اک گوہرِ نایاب ہے رفاقت علی اکبر
زرینہ کا انتخاب ہے رفاقت علی اکبر
وہ جس کی روشنی سے روشن ہوئے ضمیر
مانندِ آفتاب ہے رفاقت علی اکبر
علم و ہنر میں اوجِ ثریا کو کیوں ناچھوئے
اکبر سے فیض یاب ہے رفاقت علی اکبر
سخت کوشی سے عبارت ہے کتابِ زندگی
اور اس کا انتساب ہے رفاقت علی اکبر
مُعتبر ٹھہرے ہمیشہ شہر میں اُس کی دلیل
اک معرفت کا باب ہے رفاقت علی اکبر
بد خواہ سے با خبر ہے فطرت میں صُلح جُو
رفاقت میں لا جواب ہے رفاقت علی اکبر
اک اعلیٰ مُنصرِم ہے مٰعجِز بیاں خطیب
حکمت کا ماہتاب ہے رفاقت علی اکبر
صاحبِ فہم و ذکا ہے پیکرِ غضِ بصر
اکرم کا ہم رٰکاب ہے رفاقت علی اکبر
شاعری
مسز یاسمین صغریٰ
اسسٹنٹ پروفیسر آئی ای آر، پنجاب یونیورسٹی، لاہو
گفتگو میں لہجہ دعاؤں جیسا ہے
بات عام ہو مطلب ثناؤں جیسا ہے
وہ باکمال ہے قدرت کی مہربانی سے
رہے خاموش تو پھر بھی صداؤں جیسا ہے
کوئی بھی مانگ لے امداد خیر خواہی کی
وہ تپتی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسا ہے
کوئی تفریق نہیں، حّوا کی بیٹیوں میں اُسے
وہ ہر ایک کے سر پہ رداؤں جیسا ہے
مقیّد ہو نہیں سکتا وہ اڑتی خوشبوؤں کی طرح
وہ اپنے آپ میں لگتا ہواؤں جیسا ہے
کوئی جو بات ہو منفی وہ بدل دیتا ہے
شفاف ذہن ہے مثبت فضاؤں جیسا ہے
نہیں ہے رعب کوئی اُسکو اپنے رفقاء پر
درویش منش ہے، فقر کی اداؤں جیسا ہے
حضرت پیرنصیرالدین نصیرؒ
حضرت پیرنصیرالدین نصیرؒ
ہے جِن کی خاکِ پا رُخِ مہ پر لگی ہُوئی
اُن کی لگن ہے دِل کو برابر لگی ہُوئی
شاہِؐ اُمَم لُٹائے چَلے جا رہے ہیں جام
پیاسوں کی بِھیڑ ہے سَرِ کوثر لگی ہُوئی
زہراۜ، حُسینۜ اور حَسَنۜ کا غُلام ہُوں
مہرِعلیؒ کی مُہر ہے دِل پر لگی ہوئی
قُربان اے خَیالِ رُخِ مُصطفیٰ! تِرے
رَونَق ہے ایک ذہن کے اندر لگی ہُوئی
ٹَکر نہ لے نبیؐ کی شَرِیعت سے، ہوش کر!
دوزخ میں جھونکتی ہے، یہ ٹھوکر لگی ہُوئی
میرا کَفَن ہو تارِ ادَب سے بُنا ہُوا
ہو ساتھ اِلتِماس کی جھالر لگی ہُوئی
یادِ رسولِؐ پاک میں ہر آنکھ تَر رہے
اَشکوں کی اِک سَبِیل ہو گھر گھر لگی ہُوئی
آقا! بَلائے حِرص و حَسَد سے بچائیے
پِیچھے یہ سب کے ہاتھ ہے دھو کر لگی ہُوئی
تَکتے ہیں جِس کو شَمس و قَمَر رات دِن نصیرؔ
اَپنی نَظَر بھی ہے اُسی دَر پر لگی ہُوئی
کہتے ہیں جِس کو عِشق وہ اِک آگ ہے نصیرؔ
بُجھتی نہیں سُنی ہے یہ اکثر، لگی ہُوئی
ReplyForwardAdd reaction |