یاسر پیرزادہ
ایک ایسے شخص کا تصور کریں جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہو، گھر میں کھانے پینے کے لالے پڑے ہوں، اُس کی بیوی ان پڑھ ہو، اُن کے تیرہ بچے ہوں جن میں سب سے بڑے بچے کی عمر سولہ سال اور سب سے چھوٹی بچی ابھی گود میں ہو،وہ شخص جو کماتا ہو سودکی ادائیگی میں نکل جاتا ہو اور ہر تین ماہ بعد اسے نیا قرض لے کر گھر کا خرچ چلانا پڑتا ہو۔۔۔وہ شخص اگر کہے کہ میں نے اپنے بچوں کو،مزید قرض لے کر، امریکی جامعات میں پڑھنے کے لیے بھیجنا ہے تو سننے والے شاید اُس کے جذبے کی داد تو دیں مگر ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیں گے کہ پہلے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا بندوبست تو کرلو پھر یہ خواب بھی پورا کر لینا۔جی ہاں، ہمارا حال بھی اسی شخص جیسا ہے، گھر میں دانے نہیں اور چپے چپے پر یونیورسٹیاں کھول رکھی ہیں،سوا دو کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور نارووال میں ہم نے یونیورسٹی بنا دی ہے۔
ہمارے لیڈران کے پسندیدہ نعروں میں سے ایک یہ ہے کہ ’ہم اِس شہر میں یونیورسٹی بنائیں گے ‘ ۔اگر کوئی انہیں سمجھانے کی کوشش کرے کہ جناب یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح نہیں اگائی جاتیں تو جواب میں کہتے ہیں کیا ناروال کے عوام کا حق نہیں کہ وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں!یہ اِس قدر کھوکھلی بات ہے کہ جس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔چلیے اعداد و شمار سے بات کرتے ہیں۔پورے پاکستان میں اِس وقت 154 جامعات ہیں جن میں سے 51 میں رئیس الجامعہ (وائس چانسلر) ہی موجود نہیں ، اِن جامعات میں یہ ذمہ داری ’عارضی ‘طور پر کسی پروفیسر کے پاس ہے۔اِن پروفیسر خواتین و حضرات کی قابلیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک یونیورسٹی میں اُس خاتون کے پاس وی سی کا عارضی چارج ہے جن کی بطورایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی بھرتی ہی مشکوک ہے۔سیلکشن بورڈ نےاُنہیں بھرتی کرتے وقت اپنی سفارشات میں لکھا تھا کہ موصوفہ نے انٹرویو میں پوچھے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے ہی شعبے یعنی نباتیات کے بارے میں کچھ علم نہیں تاہم یونیورسٹی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے امیدوار کوہمدردانہ بنیادوں پر گریڈ بیس میں اِس امید کے ساتھ ایسوسی ایٹ پروفیسر بھرتی کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے مضمون کاعلم حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔مجھے اِس بات پر کبھی یقین نہ آتا اگر میں نے اپنی آنکھوں سے سلیکشن بورڈ کی سفارشات نہ پڑھی ہوتیں اور اِس بابت اخبار میں خبرنہ دیکھی ہوتی۔یہ ہیں وہ حالات جن میں ہم روزانہ ایک نئی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اِس کے لیے قابل اور با صلاحیت اساتذہ کہاں سے آئیں گے، یونیورسٹی کے لیے بجٹ کون دے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یونیورسٹی بنانے سے اُس ضلع کے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔مثلاً سیالکوٹ میں خواتین کے لیے یونیورسٹی بنائی گئی ، کیا اِس یونیورسٹی میں کوئی ایسی تحقیق کی گئی جس میں ملکی برآمدات بڑھانے کا کوئی قابل عمل منصوبہ پیش کیا گیا ہو؟ نہیں ،ایسی کوئی تحقیق اِس یونیورسٹی کے ایجنڈےپر نہیں ہے ۔ایک منٹ کے لیے فرض کریں کہ اگر یہ یونیورسٹی نہ بنتی تو اِس سے کیا نقصان ہوتا؟ یا دوسرے الفاظ میں اِس یونیورسٹی کی وجہ سے سیالکوٹ شہر میں کیا ویلیو ایڈیشن ہوئی ؟ اگر طالبات میں مختلف مضامین کی سندیں تقسیم کرنا ہی اِس یونیورسٹی کا مقصد تھا تو یقیناً وہ مقصد حاصل ہوگیا مگر کیا یہ کافی ہے ؟ممکن ہے آپ کہیں کہ یونیورسٹی کوئی کمپنی نہیں ہوتی جو فائدے کے لیے بنائی جائے، یہاں نوجوان تعلیم کی غرض سے آتے ہیں،اِس لیے یہ سوال ہی غلط ہے کہ یونیورسٹی بنانے کا کیا فائدہ ہے!میرا خیال ہے کہ یہی وہ غلط فہمی ہے جس کو دور کرنا ضروری ہے۔
دنیا بھر میں یونیورسٹیاں تدریس و تحقیق دونوں کام کرتی ہیں، ابتدائی تعلیم کے لیے اسکول اور اُس کے بعدکالج ہوتے ہیں جبکہ جامعات کالجوں سے مختلف ہوتی ہیں،وہاں دو قسم کے کام ہوتے ہیں ،ایک تو وہ انڈر گریجوایٹس پیدا کرتی ہیں جو مختلف شعبوں کے پروفیشنل بن کر معاشرے کے مفید شہری بنتے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں کا دوسرا اور اصل کام تحقیق ہوتا ہے جو ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبا اپنے اساتذہ کی زیر نگرانی کرتے ہیں ۔ اِس تحقیق کے نتیجے میں یونیورسٹی سے نت نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں جیسے سٹینفورڈ یونیورسٹی کی وجہ سے سیلیکون ویلی بنی اور وہاں گوگل ، فیس بک، یاہو، ایپل اور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کی بنیاد پڑی،یہ سیلیکون ویلی دراصل سٹینفورڈ یونیورسٹی کی مرہون منت ہے ۔ اسی طرح کووڈ کی مشہور زمانہ ویکسین ایسٹرا زینیکا آکسفورڈ یونیورسٹی میں تیار کی گئی جس کی فروخت سے اربوں ڈالر کمائے گئے ،یہ کمائی آکسفورڈ یونیورسٹی کی بدولت ممکن ہوئی۔ ایسی یونیورسٹیاں صرف ملکی پیداوار بڑھانے کا ہی سبب نہیں بنتیں بلکہ وہاں سے دانشور ، محقق، سائنسدان، فلسفی اور ایسے ہنر مند افراد فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں جو نہ صرف اُس شہر بلکہ اپنے ملک کی پیداوار کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں،یہ جامعات ایسے دانشور بھی پیدا کرتی ہیں جو عالمی سطح پر اپنا لوہا منواتے ہیں جس کے نتیجے میں نوجوان طلبا اُن جامعات میں کھنچے چلے جاتے ہیں اور اِس طرح یہ بات بھی اُس ملک کے لیے فائدے کا سبب بنتی ہے۔بہاولپور یونیورسٹی کے ایک نوجوان پروفیسر سعید احمد بزدار نے اِس موضوع پر ’علم کی راہداریاں‘ کے نام سے نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے دنیا کی اُن دس غیر معمولی یونیورسٹیوں کا حال لکھا ہے جنہوں نے دنیا بدل ڈالی۔
جب بھی دنیا کی بہترین جامعات کی مثال دی جا تی ہے تو جواب میں ہمارے وی سی صاحبان ایک ہی بات کرتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی سٹینفورڈ اور آکسفورڈ کی طرح پیسے دیں، پھر دیکھیں کیسے ہم ٹوپی میں سے کبوتر نکال کر دکھا تے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں ہم حب الوطنی کے جذبےسے سرشار ہو کراِس ’دلیل ‘ سے قائل ہوجاتے تھے مگر اب نہیں،اگرا ٓپ کسی یونیورسٹی میں ایک دن گذار کر دیکھیں توبخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح جامعات میں وسائل اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے ۔ویسے بھی تخلیقی آئیڈیا پیسے کا محتاج نہیں ہوتا، پاکستان کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اُس نے حکومت کو معاشی بدحالی سے نکلنے کا منصوبہ بنا کردیا تھا مگر حکومت نے اُس پر عمل نہیں کیا ،دوسری طرف اگر آپ معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی فہرست نکال کر دیکھیں گے تو پتاچلے گا کہ مردان سے لے کر نارووال تک ہر گلی میں ایک پی ایچ ڈی موجود ہے ۔ویسے تو یہ ایک مثال ہی اِن جامعات کی بد انتظامی اور نالائقی کا ثبوت دینے کے لیے کافی ہے مگر خواتین جامعات کا حال اِس سے بھی برا ہے ، لڑکیوں کی بہت سے یونیوورسٹیاں ایسی ہیں جہاں خواہ مخواہ مرد سٹاف بھرتی کر لیا گیا ہے اوراُن اسامیوں پر بھی مرد ٹھونس دئیے گئے ہیں جہاں عورتوں کو باآسانی نوکری مل سکتی تھی ۔ اصولاً تو خواتین یونیورسٹی کی تمام اسامیوں پر ،پروفیسر سے لے کر نائب قاصد تک، خواتین کو بھرتی کیا جانا چاہیے لیکن اُس نالائقی کا کیا کریں جس کی بنیاد پر اِن خواتین یونیورسٹیوں کی رئیس الجامعات نے عورتوں کی یونیورسٹی میں مرد بھرتی کر رکھے ہیں۔بہت سے والدین اپنی بچیوں کو لڑکیوں کی یونیورسٹی میں اِس لیے داخل کرواتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کی بچی مخلوط تعلیمی ادارے میں جائے ، لیکن اگر ایسی یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر آپریٹر سے لےکر رجسٹرار تک اور خاکروب سے لے کر خزانچی تک مردمنہ اٹھائے گھوم رہے ہوں گے تو پھر بچیوں کے لیے علیحدہ یونیورسٹی بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔کیا اِس سادہ سی بات کو سمجھنے کے لیے بھی سٹینفورڈ اور آکسفورڈ والا بجٹ چاہیے!
ویسے تو ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور جامعات کوئی استثنیٰ نہیں ،اِس لیے صرف اِن پر تبرہ کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس واقعی اب اِن جامعات کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں ایچ ای سی نے پورے پاکستان کے وی سی صاحبان کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں دو دن کے لیے مدعو کیا،اور پھر یہ پیغام دے کر رخصت کردیا کہ اپنے اخراجات کم کریں، گویا جو کام ایک ای میل کے ذریعے ہو سکتا تھا اُس کے لیے کروڑوں کا بجٹ خرچ کر دیا گیا۔اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ