

اس تقریب میں معزز مہمانوں نے شرکت کی جن میں ایچ ای سی کے رکن (آئی ٹی) ڈاکٹر جمیل احمد، وزیر اعظم کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے سفیر (ر) محمد صادق، افغان قونصل خانے پشاور کے قونصل جنرل جناب محب اللہ حفیظ، ایچ ای سی کے مشیر (ایچ آر ڈی) انجینئر محمد رضا چوہان، اور آئی ایم سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عثمان غنی شامل تھے۔ ان معزز شخصیات نے فارغ التحصیل طلبہ کی کامیابیوں کو سراہا اور اقتصادی چیلنجز کے باوجود پاکستان کی جانب سے افغان طلبہ کی تعلیم کے عزم کو سراہا۔ خاص طور پر افغان خواتین کی شمولیت کو ترقی کے لیے نہایت اہم قرار دیا گیا۔سفیر محمد صادق نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر جمیل احمد نے خواتین کی تعلیم اور طلبہ کی بھرپور شرکت کے لیے یونیورسٹی کے کردار کی تعریف کی۔

انجینئر محمد رضا چوہان نے اسکالرشپ منصوبے کے دوسرے مرحلے کا جائزہ پیش کیا، جسے 2018 میں 7.3 ارب روپے کے تخمینی لاگت کے ساتھ منظور کیا گیا تھا اور یہ 2027 تک جاری رہے گا۔ انہوں نے اس منصوبے کے تین ہزار افغان طلبہ، ان کے خاندانوں اور کمیونٹیز پر مثبت سماجی و معاشی اثرات کو اجاگر کیا، جو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے دیرپا تبدیلی لائیں گے۔ایچ ای سی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر (ایچ آر ڈی) جناب ذیشان خان نے IMSciences کی کاوشوں کو سراہا اور افغان فیکلٹی اور حکام کے لیے تربیتی پروگراموں کے ذریعے تعلیمی تعاون جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔فارغ التحصیل طلبہ کو روشن مستقبل کی نیک خواہشات، جو افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے!

چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا (UEA) کے پرو وائس چانسلر مسٹر اسٹیون میگوآئر سے ملاقات کی، جس میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گفتگو کا مرکز تعلیمی شراکت داری، فیکلٹی اور طلبہ کے تبادلے، مشترکہ تحقیق، اور استعداد کار بڑھانے کے اقدامات تھے، جو پاکستانی جامعات اور UEA کے درمیان کیے جا سکتے ہیں۔ دونوں فریقین نے معیاری تعلیم اور اختراع کے فروغ کے لیے بین الاقوامی تعلیمی تعاون کی اہمیت کا اعادہ کیا۔
چیئرمین ایچ ای سی نے عالمی تعلیمی روابط کے لیے پاکستان کے عزم کو دہرایا، جبکہ مسٹر میگوآئر نے پاکستانی اداروں کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔ ملاقات اختتام پذیر ہوئی اس مشترکہ عزم کے ساتھ کہ مستقبل میں مزید تعاون کے مواقع تلاش کیے جائیں گے۔

4o
لاہور (30اپریل،بدھ):وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا ہے کہ پاکستان کو فوڈ سکیورٹی، سائبر سکیورٹی،زراعت اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے ماڈرن سائنس اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مضامین سکول کی سطح پر متعارف کروانے ہوں گے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر ’سائنس فار سوشل اکنامک ڈویلپمنٹ‘کے موضوع پر منعقدہ سائنسدانوں کے کنونشن سے الرازی ہال میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب کا انعقادپنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف باٹنی، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے اشتراک سے کیا گیا۔ اس موقع پرسابق وفاقی وزیربرائے فوڈ سکیورٹی اور صدر پاکستان اکیڈمی آف سائنسز پروفیسر کوثر عبداللہ ملک،ڈائریکٹرریسرچ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن ڈاکٹرمرزا حبیب علی،پروفیسر ایمریٹس گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر اکرام الحق،ڈین فیکلٹی آف ایگریکلچرل سائنسز پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سلم حیدر، ایڈیشنل ڈائریکٹر پاکستان سا ئنٹفک اینڈ ٹیکنیکل انفارمیشن سنٹر علی رضا خان، سائنسدان، محققین، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے شرکت کی۔اپنے خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ پاکستان میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے سے مسائل جنم لے رہے ہیں اور زرعی زمین کم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہماری خوراک کا بڑا حصہ ضائع ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ لاہور میں پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے جس سے خشک سالی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کوپانی، خوراک، زراعت اورآب وہوا کے حوالے سے مربوط حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسدانوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بہترین تقریب کے انعقاد پر منتظمین کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ ملکی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے طلباء کو تنقیدی سوچ کیلئے تیار کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کو بچانا ضروری ہے تاکہ پاکستان اور نوجوان طلباء کو بچایا جاسکے۔ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کہا کہ جیسا کہ ہم 2030 تک SDGs کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، سماجی اقتصادی تفاوت کو دور کرنے، انسانی فلاح و بہبود کو فروغ دینے اور کرہ ارض کی حفاظت کے لیے جامع پالیسیوں، پائیدار طریقوں اور باہمی تعاون کی کوششوں کو ترجیح دینا بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ 17 SDGs کو اپنی ترقیاتی حکمت عملیوں میں ضم کر کے ہم سب کے لیے ایک زیادہ مساوی، خوشحال اور پائیدار مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کو بہتر مالی وسائل اور قیادت فراہم کرکے مضبوط کرے۔ انہوں نے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام سائنسی تحقیق کے ذریعے سماجی اقتصادی ترقی میں پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے کردار کو سراہا۔پروفیسر ڈاکٹراکرام الحق نے پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، ایف سی کالج،یونیورسٹی، یونیورسٹی آف اینیمل سائنسزسمیت پاکستانی جامعات میں جاری تحقیقی سرگرمیوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی ماہرین، سائنس دان، محققین اور سکالرز کو مل کر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرنا ہے۔ڈاکٹر مرزا حبیب علی نے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی سے متعلق سائنسی مسائل پر بنیادی تحقیق کے فروغ کے لیے ایک اعلیٰ ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی، سماجی اور ماحولیاتی مسائل کے حل میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا کرداربہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نئے اور مربوط طریقے استعمال کرنے چاہئیں جو موجودہ اور نئے سائنسی علم کو مکمل طور پر تقویت دے سکیں۔ علی رضا خان نے کہا کہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن 1973ء میں سائنسی علم کو فروغ دینے اور تحقیقی سرگرمیوں میں معاونت کے ویژن کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن سائنسی تعلیم و تحقیق کو فروغ دینے میں سب سے آگے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان سائنس فاؤنڈیشن نے اپنے مسابقتی تحقیقی پروگرام کے تحت تحقیقی منصوبوں کی منظوری دی ہے، یہ منصوبے لاگو تحقیق کی متنوع رینج پر محیط ہیں، جس میں پروٹوٹائپس جیسے کہ مقامی وینٹی لیٹر مشینیں اور تشخیصی کیتھیٹرز کی ترقی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ اداروں میں بہت سے اثر انگیز تحقیقی منصوبوں کو فنڈز فراہم کرکے، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن نے تکنیکی ترقی کو فروغ دینے، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے نتیجے میں صحت عامہ اور اقتصادی ترقی میں بہتری آئی ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں 8ویں میڈیکل لیبارٹری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک بھر سے ماہرین اور اساتذہ نے شرکت کی۔مقررین نے پاکستان میں میڈیکل لیبارٹری نظام کو بہتر بنانے، جدید تشخیصی ٹیکنالوجی کے انضمام اور مسلسل پیشہ ورانہ تربیت کی اہمیت پر زور دیا۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر چوہدری نے کہا کہ صحت کے شعبے میں لیبارٹری ٹیکنالوجی کا کردار نہایت اہم ہے اور دنیا بھر میں 70 فیصد طبی تشخیصات لیبارٹری رپورٹس کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس شعبے کو اب زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے، جو خوش آئند بات ہے۔پاکستان میڈیکل لیبارٹری ایسوسی ایشن کے صدر چودھری احسان اللہ سدھو نے 2011 میں پنجاب میں میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجسٹس کی سروس سٹرکچر کے اجرا کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا، لیکن پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2012 کی بعض شقوں کی وجہ سے آزادانہ پریکٹس میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے اتحادی صحت کے ماہرین کی علیحدہ کونسل کے قیام کا مطالبہ کیا۔کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر محمد نعمان آفتاب، ڈاکٹر اسدالرحمان،پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد،محمد ندیم اشرف اوراشتیاق احمد نے بھی خطاب کیا۔


پنجاب میں 8 سال بعد لیپ ٹاپ سکیم کا دوبارہ آغازکر دیا گیا۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے لیپ ٹاپ سکیم کے پہلے فیز کا افتتاح کر دیا۔ طلبہ کو پہلی مرتبہ 13thجنریشن کور آئی سیون کے لیپ ٹاپ دیئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے ہونہار سکالر شپ فیز ٹو کابھی آغاز کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی ہدایت پر دیگر صوبوں 5ہزار طلبہ کے لئے لیپ ٹاپ سکیم کا بھی آغازکر دیا گیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے طلبہ کے لئے لیپ ٹاپ سکیم کا ای پورٹل اوپن کر دیا گیا ہے۔پنجاب کے بعد سب سے زیادہ لیپ ٹاپ خیبرپختونخوا کے 3136 طلبہ کو لیپ ٹاپ ملیں گے۔ بلوچستان کے 938،آزاد جموں و کشمیر کے 517 اور گلگت بلتستان 410طلبہ کو بھی لیپ ٹاپ ملیں گے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے لاہور کی تاریخی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں لیپ ٹاپ تقسیم کا آغاز کیا۔وزیراعلی مریم نواز شریف صدارتی نشست چھوڑ کر طلبہ کے درمیان بیٹھ گئیں۔

وزیراعلی مریم نواز شریف نے تقریب میں آمد پر ہاتھ ہلا کر طلبہ کے خیرمقدمی نعروں کا جواب دیا۔ ہونہار سکالر شپ فیز ٹو کے تحت دو سے پانچ سال اور تیسرے سے آٹھویں سمیسٹر کے طلبہ کے لئے 20ہزار سکالر شپ دیئے جائیں گے۔ لاہور ڈویژن کے 27 سرکاری کالجز، 6 میڈیکل کالجزاور یونیورسٹیوں کے 3121 طلبہ کے لئے 12کروڑ روپے سے زائد کے سکالر شپ دیئے جائیں گے۔ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت لاہور ڈویژن کے 14ہزار طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔ 13سرکاری یونیورسٹیاں،6 میڈیکل کالجز اور27 اعلیٰ تعلیمی اداروں کو لیپ ٹاپ دیئے گئے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی ہدایت پر خصوصی تقریب میں طلبہ کو پولیس کے چاق وچوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ کوئین میری کالج کی طالبات کے دستے نے وزیر اعلی مریم نواز شریف کو خصوصی گارڈ آف آنر پیش کیا۔

وزیراعلی مریم نواز شریف نے گارڈ آف آنر پیش کرنے والی طالبات کو پیار کیا۔ تقریب میں ہائر ایجوکیشن کی طرف سیلیپ ٹاپ اور ہونہار سکالر شپ پرخصوصی ڈاکو مینٹری پیش کی گئی۔ تقریب میں طلبہ نے ”سوہنی دھرتی“اور دیگر نغمے پیش کئے۔”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد“ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے خود ملی نغمہ گایا اور حاضرین بھی شامل ہوگئے۔ سوہنی دھرتی کے ملی نغمے سے تقریب کا ماحول پر اثر ہوگیا۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ جب پاکستان کے نوجوان کہہ رہے ہیں ”قدم قدم آباد رہے“ تو ان شاء اللہ یہ دھرتی تا ابد آباد رہے گی۔

محکمہ تعلیم گوادر کی جانب سے اسکول داخلہ مہم 2025 کے سلسلے میں ”علم کی روشنی ہر بچے تک” کے عنوان سے ایک شاندار سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ تھے۔تقریب میں ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمٰن، پاک آرمی 440 بریگیڈ کے بریگیڈیئر احتشام، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زاہد حسین، نیوی آفیسران، خواتین پولیس انسپکٹر فضاء الٰہی، ضلعی تعلیم افسران، اساتذہ، طلباء و طالبات سمیت گوادر کی سیاسی، سماجی اور معزز شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔سیمینار کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا۔

تقریب سے قبل اسکول داخلہ مہم کے حوالے سے ایک آگاہی واک بھی منعقد کی گئی، جو ایجوکیشن آفس گوادر سے شروع ہوکر گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول گوادر پر اختتام پذیر ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی نظام میں موجود مسائل کو خلوصِ نیت سے درست کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تعلیم کی مجموعی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے اور ہمیں بنیادی اصلاحات، خاص طور پر اساتذہ کی بھرتی، نصاب اور اسکولوں کی بہتری پر توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ضلع گوادر میں کئی غیر فعال اسکولوں کو فعال کیا گیا ہے تاکہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔
– Advertisement –

معاشرتی ذمہ داریوں پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تعلیم کی بہتری میں حکومت کے ساتھ عوام کی شمولیت بھی انتہائی اہم ہے۔بریگیڈیئر احتشام نے خطاب میں کہا کہ معاشرے کے دو طبقات میں ایک وہ ہیں جو سہولیات کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو سماج سے کٹا ہوا ہے۔ ہمیں ان بچوں کو تعلیم کی روشنی فراہم کر کے معاشرتی ناانصافیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے گوادر میں تعلیمی بہتری کے لیے محدود وسائل میں بھی بھرپور تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے اپنے خطاب میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ گوادر میں پانچ ہزار بچوں کے داخلے کا ہدف کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے، لیکن اب بھی بہت سے بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ اقوام تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بناتی ہیں اور ہمیں بھی تعلیم و تربیت کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔
انہوں نے والدین، اساتذہ اور معاشرتی افراد کو بچوں کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔داخلہ مہم سیمینار میں طلباء و طالبات نے ٹیبلو شو، تقاریر، ڈرامے اور معروف بلوچی گلوکار فیض محمد بلوچ کے انداز میں شاندار پرفارمنسز پیش کر کے خوب داد سمیٹی۔تقریب میں ضلع بھر میں داخلہ مہم کے حوالے سے بہترین کارکردگی دکھانے پر گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول کوہ بن اورماڑہ کی ٹیچر نسیمہ اور گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول بندری جیوانی کے ٹیچر محمد طاہر کو ایوارڈز دیے گئے۔
اسی طرح ضلع بھر میں بہترین سائنس ایگزیبیشن مقابلے میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبائ، سمیر قادر (پسنی)، طیبہ شریف (گوادر)، اور حلیمہ عبدالسلام (گوادر) کو ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان اور ڈپٹی کمشنر حمود الرحمٰن کی جانب سے لیپ ٹاپس دیے گئے۔گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول گوادر کی ابتدائی جماعتوں کی طالبات کو یونیسف کی جانب سے اسکول بیگز بھی فراہم کیے گئے۔تمام معزز مہمانوں کو ایجوکیشن آفس گوادر اور ایجوکیشن سپورٹ پروگرام کی جانب سے ”Guest of Honor” کے ایوارڈز پیش کیے گئے، جب کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زاہد حسین نے خصوصی طور پر ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان کو بھی یادگاری ایوارڈ پیش کیا۔اسٹیج سیکرٹری کے فرائض اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نادل بلوچ نے نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔
ہائریجوکیشن کمیشن کے زیر اہتممام پاکستانی اور قازقستانی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا ایک اجلاس نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون اور ادارہ جاتی روابط کو فروغ دینا تھا۔ قازقستان کی 12 ممتاز یونیورسٹیوں کا وفد اس وقت پاکستان کے دورے پر ہے۔چیئرمین HEC ڈاکٹر مختار احمد نے فورم کی صدارت کی، جس میں دونوں ممالک کی مختلف جامعات کے سربراہان نے شرکت کی۔ انہوں نے معزز مہمانوں کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں شراکت داری کے فروغ کے لیے HEC کے عزم کا اعادہ کیا۔
چیئرمین ہائریجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد، نے تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شریک یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ وہ تعلیمی اور تحقیقی شراکت داری کے مواقع تلاش کریں۔ انہوں نے پاکستان اور قازقستان کی جامعات کا ایک کنسورشیم قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ دوطرفہ تعلیمی تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو باضابطہ شکل دی جا سکے۔قازقستان کی وزارتِ سائنس و اعلیٰ تعلیم کے بین الاقوامی تعاون کے شعبے سے ماہر، جناب تلیککالی ایرکگالی (Tlekkali Erkegali) نے پاکستانی اداروں کے ساتھ شراکت داری میں قازقستان کی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے تعلیم کے معیار کو بین الاقوامی سطح تک بلند کرنے اور ملک کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی بین الاقوامی سطح پر شمولیت کے فروغ کے لیے وزارت کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات اور اقدامات پر روشنی ڈالی۔

دونوں ممالک کے اعلیٰ تعلیمی ادارے، جنہیں کنسورشیم کے بانی اراکین قرار دیا گیا، اس بات پر متفق تھے کہ یہ پلیٹ فارم مستقبل میں باہمی تعاون پر مبنی اقدامات کی راہ ہموار کرے گا۔ ہر رکن ادارہ آئندہ روابط کے لیے ایک فوکل پرسن نامزد کرے گا، جبکہ HEC سیکریٹریٹ کی سطح پر معاونت فراہم کرے گا۔
HEC کے گلوبل انگیجمنٹ (GE) ڈویژن، جس کی قیادت مشیر جناب اویس احمد نے کی، نے فورم کے انعقاد اور پاکستانی و قازق یونیورسٹیوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔قازقستانی جامعات نے فورم کے موقع پر “اسٹڈی ان قازقستان” کے عنوان سے تعلیمی اسٹالز لگا کر اپنی تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بین الاقوامی طلباء کے لیے تعلیمی مواقع پیش کیے۔

یو ای ٹی ٹیچنگ سٹاف ایسوسی ایشن نے صدر ڈاکٹرمحمد شعیب کی قیادت میں وائس چانسلر ڈاکٹرشاہد منیر سے ملاقات کی۔ٹی ایس اے نے یونیورسٹی اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد اضافے پر وائس چانسلر کاشکریہ ادا کیااور یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے پر انکی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ملاقات کے دوران ٹی ایس اے قائدین نے وائس چانسلر کیساتھ مکمل یکجہتی اور ساتھ دینے کا اعلان کیااور امید ظاہر کی کہ وائس چانسلر یونیورسٹی کی فلاح و بہبودکیلئے اپنی مخلصانہ کاوشیں جاری رکھیں گے ۔ڈاکٹر شاہد منیر نے یقین دہانی کرائی اگر یونیورسٹی کے مالی حالات بہتر ہوئے تو ملازمین کو انکے بقایا واجبات بھی جلد ادا کردیے جائیں گے۔ڈاکٹر شاہد منیر نے ٹی ایس اے کے وفد کو بتایا کہ گزشتہ روز ہونیوالی سینڈیکیٹ کے اجلاس میں ٹی ٹی ایس اساتذہ کی ترقی کی منظوری دی گئی،کچھ ملازمین اور اساتذہ کو سروس سے معطل کیا گیا،کچھ ملازمین کے خلاف شوکازنوٹس جاری کرنے کی منظوری دی گئی جبکہ اکیڈمک کونسل کے تمام فیصلوں اور نئے پروگرام کے اجراء کی منظوری بھی دی گئی۔انہوں نے بتایا کہ سینڈیکیٹ نے کالجز الحاق کمیٹی کے فیصلوں کی منظوری بھی دی۔اسی طرح ریسرچ پراڈکٹویٹی ایوارڈ کے اعلان کی منظوری بھی دے دی گئی،اسکے علاوہ ارکان سینڈیکیٹ نے کیو ایس رینکنگ میں یو ای ٹی کو 205ویں پوزیشن حاصل کرنے پروائس چانسلر اور انکی ٹیم کو سراہا۔اسی طرح ممبر سینڈیکیٹ جسٹس باقر نجفی کو سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اور انکی خدمات کو بھی سراہا۔ وفد میں ڈاکٹر تنویرقاسم ،احمد نوید، ڈاکٹر راشد جلیل، ڈاکٹر عثمان، ڈاکٹر اویس، ڈاکٹر رضوانہ، ڈاکٹر ہدی ، ڈاکٹر شمائلہ ڈاکٹر عرفان جلیس شامل تھے
کورین سفیر کی قیادت میں وفد نے پی ایچ ای سے افسران کے ہمراہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کا دورہ کیااور وائس چانسلر یو ای ٹی پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیرسے ملاقات کی۔پاکستان اور کوریاکے مابین مضبوط، نتیجہ خیز اور بلاتعطل دوطرفہ تعلقات دونوں ممالک میں تدریسی روابط کو ترویج دینے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ بات کورین سفیر نے ڈاکٹر شاہد منیر سے ملاقات کے دوران کہی۔ ڈاکٹر شاہد منیر نے بتایا کہ یو ای ٹی بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے اسی وجہ سے یہاں مختلف ممالک سے طلبہ زیر تعلیم ہیں اور انکو بہترین تعلیم و تربیت دینے کی غرض سے ملکی اور غیر ملکی اداروں سے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں تاکہ تکنیکی صلاحیتوں کو مزید نکھارا جا سکے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ آپس میں اساتذہ اور طلبہ کے تبادلے کے ساتھ ساتھ مشترکہ مفادات کے شعبہ جات میں باہم تحقیق کو فروغ دینے کیلئے معاہد ہ کی گنجائش موجود ہے جس سے یقینی طور پر دو طرفہ تعلقات کو واضح مقصدیت حاصل ہو سکے گی۔ اس دوران وفدنے کہا کہ کوریامیں انجینئرنگ کے شعبہ میں بہت صلاحیت موجود ہے جس سے پاکستانی اداروں کو فائدہ اٹھانا چاہیئے اس حوالے سے سفارت خانہ ذاتی دلچسپی لے رہا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ دو طرفہ تدریسی اداروں کے مابین تعلقات قائم کروانے میں سفارت خانہ معاون ثابت ہو گا تاکہ انجینئرنگ کی تعلیم اورایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوا جاسکے۔ آخر میں وائس چانسلر ڈاکٹرشاہد منیر نے سفیرکو اعزازی شیلڈ بھی پیش کی۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں تین روزہ 29ویں پارلیمانی مباحثہ کا انعقاد، ملک بھر کے 60 سے زائد تعلیمی اداروں سے 350 سے زیادہ مقررین نے شرکت کی۔اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر چوہدری نے تمام شرکاء کو مبارکباد دی اور تنقیدی سوچ و مکالمے کی اہمیت پر زور دیا۔انگریزی مباحثوں میں سٹی سکول کیپیٹل اسلام آباد نے پروفیسر ڈاکٹر خالد آفتاب ٹیم ٹرافی جیتی، جبکہ اردو مباحثوں میں پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ ٹیم ٹرافی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے نام رہی۔ انڈر 19 کیٹیگری میں انگریزی ٹیم ٹرافی صادق پبلک اسکول بہاولپور اور اردو ٹیم ٹرافی پنجاب یونیورسٹی نے حاصل کی۔سٹی سکول اسلام آباد سے زویان فیصل انگریزی اوپن کیٹیگری میں بہترین مقرر قرار پائے، جبکہ انڈر 19 کیٹیگری میں علیزہ علی اور محمد عثمان فاروق نے مشترکہ طور پر بہترین مقرر کا اعزاز حاصل کیا۔ اردو اوپن کیٹیگری میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے عبدالرحمٰن بسرا بہترین مقرر قرار پائے۔

