گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ماحولیاتی مسائل اور سماجی چیلنجز کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزی مختصر ڈرامہ“دھوبی کا کتا”پیش کیا گیا۔ یہ منفرد ڈرامہ شعبہ انگریزی ادب کے طلباء نے وومن ڈویلپمنٹ سینٹر کے تعاون سے تخلیق کیا۔ڈرامہ میں شہر لاہور کو ماحولیاتی چیلنجز اور اس سے منسلک معاشرتی رویوں کو اجاگر کیا گیا۔کاسٹ میں علیشبہ فیاض، معظم حسن، زوہا عباس، اقصیٰ ظفر اور دیگر شامل تھے۔ یہ ڈرامہ ماحولیاتی ذمہ داری کا شعور اجاگر کرنے میں کامیاب رہا اور سامعین کو خوب متاثر کیا۔
Ilmiat
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کی زیر صدارت سماجی علوم میں بین الضابطہ نقطہ نظر پر بین الاقوامی کانفرنس
بہاول پور (پ ر)وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کی زیر صدارت سماجی علوم میں بین الضابطہ نقطہ نظر پر بین الاقوامی کانفرنس کا بعد از کانفرنس اجلاس وائس چانسلر سیکرٹریٹ بغداد الجدید کیمپس میں منعقد ہوا۔ کانفرنس چیئراور چیئر مین شعبہ اقتصادیات ڈاکٹر عابد رشید گل نے کامیاب کانفرنس کے انعقاد میں آرگنائزنگ کمیٹی ممبران کاشکریہ ادا کیا۔ ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنس پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے فیصلہ کیا کہ سکول آف سٹیٹ سائنسز، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، 2025 میں سوشل سائنسز میں انٹر ڈسپلنری اپروچ پر بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔ آخر میں کانفرنس کے سرپرست، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران، سرپرست اعلیٰ، پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی اور کانفرنس چیئر نے فیکلٹی آف سوشل سائنس کے ممبران آرگنائزنگ کمیٹی کے تمام چیئرپرسنز میں شیلڈز تقسیم کیں۔
پنجاب یونیورسٹی آسا کے زیر اہتمام ریٹائرڈ اساتذہ کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا انعقاد
لاہور (17دسمبر،منگل): پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام رواں برس ریٹائرڈ ہونے والے اساتذہ کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا انعقاکیا گیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، پرووائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود، صدر آساڈاکٹر امجد عباس مگسی، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد اسلام اور فیکلٹی ممبران نے شرکت کی۔ اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ اساتذہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے شروع کیا گیا سلسلہ لائق تحسین ہے،جس کے لئے پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن مبارک باد کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعات کو لازمی طور پر اپنے ریٹائرڈ اساتذہ کا شکر گزار رہناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ بہت قابل ہیں جن کی معاونت سے ادارے کو بہت فرق پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ استاد کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا بلکہ ریسرچ کو فروغ دینے کے لئے زیادہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ڈاکٹر امجد عباس مگسی نے کہا کہ کامیاب تقریب کے انعقاد کیلئے تعاون پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کے شکر گزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن نے اپنے منشور کے مطابق اساتذہ کی خدمات کو سراہنے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تقاریب سے محبت، اخوت اورباہمی احترام کو فروغ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آساپنجاب یونیورسٹی اساتذہ کی خدمت کیلئے اپنا بھرپور کردار اداکرتی رہے گی۔ بعد ازاں وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد علی نے ریٹائرڈ اساتذہ کواعزازی شیلڈز پیش کی۔
–گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور سول سروسز اکیڈمی کے درمیان تعلیمی اور پیشہ ورانہ تعاون کے فروغ کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
–گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور سول سروسز اکیڈمی کے درمیان تعلیمی اور پیشہ ورانہ تعاون کے فروغ کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط۔ سول سروسز اکیڈمی میں منعقد تقریب میں جی سی یو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور سی ایس اے کے ڈائریکٹر جنرل فرحان عزیز خواجہ نے معاہدہ پر دستخط کیے۔معاہدے کا مقصد زیر تربیت افسران میں مشترکہ طور پر سائنس و ٹیکنالوجی، آرٹس اور اردو زبان کی مہارتوں کو فروغ دینا ہے۔اس کے علاوہ، تربیتی پروگرام میں سپورٹس سائنسز کو شامل کر کے افسران میں قیادت، ٹیم ورک، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا بھی اس معاہدے کا حصہ ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے اسے دونوں اداروں کے لیے اہم پیشرفت قرار دیا اور کہا کہ یہ تعاون تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے افسران کی پیشہ ورانہ تربیت کو بہتر بنائے گا۔ڈائریکٹر جنرل سی ایس اے فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ دونوں اداروں کے درمیان فیکلٹی کے تبادلوں اور مشترکہ تربیتی پروگرامز کے ذریعے اہم پیش رفت ہوگی۔تقریب میں دونوں اداروں کے سینئر اساتذہ نے شرکت کی۔
شعبہ خصوصی تعلیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام خصوصی تعلیم میں ریسرچ کے موضوع پر دوروزہ چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ۔۔۔۔۔۔۔انفرنس کے دوسرے روز وائس چانسلر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر مظہر ایاز نے خصوصی شرکت کی۔ کانفرنس کے دوسرے روز پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی نے کی
شعبہ خصوصی تعلیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے زیر اہتمام خصوصی تعلیم میں ریسرچ کے موضوع پر دوروزہ چوتھی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ کانفرنس میں آن لائن ذرائع سے انڈیا، نائجیریا، ملائیشیاء اور پاکستان کی مختلف جامعات اور اداروں سے مندوبین شریک ہوئے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران وائس چانسلر افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی تھے۔ افتتاحی سیشن میں اپنے خطاب میں وائس چانسلر نے کہا کہ اس کانفرنس کا انعقاد خصوصی تعلیم کے شعبے میں خصوصی افراد کیلیے اعلیٰ تعلیم کے لیے ہماری کوششوں کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے خصوصی تعلیم کے محققین، مدرسین، پالیسی ساز اداروں کے نمائندے اور طلباو طالبات ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں گے تاکہ خصوصی افراد کے لیے تعلیم میں جدید طریقوں کو اپنا کر جدت لائی جا سکے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور تمام طلباو طالبات کے لیے مہیا وسائل کو زیادہ سے زیادہ قابل استعمال اور موثر بنا کر ذہنی اور فکری ابیاری کے لیے کوشاں ہے۔ امید واضح ہے کہ کانفرنس کے مندوبین اور اسٹیک ہولڈر خصوصی افراد کے اہم ایشو کی بہتری سے متعلق مفید سفارشات پیش کر ے گے۔ ڈین فیکلٹی آف ان لائن اینڈ ڈسٹنس ایجوکیشن و کانفرنس چیئر پروفیسر ڈاکٹر نسرین اختر نے کہا کہ اس کانفرنس میں ہونے والے مباحث اور تحقیقی مقالات خصوصی تعلیم کے شعبے میں قومی اور بین الاقوامی دائیلاگ میں اہم پیش رفت ثابت ہوں گے۔ خصوصی تعلیم کو دور حاضر میں درپیش چیلنجز کے تناظر میں اس کانفرنس کا انعقاد نہایت اہم ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نسرین اختر نے ہیلپنگ ہیڈ فار ریلیف اور شعبہ سپیشل ایجوکیشن کے تعاون کو سراہا۔ پروفیسر ڈاکٹر ارشاد حسین ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن نے کہا کہ فیکلٹی ہذا تعلیم کے شعبے میں ایک سنٹر آف ایکسی لینسی کے طور پر جامعہ اسلامیہ کا نام روشن کر رہی ہے۔ ہمارے اساتذہ نہ صرف جامعہ میں بلکہ دیگر اداروں کے ساتھ بھی ملکر تعلیم کی ترقی و ترویج کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شعبہ خصوصی تعلیم بھی اساتذہ کی استعدادکار میں اضافے اور جدید طریقہ تعلیم سے میسر نصاب و عملی تعلیم کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کانفرنس میں ڈاکٹر عمران لطیف سیفی، عکس نور، فائضہ رمضان، محمد اویس شہزاد، ڈاکٹر فریحہ سہیل، راؤ اسامہ، چوہدری زاہد اجمل، پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر، پروفیسر ڈاکٹر رانا محمد دلشاد، ڈاکٹر محمد شاہد فاروق نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس سیکرٹری ڈاکٹر عمران لطیف سیفی نے شریک مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات کو اعلیٰ پالیسی ساز اداروں اور حکومتی ایوانوں تک پہنچایا جائے گا۔ کانفرنس میں مجموعی طور پر 100 سے زائد مقالات مقالہ جات پیش کئے گئے۔کانفرنس کے دوسرے روز وائس چانسلر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر مظہر ایاز نے خصوصی شرکت کی۔ کانفرنس کے دوسرے روز پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی نے کی اور ڈاکٹر محمد امجد نے کلیدی خطبہ دیا۔ دوسرے سیشن میں ڈاکٹر مسعود احمد اور ڈاکٹر محمد عدیل نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔
جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس کے تین رکنی وفد کاگورنمنٹ سکالرشپ پروگرام کے سربراہ محمد خاصکیہ کی سربراہی میں پنجاب یونیورسٹی کا دورہ
جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس کے تین رکنی وفد نے گورنمنٹ سکالرشپ پروگرام کے سربراہ محمد خاصکیہ کی سربراہی میں پنجاب یونیورسٹی کا دورہ کیا اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی سے ملاقات کی۔اس موقع پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایڈوائزر ایچ آر ڈی محمد رضا چوہان، ڈائریکٹر جنرل ریجنل سنٹر،لاہور غلام نبی،پراجیکٹ ڈائریکٹر جہانزیب خان، پنجاب یونیورسٹی ڈائریکٹر ایکسٹرنل لنکجزپروفیسر ڈاکٹر یامینہ سلمان اور دیگرنے شرکت کی۔ دورے کے دوران فریقین نے طلباء اور فیکلٹی کے تبادلے کے پروگراموں، مشترکہ تحقیقی منصوبوں اور استعداد کار میں اضافے کے حوالے سے ممکنہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے داد(DAAD) کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم میں بین الاقوامیت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے جدت کو فروغ دینے کے لیے طلباء اور فیکلٹی کی زیادہ نقل و حرکت کی ضرورت پر زور دیا۔ وفد کے شرکاء نے پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کو وفروغ دینے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔بعد ازاں وفد نے سنٹر آف ایکسی لینس ان مالیکیولر بائیولوجی(کیمب) کا دورہ کیا۔ ڈائریکٹر کیمب پروفیسر معاذالرحمن نے انہیں ہیلتھ اینڈ ایگری بائیوٹیک لیبز میں جاری تحقیقی سرگرمیوں کے بارے میں بریف کیا۔ وفد نے کیمب میں تیار کردہ سٹیم سیل مصنوعات، بائیو فارماسیوٹیکل اور ایگری بائیوٹیک مصنوعات میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔وفد نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا بھی دورہ کیا اور قدیم مخطوطات کا ذخیرہ دلچسپی کے ساتھ ملاحظہ کیا
مزید 35 سری لنکن طلبہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان پہنچ گئے
مزید 35 سری لنکن طلبہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ یہ طلبہ علامہ اقبال اسکالرشپس برائے سری لنکن طلبہ کے تحت علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ لاہور پہنچے۔
پاکستان اور سری لنکا کئی ترقیاتی شعبوں میں مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں، جن میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ دیگر اقدامات کے علاوہ، اس میں سری لنکن شہریوں کے لیے 1000 اسکالرشپس شامل ہیں۔ اس وقت 418 طلبہ پاکستان میں زیر تعلیم ہیں جبکہ 42 کامیابی کے ساتھ گریجویٹ ہو چکے ہیں۔
یہ اسکالرشپس ایک جامع تعلیمی پروگرام “پاکستان-سری لنکا اعلیٰ تعلیمی تعاون پروگرام” کا حصہ ہیں۔ یہ طلبہ بی ایس، ایم ایس، اور پی ایچ ڈی کی تعلیم پاکستان کی سرکاری جامعات میں حاصل کر رہے ہیں۔
یہ اسکالرشپس تمام اہم شعبوں میں پیش کی جا رہی ہیں، جن میں میڈیسن، انجینئرنگ، بزنس اسٹڈیز، نیچرل سائنسز، سوشل سائنسز وغیرہ شامل ہیں۔ طلبہ کو پاکستانی سرکاری جامعات میں داخلے کے بنیادی اہلیت کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مسابقتی عمل کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔
4o
پنجاب یونیورسٹی کےپروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی ایکوکے سالانہ دن کی تقریب میں کی شرکت
:پنجاب یونیورسٹی ادارہ زبان و ادبیات اردو کے پروفیسرڈاکٹرزاہدمنیرعامر نے، جو آج کل تہران یونیورسٹی میں کرسیِ اردواور پاکستان شناسی کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، ایشیائی ممالک میں اقتصادی تعاون اور ترقی کے معاہدے اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔یہ اجلاس ایرانی وزارت خارجہ کے ادارے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز تہران میں منعقدہوا جس میں دنیابھر کے نمائندہ سفارت کارشریک ہوئے۔ایکوکا معاہدہ سابق آرسی ڈی کے رکن ممالک پاکستان،ایران اور ترکی کے ساتھ1992ء میں افغانستان،آذربائیجان،قازقستان،کرغیزستان،تاجکستان،ترکمانستان اور ازبکستان کے شامل ہونے سے وجودمیں آیاتھا۔اس معاہدے کی تاسیس کی یاد میں ہرسال نومبرمیں اس کا یوم تاسیس منایاجاتاہے۔اس ادارے کا مقصد رکن ممالک کے درمیان تجارت،سرمایہ کاری،ٹرانسپورٹ،ٹیلی کمیونی کیشن،توانائی،معدنیات،ماحولیات،زراعت، صنعت،سیاحت، ہیومن ریسورس اور پائیدارترقی کے منصوبوں پر کام کرناہے۔یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایکوکے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اسدمجیدنے ان مقاصدکی جانب توجہ مبذول کروائی،ایکو جن کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ڈاکٹر زاہدمنیرعامرنے ایکوکے جنرل سیکریٹری کی دعوت پر اس اجلاس میں شرکت کی۔ڈاکٹراسدمجیدنے انھیں اس تقریب میں آمدپرخوش آمدیدکہا۔ڈاکٹرزاہدمنیرعامرنے اس موقع پر انوویشن ڈویلپمنٹ اینڈاینٹرپری نورشپ(ئی ڈی ای اے) کے انٹرنیشنل کوآرڈینیٹراور تہران میں اطالوی سفارت کار میسی می لانوبرٹولو، آسٹریلیا کے ڈپٹی ایمبسڈر ڈاکٹر کرستوفر واتکینزچیک ری پبلک کے سفارت خانے میں سیاسی اور صحافتی امورکے فرسٹ سیکریٹری آدام ورزال،،قدرتی ا ٓفات کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے،ایشین اینڈ پیسیفک ڈیزاسٹر انفارمیشن مینجمنٹ (اے پی ڈی آئی ایم)کی نمائندہ لتزا روسانونیکاراگوۂ کے سفیر ریمون مونکاڈاکولنڈرز اور سربیاکے قونصل دیان پیریشیچ سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ساتھ تعلیمی اشتراک وتعاون کے امکانات پر گفت وشنیدکی۔
پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن میں ’لاہور میں سینما کے 100 سال‘پرخصوصی تقریبات کا آغاز
پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے پوسٹ گریجویٹ ریسرچ سنٹر برائے کری ایٹیو آرٹس کے زیر اہتمام شعبہ گرافک ڈیزائن کے اشتراک سے پہلی بین الاقوامی کانفرنس برائے تخلیقی فنون (آئی سی سی اے) کے لیے پری کانفرنس/ سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔یہ تقریب 1924 میں اپنے آغاز سے لے کر اب تک لالی ووڈ کے سنیما سفر کی ایک صدی کو اعزازبخشنے کیلئے پاکستان میں پہلی تخلیقی آرٹس کانفرنس کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس موقع پر ڈائریکٹر پوسٹ گریجوئیٹ ریسرچ سنٹر برائے کری ایٹیو آرٹس پروفیسر ڈاکٹر احمد بلال، ایورنیو گروپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سجاد گل، آرٹسٹ اور مورخ ڈاکٹر اعجاز انور، ڈاکٹر خالد محمود، ڈاکٹر مسرت حسن، ڈاکٹر نسیم اختر، ڈاکٹر شوکت محمود، ڈاکٹر راحت نوید مسعود، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے شرکت کی۔ اپنے خطاب میں سجاد گل نے اپنے والد آغا گل کی خدمات پر روشنی ڈالی جنہوں نے فردوس سنیما اور ایورنیو اسٹوڈیوز قائم کرکے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو آگے بڑھایا۔زہرین مرتضیٰ، سنبل نتالیہ، ارم سید، نادیہ ظفر، فریحہ راشد، ثنا یوسف، محمد علی، نمرہ اکرم، مدیحہ ذوالفقار، حرا گل، سرمد چیمہ اور عثمان رانا نے تحقیقی مقالے پیش کئے۔ سمپوزیم میں پوسٹ گریجوئیٹ ریسرچ سنٹر برائے کری ایٹیو آرٹس کی فیکلٹی کوزبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، جن کی لگن نے تخلیقی عمدگی کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تقریب میں سنیما کے تبدیلی کے ارتقاء پر ایک بھرپور مکالمہ بھی شامل تھا جس میں خاموش فلمی دور کو عصری ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک پھیلایا گیا۔ مقررین اور محققین کے ایک پینل نے ثقافتی تبادلے، سماجی ارتقاء، اور اقتصادی ترقی میں سینما کے کردار پر فکر انگیز گفتگو پیش کی۔ تقریب کے شرکاء نے تخلیقی صنعتوں کی تشکیل اور ثقافتی ورثے کے تحفظ پر سنیما کے کثیر جہتی اثرات پر زور دیا۔منتظمین نے تمام شرکاء، سینئرنگران اور تعاون کرنے والوں کاشکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان کے تخلیقی فنون کے منظر نامے میں مکالمے اور جدت کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
ی آئینی ترمیم ۔ ایک جائزہ کے عنوان سے 9نومبر بروز بدھ شوریٰ ہمدرد لاہور کا اجلاس مقامی ہو ٹل شالیمار ٹاور میں منعقد کیا گیا اجلاس میں اسپیکر کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے ادا کیے جبکہ معزز اراکین میں جناب قیوم نظامی جناب ،برگیڈیئر حامد سعید اختر ،جناب ڈاکٹر خالد محمود عطا ،جناب رانا امیر احمد خان، جناب کاشف ادیب جاویدانی، جناب پروفیسرنصیر اے چوہدری ،جناب ثمرجمیل خان ،جناب حکیم راحت نسیم سوہدوری اور مبصرین کے طور پر جناب حکیم عمر توصیف ،جناب راشد حجازی ،محترمہ آمنہ پروین صدیقی ،جناب اے ایم شکوری ،جناب نصیر الحق ہاشمی ،جناب جمیل بھٹی ،جناب انوار قمر، انجینیئرمحمدآصف ، رفاقت حسین رفاقت ،ایم آر شاہد سمیت دیگر نے شرکت کی ماہر قانون صدر لیگل کونسل ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان جناب اشتیاق چوہدری بطور مہمان خاص شریک ہوئے انہوں اپنے خطاب میں بتایا کہ26ویں آئینی ترمیم کے ایک مثبت پہلو پر نظر ڈالی جائے تو آئین کے آرٹیکل 9-اے میں صاف و شفاف ماحول کی ضمانت دی گئی ہے جو زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح آئین کے آرٹیکل 38کی کلاز (ایف)میں سود کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائیگا جبکہ 26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ تنقید آئین کے آرٹیکل 175اے کے بارے میں سامنے آئی ہے جس میں جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد9سے بڑھا کر 13کر دی گئی ہے جس کے ذریعے 2قومی اسمبلی کے ممبر ہوں گے جبکہ 2سینٹ کے ممبر ہوں گے جبکہ ایک غیر مسلم رکن یا خاتون وہ بھی اسپیکر کی صوابدید پر کمیشن کا ممبر بنے گا، اس طرح سیاست دانوں اور انتظامیہ کے ممبران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ 20اکتوبر کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کیاگیا جس کے بعد اس بل کو اگلی صبح 21اکتوبر کو قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت منظور کرلیاگیا، بنیادی مقاصد میں سپریم کورٹ کے ازخود(سوموٹو) اختیارات لینا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنا اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینا شامل ہیں۔ اسکے تحت ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور اس کمیٹی میں مختلف تجاویز پر بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ بل میں اپوزیشن کی جانب سے اختلافات پر مبنی ردعمل دیکھنے میں آیا تنازع کی ایک بڑی وجہ ایک مجوزہ وفاقی آئینی عدالت تھی، اس کی بجائے آئینی بینچ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جسے مسودے میں شامل کر لیا گیا ہے۔جے یو آئی(ف) نے پی پی پی کے ساتھ مسودے پر معاہدہ کیا جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں حتمی مسودے پر ’کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ انہوں نے ووٹنگ کے طریقہ کار کا باضابطہ بائیکاٹ کیاابتدائی مسودے میں مبینہ طور پر 56 ترامیم تجویز کی گئی تھیں تاہم تمام جماعتوں کے درمیان بھرپور غور و خوض کے بعد پارلیمنٹ میں آنے والے حتمی مسودے میں ان کی تعداد کم کر کے 22 کر دی گئی۔
٭ ماہرین واراکین شوریٰ کی جانب سے گذشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں درج ذیل تجاویز پیش کی گئیں:
٭ 26 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 175 اے کی کلاز تھری کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کو تجویز کیا گیا ہے جو کہ 12 ارکان پر مشتمل ہوگی جن میں سے آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینٹ سے لیے جائیں گے اس ترمیم کی وجہ سے اب سینیئرترین تین ججوں میں حکومتی پارلیمنٹیرین خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوگا کہ جو زیادہ پارلیمنٹیرین کے قریب ہوگا وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فاٸز ہو اگر اس ترمیم کو بدل دیا جائے کہ سینیئر ترین جج ہی چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوگا تو عدلیہ کی
آزادی کے لیے بہتر ہو جائے گا۔٭ آئین کے آرٹیکل 175 اے کی کلاز فور کے مطابق ججز کی کارکردگی جانچنے کے طریقہ کار کا اختیار بھی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے جو کہ عدلیہ کے معاملات میں براہ راست مداخلت ہے ججز کی کارکردگی جانچنے کا معیار فقط سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس رہنا چاہیے ٭ آرٹیکل 191 اے کے تحت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دے دیا گیا ہے جو کہ درست نہیں آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس اور ساتھی ججز کے پاس ہی رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح حکومت من پسند فیصلوں کے لیے خود آئینی بینچ تشکیل نہیں دے سکے گی٭ آئین کے آرٹیکل 193(2) میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے جس کے تحت پہلے جج بننے کی عمر 45 سال مقرر تھی جبکہ اب 40 سال کر دی گئی ہے دنیا بھر میں مسلمہ اصول یہی ہے کہ تمام آئینی عہدوں پر تقرر کے لیے کم از کم عمر 45 سال ہونی چاہیے۔٭ آئین کے آرٹیکل 199 میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے ہائی کورٹ کا از خود نوٹس کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے اسی طرح آرٹیکل 184 میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور سپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کا اختیار اعلی عدلیہ کے پاس رہنا چاہیے تاہم از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی ملنا چاہیے٭ آئین کے آرٹیکل 175اے کا کلاز 18 کے مطابق جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ حکومت میں بیٹھے سیاستدان ججز کو انفلوئنس کر سکیں گے کیونکہ ججز کی سالانہ رپورٹ کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں پارلیمنٹیرین کا حصہ بڑھ چکا ہے ، وزیر قانون ،اٹارنی جنرل کے علاوہ پانچ مزید ارکان اسمبلی و سینٹ سے ارکان کی تعداد ملا کر 7ہو جاتی ہے جبکہ کل تعداد 13 میں سے 7ارکان ہر فیصلے کو منظور کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ججز کو بااختیار کیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کے دبائو سے بالاتر ہوکر فیصلہ کر سکیں۔٭ آئین کے آرٹیکل 175-اے کی کلاز 8کیمطابق ججز کی تعنیاتی میں بھی ارکان پارلیمنٹ کا بنیادی رول سامنے آیا ہے ، حکومتی ارکان /سیاستدان من پسند ججز نامزد کرسکے گی ۔ججز کی سلیکشن کی شفافیت کیلئے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کو بیلنس کیا جائے تاکہ حکومتی ارکان من پسند ججز کی بھرتی نہ کر سکیں ۔٭ شوریٰ ہمدرد قومی اداروں بشمول پارلیمنٹ وعدلیہ کو تجویز کرتی ہے کہ قوم میں بڑھتی ہوئی تفریق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات
کیے جائیں جس کے لیے ہر شعبہ کے ماہرین پر مشتمل غیر جانبدار اور سمجھدار افراد پر مبنی ایک قومی ادارہ تشکیل دے دیا جائے تاکہ اس
تفریق کو ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
From: