب کے لیے قابلِ برداشت ہو۔”انہوں نے کہا کہ ان کی کامیابی مذہب یا نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہریوں کے روزمرہ مسائل، خاص طور پر رہائش اور مہنگائی جیسے مسائل کے حل کے وعدے پر مبنی ہے۔ممدانی نے کہا،
“میں یمنی دکانداروں، میکسیکن دادیوں، سینیگالی ٹیکسی ڈرائیوروں، ازبک نرسوں، ٹرینیڈاڈی باورچیوں اور ایتھوپیائی خالاؤں کی بات کرتا ہوں — یہ شہر تمہارا ہے، اور یہ جمہوریت بھی تمہاری ہے۔”
سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلی
یہ انتخابی معرکہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے مستقبل کی سمت کے لیے بھی ایک علامت بن گیا ہے۔ کومو، جو کبھی پارٹی کے مرکزی دھارے کی نمائندگی کرتے تھے، اب “دائیں بازو کے سرمایہ دارانہ دھڑوں” سے منسلک سمجھے جا رہے ہیں، جبکہ ممدانی پارٹی کے ترقی پسند اور سوشلسٹ ونگ کے ترجمان کے طور پر ابھرے ہیں۔کومو نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا:
“یہ ان کی رات تھی۔”
اپنی فتح کی تقریر میں ممدانی نے کہا:
“میں مسلمان ہوں، میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہوں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اس پر شرمندہ نہیں ہوں۔”
عوامی ردعمل اور امیدیںنیویارک کے مختلف طبقوں نے ممدانی کی کامیابی کو ایک نئی سیاسی بیداری سے تعبیر کیا ہے۔ برونکس کے رہائشی جوشوا ولسن نے کہا:”ہم نے کومو کو آزمایا، اب وقت ہے کسی نئے شخص کو موقع دینے کا۔ ممدانی نوجوان ہیں اور امید دلاتے ہیں۔”
کاؤن ہائٹس کی 52 سالہ میگن مارکس نے کہا:”اگر وفاقی سطح پر ٹرمپ حکومت کا تسلط ہے، تو کم از کم نیویارک میں کوئی مختلف سوچ والا لیڈر ہونا چاہیے۔”
چیلنجز اور وعدےممدانی نے عوامی نقل و حرکت کو مفت کرنے، بچوں کی نگہداشت کے لیے عالمگیر پروگرام متعارف کرانے، اور کرایہ داروں کے لیے کرایوں میں اضافہ روکنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے معاشی منصوبے میں بڑی کارپوریشنز اور امیر شہریوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممدانی کو ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی تاکہ وہ اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرا سکیں۔
اسلاموفوبیا کے خلاف دوٹوک پیغام
انتخابی جلسے میں ممدانی نے کہا:
“اب نیویارک میں اسلاموفوبیا پر سیاست کرکے الیکشن جیتنے کا زمانہ ختم ہو گیا۔”
انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پیغام دیا، جنہوں نے شہر میں نیشنل گارڈ تعینات کرنے اور وفاقی فنڈنگ روکنے کی دھمکی دیتھی:
“نیویارک تارکینِ وطن کا شہر ہے، ان سے چلتا ہے، اور آج سے ایک تارکِ وطن کی قیادت میں ہے۔ صدر ٹرمپ، سن لیجیے — ہم سب ایک ہیں، اور کسی ایک تک پہنچنے کے لیے آپ کو ہم سب سے گزرنا ہوگا۔”
ممدانی یکم جنوری 2026 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اور ان کی جیت کو نہ صرف امریکی تاریخ میں ایک سنگ میل بلکہ مسلمانوں اور جنوبی ایشیائی برادریوں کے لیے ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
واشنگٹن – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کی شب اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر بمباری فوراً بند کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کے تازہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیرپا امن کے لیے تیار ہے۔
حماس کا ردِعمل: حماس نے اپنے بیان میں ٹرمپ کے امن منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے چند نکات پر وضاحت طلب کی۔ گروپ نے کہا کہ وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی (زندہ یا جاں بحق) پر رضامند ہے اور مذاکرات کے آغاز کے لیے فوری طور پر ثالثوں کے ذریعے رابطے کے لیے تیار ہے۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حماس نے ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر باضابطہ ردِعمل دیا، جسے درجنوں ممالک، بشمول کئی عرب و مسلم ریاستوں نے سراہا ہے
ٹرمپ نے اپنے ’ٹرُتھ سوشل‘ پلیٹ فارم پر جاری پیغام میں کہا: “حماس کے تازہ بیان کی بنیاد پر میرا یقین ہے کہ وہ ایک پائیدار امن کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ غزہ پر بمباری فوراً بند کرے تاکہ ہم یرغمالیوں کو جلد اور محفوظ طریقے سے نکال سکیں۔”صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ معاملہ صرف غزہ کا نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام سے متعلق ہے۔ ان کے بقول، “یہ معاملہ ایک طویل عرصے سے مطلوب امن کے حصول کا ہے۔”
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حماس نے ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر باضابطہ ردِعمل دیا، جسے درجنوں ممالک، بشمول کئی عرب و مسلم ریاستوں نے سراہا ہے
ٹرمپ کا اعلان: “سب کے ساتھ منصفانہ سلوک ہوگا” صدر ٹرمپ نے جمعے کو جاری ایک مختصر ویڈیو پیغام میں کہا کہ غزہ مذاکرات میں تمام فریقوں کے ساتھ انصاف پر مبنی رویہ اپنایا جائے گا۔ انہوں نے حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی کو “ایک خاص دن” قرار دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے نو بڑی امریکی جامعات کو وفاقی فنڈنگ تک “خصوصی رسائی” حاصل کرنے کے لیے سخت شرائط عائد کر دی ہیں۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق بدھ کے روز ان اداروں کو ایک میمو موصول ہوا، جس میں غیر ملکی طلبہ کے اندراج میں کمی اور ان شعبوں کو ختم کرنے کی ہدایت دی گئی جو قدامت پسند نظریات کو “کم تر یا نظرانداز” کرتے ہیں۔
یہ 10 نکاتی میمو “کمپیکٹ فار اکیڈمک ایکسی لینس اِن ہائر ایجوکیشن” کے عنوان سے ہے۔ اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
داخلوں اور ملازمتوں میں نسل اور جنس کو نظرانداز کیا جائے۔
داخلوں کا ڈیٹا (جی پی اے اور ٹیسٹ اسکور) عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
ہر طالب علم کے لیے SAT جیسے معیار پر مبنی ٹیسٹ لازمی قرار۔
انڈرگریجویٹ طلبہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد 15 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔
کسی ایک سیاسی نظریے کو کیمپس پر غالب نہ آنے دیا جائے۔
ایسے ڈیپارٹمنٹ ختم کیے جائیں جو قدامت پسند نظریات کو “سزا یا تحقیر” کا نشانہ بناتے ہیں۔
پانچ سال تک ٹیوشن فیس منجمد اور اخراجات کم کیے جائیں۔
بڑے مالیاتی اثاثوں والی جامعات سائنس کے مضامین میں داخل طلبہ کے لیے فیس معاف کریں۔
ان ہدایات کو نہ ماننے والی جامعات وفاقی فوائد سے محروم ہو جائیں گی، جبکہ اطاعت کرنے والوں کو انعام دیا جائے گا۔
کن جامعات کو نوٹس ملا؟
نو جامعات میں شامل ہیں: یونیورسٹی آف ایریزونا، براون یونیورسٹی، ڈارٹموتھ کالج، ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف پنسلوینیا، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، یونیورسٹی آف ٹیکساس، یونیورسٹی آف ورجینیا اور وینڈر بلٹ یونیورسٹی۔
ردعمل کیا ہے؟
یونیورسٹی آف ایریزونا نے کہا کہ وہ اس معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس کے بورڈ آف ریجنٹس کے چیئرمین نے اس اقدام کو اعزاز قرار دیا۔
براون یونیورسٹی نے کیمپس میں تنوع و شمولیت کے فروغ کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کر دی۔
مزاحمت اور تنقید
امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز (AFT) اور امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز (AAUP) نے اس اقدام کو “سیاسی دباؤ، اقربا پروری اور رشوت” قرار دے کر مسترد کر دیا۔
پس منظر
ٹرمپ انتظامیہ پہلے بھی غزہ پر اسرائیلی جنگ کے خلاف امریکی طلبہ کی احتجاجی تحریکوں پر سخت کارروائیاں کر چکی ہے۔ کئی طلبہ کے ویزے منسوخ اور ملک بدری کے احکامات دیے گئے۔ کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹیوں کی فنڈنگ معطل کی گئی اور ان کے ساتھ نئی شرائط پر مذاکرات بھی ہوئے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدامات امریکی اعلیٰ تعلیم میں سیاسی توازن کو قدامت پسندی کی طرف موڑنے کی واضح کوشش ہیں۔
واشنگٹن – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ورجینیا میں سینکڑوں امریکی فوجی جنرلز سے خطاب کرتے ہوئے کئی موضوعات پر گفتگو کی — یوکرین کے بحران سے لے کر سیڑھیاں چڑھنے تک۔ ڈیڑھ گھنٹے طویل خطاب میں انہوں نے اپنے روایتی انداز میں سیاسی حریفوں پر تنقید، اپنی خارجہ پالیسی کی تعریف، اور جنگی بحری جہازوں کی شکل و صورت بہتر بنانے کی بات کی۔لیکن ان کے خطاب کا سب سے اہم پیغام یہ تھا کہ امریکی فوج کو اب “گھریلو محاذ” پر بھی کام کرنا ہوگا
دشمن اندر سے ہے
ٹرمپ نے کہا کہ فوج کو بڑے امریکی شہروں میں ممکنہ فسادات اور غیرقانونی امیگریشن جیسے “اندرونی خطرات” سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
“یہ اندرونی دشمن ہے اور ہمیں اسے قابو میں لانا ہوگا، ورنہ یہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔” — ڈونلڈ ٹرمپ
انہوں نے بتایا کہ فوجی دستے لاس اینجلس، واشنگٹن، میمفس اور پورٹ لینڈ میں تعینات کیے جا چکے ہیں اور جلد سان فرانسسکو، شکاگو اور نیویارک جیسے شہروں میں بھی تعیناتی ہو سکتی ہے۔یہ اقدام آئینی اور قانونی تنازعات کو جنم دے رہا ہے کیونکہ امریکی آئین کی دسویں ترمیم اور Posse Comitatus Act (1878) فوج کو براہِ راست شہری قانون نافذ کرنے سے روکتا ہے۔
نوبیل انعام کی خواہش
ٹرمپ نے خود کو عالمی امن کا سفیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی میں کشیدگی ختم کرائی اور اس پر انہیں نوبیل انعام ملنا چاہیے تھا۔
“نوبیل پرائز مجھے نہیں ملے گا۔ وہ کسی ایسے شخص کو دے دیں گے جس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ یہ امریکہ کی توہین ہوگی۔” — ٹرمپ
دلچسپ امر یہ ہے کہ اپنی دوسری مدتِ صدارت کے پہلے نو ماہ میں ہی انہوں نے ایران اور یمن پر بمباری، صومالیہ میں ڈرون حملے تیز کیے اور وینزویلا کے قریب سمندری مہمات چلائیں۔
غزہ میں جنگ بندی کا عند
ٹرمپ نے کہا کہ ان کا 20 نکاتی منصوبہ خطے میں امن لا سکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور کئی عرب و مسلم ممالک اس منصوبے پر راضی ہو گئے ہیں، اب صرف حماس کا فیصلہ باقی ہے۔\\انہوں نے حماس کو 3 سے 4 دن کی مہلت دی کہ ورنہ “بہت افسوسناک انجام” ہوگا
روس اور یوکرین پر مایوسی
ٹرمپ نے ولادیمیر پوتن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ جلد ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
“میں صدر پوتن سے بہت مایوس ہوں۔ یہ جنگ ایک ہفتے میں ختم ہونی چاہیے تھی۔ اب چار سال ہو گئے ہیں۔” — ٹرمپ
انہوں نے کہا کہ امریکہ روس اور یوکرین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کرانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ابھی تک جنگ بندی ممکن نہیں ہو سکی۔
بائیڈن پر کڑی تنقید
ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن کو “نااہل” قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا نے روس کو یوکرین پر حملے پر اکسایا۔انہوں نے طنز کیا کہ بائیڈن اکثر سیڑھیوں سے گرتے رہے جبکہ وہ خود “احتیاط سے” چلتے ہیں۔
“میرے دور میں امریکہ کو عزت ملی، بائیڈن کے دور میں وہ دنیا بھر میں مذاق بن گیا۔” — ٹرمپ
مملکت سعودی عرب کے مختلف شہروں کی نمایاں ترین عمارتوں اور ٹاورز کو مملکت اور پاکستان کے پرچموں سے مزین کیا گیا، تاکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان “مشترکہ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے” پر دستخطوں کا جشن منایا جا سکے۔ یہ معاہدہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِاعظم جناب محمد شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر بدھ کی شب طے پایا۔مملکت کے مختلف علاقوں کے اہم ترین مقامات کو بھی پاکستان اور سعودی عرب کے پرچموں کے رنگوں سے منور کیا گیا، جو اس تاریخی معاہدے پر عوامی خوشی کے اظہار کی عکاسی کرتا ہے۔”مشترکہ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے” پر دستخطوں کی یہ تقریبات اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی گہرائی تقریباً 78 برسوں پر محیط ہے اور یہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کے درمیان اخوت اور اسلامی یکجہتی کے مضبوط رشتوں کی جھلک پیش کرتی ہیں۔
خادمِ حرمین شریفین کے ولی عہد اور وزیرِاعظم، شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی پُرخلوص دعوت پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِاعظم جناب محمد شہباز شریف نے مملکتِ سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا۔ یہ دورہ 25/3/1447ھ بمطابق 17 ستمبر 2025 کو ہوا۔
ریاض کے قصرِ یمامہ میں ولی عہد و وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے وزیرِاعظم پاکستان کا خیرمقدم کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے وفود کی موجودگی میں سرکاری مذاکراتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر وزیرِاعظم پاکستان نے خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے لیے نیک تمناؤں اور دلی سلام پہنچائے۔ دونوں فریقین نے باہمی دلچسپی کے متعدد امور اور دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی و تزویراتی تعلقات کا جائزہ لیا۔
تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، اخوت اور اسلامی یکجہتی کے رشتے، مشترکہ تزویراتی مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کی بنیاد پر سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان “اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ” پر دستخط کیے گئے۔ ولی عہد و وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے، مشترکہ دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مؤثر رَدِعمل یقینی بنانے کا عہد ہے۔ معاہدے کے مطابق کسی بھی ملک پر جارحیت دونوں پر جارحیت تصور ہوگی۔
وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے ولی عہد و وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا پرتپاک استقبال اور پُرمہمان نوازی پر دلی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد و وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی صحت و سلامتی اور سعودی عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جواباً، ولی عہد و وزیرِاعظم نے وزیرِاعظم پاکستان کی صحت و عافیت اور پاکستان کے برادر عوام کی مزید ترقی و خوشحالی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب لیگ اور تنظیم تعاونِ اسلامی (OIC) کے رکن ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جس میں اسرائیل کی جانب سے قطر پر حالیہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون اور عالمی امن کے خلاف سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اجلاس کی صدارت امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کی۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسرائیلی جارحیت کے ذریعے خطے میں جابرابہ نظام مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو براہِ راست عالمی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ سربراہان نے قطر کی خودمختاری، سلامتی اور اس کے عوام کی حفاظت کے لیے مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کیا۔
اجلاس نے 9 ستمبر کو دوحہ کے رہائشی علاقے پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی جس میں شہادتیں اور زخمی ہوئے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ حملہ ثالثی اور امن سازی کی کوششوں پر بھی حملہ ہے۔
اجلاس میں منظور کیے گئے فیصلوں کے مطابق:
اسرائیلی قتلِ عام، محاصرہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جنگی جرائم قرار دیا گیا۔
فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا اور فوری طور پر غزہ کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا۔
اسرائیل پر عالمی پابندیوں، اس کے خلاف قانونی کارروائی اور اقوام متحدہ کی رکنیت پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا۔
اسرائیل کی دھمکیوں کو اشتعال انگیز اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔
مزید برآں اجلاس نے سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے دو ریاستی حل کے لیے بلائی جانے والی کانفرنس کا خیر مقدم کیا اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے “نیو یارک ڈیکلیریشن” کی توثیق کی۔سربراہی اجلاس نے یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات پر ہاشمی سرپرستی کی تجدیدِ حمایت کی اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جرائم پر عالمی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد پر زور دیا۔
اجلاس کے اختتام پر امیرِ قطر، حکومت اور عوام کی میزبانی اور حکمت عملی کو سراہتے ہوئے، عرب و اسلامی اتحاد کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
وینس فلم فیسٹیول میں تُونس کی ہدایتکارہ کوثر بن ہنیہ کی ڈاکوڈراما فلم “دی وائس آف ہند رجب” کی نمائش کی گئی جسے ریکارڈ توڑ 23 منٹ تک کھڑے ہو کر داد دی گئی۔ یہ فلم نہایت دردناک انداز میں 6 سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کے آخری لمحات کو پیش کرتی ہے جو 29 جنوری 2024 کو غزہ سٹی میں اسرائیلی فائرنگ کے دوران ملبے تلے پھنس گئی تھی۔ فلم میں اصل آڈیو ریکارڈنگز شامل کی گئی ہیں جو جنگ کے انسانی نقصان کو بے نقاب کرتی ہیں۔ فلم کے ایگزیکٹو پروڈیوسرز بریڈ پِٹ، جواکین فینکس، رونی مارا اور الفونسو کیوارون بھی موجود تھے۔ اس موقع پر “فری فلسطین” کے نعرے بلند ہوئے اور فلم کو اس کی جذباتی شدت اور فوری اثر پذیری پر زبردست داد ملی۔
لیڈز (مانیٹرنگ ڈیسک) یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر جوناتھن کیریوک نے دنیا کے 36 ممتاز محققین کے ساتھ مل کر نئے قائم ہونے والے گلیشئر اسٹیورڈشپ پروگرام (GSP) میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس پروگرام کا مقصد برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے کے عمل کو روکنے، اس کے اثرات کو کم کرنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر مربوط کوششیں کرنا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا کے تقریباً نصف گلیشیئرز صدی کے اختتام تک ختم ہو سکتے ہیں، چاہے عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کا ہدف ہی کیوں نہ حاصل کر لیا جائے۔ برفانی تودے زمین کے میٹھے پانی کا 70 فیصد ذخیرہ رکھتے ہیں اور ان پر اربوں انسانوں کی خوراک اور پانی کی سلامتی کا انحصار ہے۔
پروفیسر کیریوک نے کہا کہ گلیشیئرز کے خاتمے سے سمندری سطح بلند ہوگی، موسموں میں نمایاں تبدیلی آئے گی اور دنیا کو خشک سالی و قحط کے شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز مقامی آبادی کو اچانک آنے والے سیلاب اور زمینی عدم استحکام جیسے خطرات سے دوچار کریں گے۔
جی ایس پی کے تحت تین بڑی ترجیحات طے کی گئی ہیں:
برف کے نقصان کو سست کرنے کے لیے نئی تکنیکی حکمتِ عملیوں کی تیاری۔
برفانی تودوں سے جڑے خطرات سے بچاؤ کے لیے جدید ارلی وارننگ سسٹمز کا قیام۔
گلیشیئرز کی حیاتیاتی تنوع کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کے لیے ایک منفرد بایو بینک کا قیام۔
یاد رہے کہ پروفیسر کیریوک کی سابقہ تحقیقات میں گرین لینڈ اور ہمالیہ کے گلیشیئرز میں بڑے پیمانے پر کمی کے انکشافات سامنے آ چکے ہیں، جن کے مطابق ہمالیہ کے گلیشیئر دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔
پروفیسر کا کہنا تھا کہ “یہ عالمی ٹیم ایک مؤثر اتحاد بن سکتی ہے، کیونکہ ایسے بڑے مسائل کا حل صرف بین الاقوامی تعاون اور مربوط پالیسیوں سے ہی ممکن ہے۔”
بین الاقوامی تعلیم میں “اعتماد” کو سب سے بڑی ضمانت قرار دیا گیا ہے۔ IDP کی نئی رپورٹ Commitment to Quality کے مطابق صرف قوانین اور ضابطے طلبہ کے مفاد کی ضمانت نہیں دے سکتے، بلکہ اصل کامیابی اس اعتماد میں ہے جو طلبہ، ادارے اور مشیران کے درمیان قائم کیا جائے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر جانبدار مشورہ، ماہر ٹیموں کی تربیت، طلبہ اور شراکت داروں کی رائے کو اہمیت دینا اور شفاف ڈیٹا شیئرنگ ہی وہ بنیادیں ہیں جو عالمی تعلیم کے معیار کو بلند رکھ سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک طالبہ “لی ژوان” کا ذکر کیا گیا جسے درست رہنمائی ملی اور اس نے نہ صرف اپنی تعلیمی و پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی حاصل کی بلکہ بعد میں اسی ادارے میں سینئر عہدے پر واپس بھی آئیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اعتماد کے اثرات گریجویشن کے بعد بھی دیرپا رہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق مستقبل میں بین الاقوامی تعلیم کی کامیابی صرف طلبہ کے اندراج کی تعداد سے نہیں بلکہ اس بات سے ناپی جائے گی کہ وہ اپنی تعلیم، کیریئر اور زندگی میں کتنے کامیاب ثابت ہوتے ہیں — اور اس کامیابی کی اصل بنیاد “اعتماد” ہے۔
عالمی تعلیمی منظرنامے میں نمایاں تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا (Big Four) جو کئی دہائیوں سے بین الاقوامی طلبہ کے سب سے بڑے مراکز تھے، اب سخت ویزا پالیسیوں، محدود پوسٹ اسٹڈی ورک مواقع اور نئے اہلیتی تقاضوں کے باعث اپنی کشش کھوتے جا رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق ان پالیسیوں نے طلبہ کے فیصلوں پر براہِ راست اثر ڈالا ہے اور اب بہت سے طلبہ دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب جرمنی، فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، چین، ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک اسکالرشپس، انگلش میڈیم پروگرامز، آسان ویزہ سہولیات اور روزگار کے مواقع فراہم کر کے تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ یہ ابھار محض اتفاق نہیں بلکہ منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق طلبہ اب صرف یونیورسٹی کی رینکنگ پر انحصار نہیں کرتے بلکہ ویزا کے عمل کی آسانی، تعلیم کے بعد ملازمت کے امکانات اور اداروں کی سپورٹ سروسز کو ترجیح دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بین الاقوامی تعلیم کی کامیابی صرف طلبہ کو متوجہ کرنے پر نہیں بلکہ ان کا اعتماد قائم رکھنے پر منحصر ہوگی۔ جو ممالک شفاف پالیسیوں اور عملی وعدوں کے ذریعے طلبہ کو تعلیم سے لے کر فارغ التحصیل ہونے تک سہارا دیں گے، وہی عالمی تعلیمی قیادت سنبھالنے کے اہل ہوں گے۔