چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے مجرم ہیں جن سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی ہیلی کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس کے زیر اہتمام ساتویں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس آن بینکنگ، انشورنس اینڈ رسک مینجمنٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پرپرنسپل ہیلی کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آ ف بزنس ایڈمنسٹریشن پروفیسرڈاکٹر مقدس رحمان، ڈاکٹر عبدالغفور، ڈاکٹر خرم، فیکلٹی ممبران، محققین، ماہرین تعلیم اور طلباؤ طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ بھارت میں ایسی صنعتیں لگائی گئی ہیں جس سے خارج ہونے والے کیمیکلز سے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کی آب و ہوا بھی متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک کے اقدامات کی بدولت پاکستان میں گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سیلاب سے تباہی آئی ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی اثرات کو کم کرنے کے لئے کھیتوں اور درختوں کو جلانے اور زگ زیگ ٹیکنالوجی سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم سے بھی پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں وہی کاروبار کامیاب ہوگا جو ماحول دوست ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ماڈرن دنیا کی جامعات میں سمندری پانی کو کاشتکاری اور پینے کے لئے موزوں بنانے کے طریقوں پر تیزی سے تحقیقی کام ہو رہا ہے اگر پاکستانی جامعات نے آرٹیفیشل انٹلیجنس، انڈسٹریل روبوٹکس، اینیمیشن اور ڈیٹاسائنسز پر کام نہ کیاتو ملک ترقی نہیں کر پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین اور روس دنیا کو بڑے پیمانے پر گندم اورتیل فراہم کرتے ہیں جبکہ دونوں کے مابین جاری جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو چاہیے اپنے طلباء کو جدید نصاب اور ماحول دوست کاروبار کی تربیت فراہم کریں۔ڈاکٹر مبشر منور خان نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد موجودہ موسمی چیلنجز اور پائیدار کاروباری طریقے بارے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سیلاب نے ملک کو کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معیشت کے استحکام کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگلی نسلوں کو تحفظ دینے کے لیے قدرتی وسائل کا درست استعمال کرنا پڑے گا اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں محققین کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے جس میں 170سے زائد تحقیقی مقالے پیش کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس نہ صرف انفرادی طور پر سود مندرہے گی بلکہ اس سے پالیسی سازوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہو ں نے کہا کہ پاکستان میں کاروبارکو ترقی دینے کے لیے تعلیمی اداروں میں ریسرچ کو فروغ ملنا چاہیے۔ ڈاکٹر مقدس رحمان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پاکستان سمیت کئی ممالک کو نقصان ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماہرین تعلیم مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالغفور نے کہا کہ چیزوں کا علم نہ ہونا بری بات نہیں بلکہ جاننے کی کوشش نہ کرنا بری بات ہے، شرکاء کو اس کانفرنس سے سیکھ کر عملی کوششیں کرنی ہوں گی۔ ڈاکٹر خرم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نہ صرف پاکستان کو معاشی طور پر نقصان ہوا بلکہ سموگ کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش سے بچوں کی تعلیم کا حرج بھی ہواہے۔
Developer
انجینئر محمد بلیغ الرحمن گورنر پنجاب و چانسلر نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں مقابلے کے امتحانات کے مرکز کا افتتاح کیا………فیض احمد فیض اردو زبان و ادب کی قدآور شخصیت ہیں۔ فیض احمد فیض اپنے عہد کا اہم ترین ثقافتی اور ادبی حوالہ ہی نہیں بلکہ محنت کش عوام کے سب سے موثر ترجمان بھی ہیں۔…….. گورنر پنجاب
2022گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان سے آج یہاں گورنر ہائوس لاہور میں ریئرایڈمرل جاوید اقبال کی قیادت میں نیوی وار کالج کے زیر اہتمام 52 ویں پاکستان نیوی سٹاف کورس کے ملکی و غیر ملکی شرکا نے ملاقات کی۔
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان سے آج یہاں گورنر ہائوس لاہور میں ریئرایڈمرل جاوید اقبال کی قیادت میں نیوی وار کالج کے زیر اہتمام 52 ویں پاکستان نیوی سٹاف کورس کے ملکی و غیر ملکی شرکا نے ملاقات کی۔
اس موقع پرشرکا سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے کہا کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے جس نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لئے بے مثا ل قربانیاں دیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے اور اس حوالے سے ا فوج پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔گورنر پنجاب نے کہا کہ ملک کو اس وقت سیاسی اورمعاشی عدم استحکام سمیت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن ممالک نے ترقی کی ہے وہاں کم از کم 15,16 سال پالیسیوں کا تسلسل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے ملک میں پالیسیوں کا تسلسل بہت اہم ہے۔
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے کہا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری سے ملک میں معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہوا لیکن اب حکومت دوبارہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پرعزم ہے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ اس وقت معیشت کی بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی بھی ایک اہم مسلہ ہے جس میں ایک اہم پہلو سیلاب متاثرین کو ٹراما سے باہر نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور چانسلر جامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ مل کر اس حوالے سے ایک موثر حکمت عملی بنا لی ہے۔
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے افسران سے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اس کورس میں آپ کی شرکت ایک باہمی افزودگی کا تجربہ ہو گی اور آپ کو بہتر علم، قابلیت اور صلاحیت سے لیس کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ میں آپ سب کی مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
اس موقع پر وفد کے سربراہ ریئرایڈمرل جاوید اقبال نے گورنر پنجاب کو کورس کے مختلف خدوخال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کورس سے افسران کی قائدانہ صلاحیتوں کو جلا بخشنے ، جنگ کے دوران موثر حکمت عملی اپنانے اور نیشنل سیکورٹی سے متعلق امور پر توجہ دی گئی۔پاکستان نیوری وار کالج میں شرکت کرنے والے افسران کا تعلق پاکستان کے علاوہ دوست ممالک آزربائیجان، بحرین،بنگلادیش،انڈونیشا، عراق، جارڈن، سعودی عرب، ملائیشیا، میانمر، نائجیریا، اومان فسلطین، سائوتھ افریقہ اور سری لنکاسے تھا۔
میڈیا کو آزادی دیئے بغیر آئین کی حکمرانی ممکن نہیں، مسرت جمشید چیمہ
لاہور (28 نومبر،سوموار): ترجمان حکومت پنجاب مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں کنٹرولڈ میڈیا کی وجہ سے آئین کی حکمرانی کا خواب ادھورا ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز کے شعبہ کمیونیکیشن اینڈ میڈیا ریسرچ کے زیر اہتمام مولانا ظفر علی خان چیئر اور پی یو ویب ٹی وی کے اشتراک سے ’سماجی و سیاسی ترقی میں میڈیا کے کردا ر‘پر کھرانہ آڈیٹوریم سکول آف کیمسٹری میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہی تھیں۔ اس موقع پرڈین فیکلٹی آف انفارمیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، ا ڈائریکٹر سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم، تجزیہ کار اوریا مقبول جان، ایگزیکٹیو ایڈیٹر ترکیہ اردو محمد حسان، پروفیسر ڈاکٹر میاں حنان احمد،سینئر فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا کاکردارتعمیری سے زیادہ تنقیدی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پراپیگنڈہ وار کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی بدولت پاکستان کا مثبت کردار دنیا کے سامنے لانے میں مدد ملی ہے۔انہوں نے کاکہا کہ پاکستان میں اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو غلط رہنمائی دی جاتی ہے جو تباہی کا سبب ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیڈرشپ کا کام ڈائریکشن دینا اور عوام کا کام اس پر عمل کرنا ہوتا ہے اسی طرح قومیں بنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے نوجوانوں کو متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ دنیا بھر میں 97فیصد میڈیا پرپانچ کمپنیوں کا راج ہے جو میڈیا کو استعمال کرکے اپنا ایجنڈا نا فذ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سرمائے کی بنیاد پر اپنی ہی قوم کی غلط رہنمائی کرنے والے لوگوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور تعلیمی نظام کے ذریعے طاقتور حلقے اپنا کلچر متعارف کراتے ہیں۔ محمد حسان نے کہا کہ نوجوانوں کوٹیکنالوجی کا استعمال اپنے ہاتھ میں لے کر مغربی ایجنڈے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا میں روس اوریوکرین پر تو بات کی جاسکتی ہے لیکن کشمیر اور برہان وانی کے متعلق بات کرنے پر پابندیاں ہیں۔ خالد محمودنے کہا کہ سوشل میڈیا نے سیاسی، سماجی اور معاشی طرز زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا پر تمام سینسرشپ کے باوجود اپنا پیغام دوسروں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پرجعلی خبروں اور معلومات کو روکنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے طلباء باصلاحیت ہیں جو پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے بھرپورکردار اداکر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مین سٹریم میڈیا کو آج بھی لوگ قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ بعد ازاں معزز مہمانوں سووینئرز پیش کئے گئے۔
Reciprocal admission news……..Applications are invited for Undergraduate Admission on Reciprocal Basis
) University of Engineering and Technology (UET) Lahore is inviting applications from Punjab domicile holder candidates for admission in B. Sc Engineering against the seats reserved in Universities of other Provinces for Punjab Province on Reciprocal Basis for the Entry-2022. The applicants must have appeared in the Combined Entry Test which was held from July 18 to 22, 2022. Candidates must obtain at least 60% marks and 50% weighted aggregate (70% intermediate and 30% entrance test) by 2022 for Intermediate (Pre-Engineering)/Diploma (in relevant discipline) or equivalent annual examination. Last date for submission of application is December 6, 2022.
پاکستان کی مسلح افواج علم کے شعبے میں نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ فوج کے زیرِ انتظام تعلیمی ادارے معیاری اور جدید تعلیم فراہم کر رہے ہیں جس کے تحت 759,426 طلباءکو ہائیر سیکنڈری سطح تک کل آبادی کا 2 فیصد) اور 71,411 طلباء کو اعلیٰ تعلیم کی سطح کل آبادی کا 3.25 فیصد تک تعلیم فراہم کر کے قومی مقاصد کے حصول میں گراں قدر حصہ ڈال رہے ہیں۔
آرمی پبلک سکول و کالج سسٹم ایک منفرد اور جدید خطوط پر استوار ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ملک کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے۔آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج سسٹم قومی تعلیمی دھارے میں اہم خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے یکساں اور معیاری تعلیم فراہم کرنے میں اپنے ہم عصر تعلیمی اداروں سے انتہائی کم قیمت پر سہولیات فراہم کر رہا ہے ( جو مساوی نظام کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہے)۔آرمی پبلک سکول و کالج سسٹم نے ہمیشہ اعلیٰ تعلیمی معیار کو برقرار رکھا اور 2017 سے 2022 تک مسلسل پہلی30 پوزیشنز کے ساتھ پہلی تین پوزیشن بھی حاصل کیں۔ یہ پوزیشنز اعلیٰ معیار کا منہ بولتا ہے۔آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج سسٹم کے تحت دو سو ادارے ملک کے کونے کونے میں تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جس کے تحت 258,316 طلباءکو تعلیم فراہم کی جارہی ہے جس میں چھیالیس فیصد طلباء سویلین ہیں۔ اسی طرح آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج سسٹم ملک کے دور دراز سرحدی علاقوں میں تیئیس سکول چلا رہا ہے جس سے ان علاقوں میں بھی تعلیمی رجحانات کو فروغ ملا ہے اور لوگوں کے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔
آرمی پبلک سکول و کالج سسٹم کے سارے نظام کو فوجی وسائل کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔ اس معیار تعلیم کو برقرار رکھنے میں تقریباً 831 ملین روپے سالانہ اخراجات ہو رہے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج سسٹم اساتذہ اور عملے کو تربیت فراہم کرتا ہے۔ 2005 میں آرمی پبلک سکول اینڈ کالج سسٹم کے آغاز سے اب تک کل 81,655 اساتذہ کو تربیت دی جا چکی ہے۔آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج سسٹم نے تیئیس ہزار سے زیادہ تدریسی اور غیر تدریسی ملازمتیں پیدا کرنے اور لوگوں کو روزگار مہیاکرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس میں سے پچانوے فیصد ملازمین سویلین ہیں۔آرمی پبلک سکول و کالج سسٹم ورچوئل اسکول نے آن لائن سپورٹ پروگرام کے ذریعے اسٹڈی پیکیج ، ویڈیو ٹیوٹوریلز، نصابی کتب کی ڈیجیٹائزیشن کا کامیاب آغاز کیا ، جس کے نتیجے میں تین ملین آن لائن اسائنمنٹس جمع کروائے گئے جن کی بروقت چیکنگ کو یقینی بنایا گیا۔
آرمی پبلک اسکول فار انٹرنیشنل اسٹڈیز بین الاقوامی معیار کے مطابق نصاب متعارف کرا کے دنیا کے ترقی یافتہ تعلیمی نظام کو ملک میں رائج کرنے میں پیش پیش ہے۔
وفاقی تعلیمی شعبے کے لیے فوج کی معاونت پبلک سیکٹر وفاقی تعلیمی نظام پورے ملک بشمول آزاد جموں و کشمیر میں پھیلا ہوا ہے جس کا مقصد انتہائی کم اخراجات میں بامقصد اور معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے۔
فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹشنز کی اہم شراکتوں میں کل تین سو پچپن تعلیمی ادارے شامل ہیں جن میں دو سو پچاسی سکینڈری سطح کے ادارے، چوالیس ہائیر سکینڈری تعلیم کی سطح کے اور چھبیس کالج جو انڈر گریجویٹ سطح تک کے تعلیمی پروگرام کے ذریعے سہولیات فراہم کر رہے ہیں جن میں 201,367 طلباءکو تعلیم دی جارہی ہے جن میں ساٹھ فیصد سویلین ہیں۔فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹشنز کا قومی سطح پر اہم کردار ہے جس میں ژوب، سوئی، چمن، خضدار، لورالائی، باغ، لنڈی کوتل اور پاراچنار جیسے دور دراز علاقوں میں بھی سکولوں و کالجوں کی تعمیر شامل ہیں۔ اس نظام کو فوج کی طرف سے تقریباً ایک سو پچاس ملین روپے کی سالانہ سبسڈی حاصل ہوتی ہے ، کیونکہ مطلوبہ فنڈزکا صرف بیس فیصد حصہ وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے۔
معذور بچوں کے لئے ایک فلاحی اقدام کے طور پر پاک فوج نے پورے پاکستان میں پچیس خصوصی تعلیم کے سکول قائم کیے ہیں، جن میں چار ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ان خصوصی بچوں میں سے اسی فیصد فیصد سویلین بیک گراو¿نڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔اسی طرح خصوصی بچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے کراچی اور اسلام آباد میں پاک بحریہ کی جانب سے تین خصوصی بچوں کے سکول چلائے جارہے ہیں جن میں کل چار سو چھیاسٹھ طلبہ زیر تعلیم ہیں، جن میں سے چھیاسی فیصد سویلینز ہیں۔
نوجوانوں کی ترقی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول یقینی بنانے کے لئے افواج پاکستان کا چھ بڑی یونیورسٹیوں (NUST، NUML ، NUMS ، NUTECH ، بحریہ اور ایئر یونیورسٹی) کے ساتھ حکومت پاکستان کی معاونت کے طور پر نوجوانوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کرنے کے میں اہم کردار ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST)
کے تحت 5 کالجز اور 20 ذیلی ادارے کام کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی عالمی درجہ بندی میں 358 ویں، ایشیا میں 76 ویں اور پاکستان میں پہلی پوزیشن پر ہے۔ نسٹ یونیورسٹی ہر سال 18,144 پاکستانی اور 531 غیر ملکی طلباءکو تعلیم دے رہی ہے جن میں 85 فیصد سویلینز ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) مکمل طور پر خودمختار ادارہ ہے جس میں 9 علاقائی کیمپس ہر سال 22,301 طلباءکو تعلیم فراہم کرتے ہیں جن میں پچانوے فیصد سویلین ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کو اکتوبر 2015 میں فیڈرل پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کو پینتالیس ملٹری ہسپتالوں، 12 مخصوص اداروں ، 10 میڈیکل کالجز اور 4 نرسنگ کالجز کے ایک وسیع نیٹ ورک کی مدد سے چلایا جا رہا ہے جو کہ بلاشبہ اسے میڈیکل سہولیات فراہم کرنے والا ملک کا سب سے بڑا ادارہ بناتا ہے۔ پاکستان میڈیکل کونسل کی درجہ اول کی درجہ بندی کے مطابق (متعلقہ کیٹیگری میں بہترین گریڈنگ) کے ساتھ ، AMC راولپنڈی اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میڈیکل کالج لاہور کو سال2019 میں بہترین ادارہ قرار دیا گیا تھا۔ NUMS ہر سال 5400 طلباءکو تعلیم فراہم کرتا ہے جن میں اسی فیصد سے زیادہ طلباء سویلین ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ٹیکنالوجی کی پہلی یونیورسٹی کے طور پر قیام عمل میں لائی گئی۔ جس کا باقاعدہ افتتاح چیف آف آرمی سٹاف نے 24 اپریل 2019 کو کیا۔ یہ یونیورسٹی ہر سال 1149 طلباءکو تعلیم فراہم کرتی ہے جس میں 46 فیصد سویلین ہیں۔ نسٹ کیمپس کوئٹہ میں اپریل 2018 میں چیف آف آرمی سٹاف کی ہدایات پر قائم کیا گیا تھا جس کا باقاعدہ افتتاح چیف آف آرمی سٹاف نے ستمبر 2019 میں کیا۔
ملک بھر میں تین ملٹری کالجز ایسے ہیں جن کو مکمل طور پر پاکستان آرمی چلا رہی ہے۔ اور 32 کیڈٹ کالجز صوبائی حکومتوں کے تحت چلائے جارہے ہیں جن میں آرمی اپنے ٹریننگ سٹاف کے ذریعے خدمات مہیا کر رہی ہے۔ یہ کیڈٹ کالج دور دراز کے علاقوں میں کل 6,280 طلباءکو تعلیم فراہم کر رہے ہیں جن میں سے 31 فیصد طلباءسویلین ہیں۔شہدا کے وارڈز ، بلوچستان کے دور دراز علاقوں، KPK کے نئے ضم شدہ اضلاع اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سویلین طلبائ کے لیے فوج کے زیرِ انتظام فارمیشنز میں 79 ہاسٹلز قائم کیے گئے ہیں۔ جن میں مجموعی طور پر 3868 طلباءکو رہائش دی جا رہی ہے جن میں پینتیس فیصد سویلین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں ڈی ایچ اے کے تحت 29 اسکول اور کالج چلا ئے جارہے ہیں جو 26,604 طلباءکو سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جن میں پچانوے فیصد طلباء سویلین ہیں۔
رینجرز ، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور ایف سی پاکستان کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں 176 سکول چلا کر تعلیم کے شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان اداروں میں کل 58,298 طلباءکو تعلیم فراہم کی جارہی ہے جن میں زیادہ تر طلباءسویلین ہیں۔
پاکستان کوسٹ گارڈز (PCG) کراچی میں 3 اسکولز) سیکنڈری لیول تک اور 2 کالجز ہائر سیکنڈری لیول پر مشتمل گورنمنٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ چلا رہے ہیں۔ یہ نظام کل 4,313 طلبا کو تعلیم دے رہا ہے جن میں پینسٹھ فیصد سویلین اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کو سالانہ بنیادوں پر تقریباً 4 ملین روپے کی سبسڈی (اسکول فیس میں رعایت) بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت میں فوج کا تعاون
افواج پاکستان نوجوانوں میں تکنیکی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ پاک فوج کے زیر انتظام پاکستان میں قائم کردہ 26 سے زائد پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیتی ادارے 5312 طلباءکو تعلیم دے رہے ہیں، جن میں 10.2 فیصد طالبات اور 46 فیصد طلباءسویلین ہیں۔ ان اداروں میں بلوچستان انسٹیٹیوٹ اف ٹیکنیکل ایجوکیشن اور گوادر انسٹی ٹیوٹ اف ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
فوجی فاو¿نڈیشن ایجوکیشن سسٹم بشمول ایک فاو¿نڈیشن یونیورسٹی اسلام آباد، ایک سو سترہ تعلیمی ادارے بشمول اڑتیس انٹر لیول کالجز، آٹھ فاو¿نڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایک فاو¿نڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف فنشنگ سکلز ڈویلپمنٹ تقریباً 65,00 طلباء وطالبات کو تعلیم/تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ طالب علموں میں پانچ عام شہری اور پچاس فوجی ملازمین کے بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز بالترتیب 1975 اور 1981 سے کام کر رہے ہیں جو اب فاو¿نڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے طور پر ضم ہو گئے ہیں۔ فاو¿نڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے کل 275,000 طلباءکو تربیت دی گئی ہے۔
فوجی فاو¿نڈیشن کی وظیفہ پالیسی کے مطابق، فوجی فاو¿نڈیشن نے 1659 ملین روپے مالیت کے اعلیٰ پراجیکٹس کو بہترین کارکردگی پر0.41 ملین سے زیادہ کے وظائف فراہم کیے ہیں۔ ایف ایف سی نے اپنی سرپرستی میں 35 سے زائد اسکولوں کو سپانسر کیا اور ان اسکولوں میں طلباءکو میرٹ پر وظائف کے ساتھ تعلیم فراہم کی۔
بحریہ کالجز کے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں چودہ کیمپس ہیں، جو کل 33,770 طلباءکو تعلیم فراہم کر رہے ہیں، جن میں سے انچاس فیصد کا تعلق سویلین سے ہے جن میں اڑتیس فیصد طالبات ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہائر سیکنڈری کی سطح تک پانچ بحریہ ماڈل کالجز قائم کئے گئے ہیں۔ پاکستان نیوی کل 2,197 طلباءکو تعلیم دے رہی ہے، جن میں سے نوے کا تعلق سویلین طبقے سے ہے ( جن میں تیس فیصد طالبات ہیں)۔ علاوہ ازیں، 82 ادارے، جو پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، کل 30,500 طلباءکو ہائر سیکنڈری کی سطح تک کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں، جن میں سے پچاسی سویلین ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے اقدامات کو بڑھانے کے لیے جونیئر نیول اکیڈمی اور کیڈٹ کالج اوماڑہ (JNAO) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ ادارہ 21 ملین روپے کی سالانہ سبسڈی کے ساتھ ہائر سیکنڈری تک کل 271 طلباءکو تعلیم دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ دو کیڈٹ کالجوں کو بھی مدد فراہم کی جا رہی ہے جن میں کل 1600 طلباءہائر سیکنڈری کی سطح تک زیر تعلیم ہیں۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے، بحریہ یونیورسٹی 2001 ءمیں قائم کی گئی تھی، جو نوجوانوں کو انجینئرنگ، سماجی، نظم و نسق، ماحولیات اور طبی علوم سمیت مختلف شعبوں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگراموں میں تعلیم فراہم کرتی ہے۔
بحریہ یونیورسٹی کے تین ذیلی کیمپس ہیں۔ یہ ایشیا میں 453 ویں نمبر پر ہے اور کل 17,821 طلباءکو تعلیم دے رہی ہے (86 فیصد سویلین خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں)
بحریہ یونیورسٹی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کراچی میں 2009 میں قائم کیا گیا تھا جس کے تحت اس وقت میڈیکل سائنسز میں 596 طلباءکو تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستان نیوی تعلیمی اداروں میں سالانہ بنیادوں پر 30 ملین روپے کے میرٹ/ضرورت پر مبنی وظائف فراہم کر رہی ہے۔
تعلیمی ترقی میں پاک فضائیہ کا کردار
پاک فضائیہ نے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لئے 126 فضائیہ کالج قائم کیے ہیں۔ جو کل 62,000 طلباءکو ہائر سیکنڈری کی سطح تک تعلیم فراہم کر رہے ہیں، جن میں سے 25 فیصد سویلین ہیں۔ اس کے علاوہ سینتیس ملین روپے کے طلباءکے لیے وظائف اور ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کے لئے 3.7 ملین روپے کے نقد انعامات میں سالانہ توسیع کی جا رہی ہے۔ ایئر یونیورسٹی دو ہزار ایک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ایئر یونیورسٹی انجینئرنگ، کمپیوٹر، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ایرو اسپیس، سوشل، مینجمنٹ اور میڈیکل سائنسز کے وسیع شعبوں میں شراکت کے ساتھ چار جزوی اداروں کے ساتھ اسلام آباد، ملتان اور کامرہ میں تین کیمپس چلا رہی ہے۔ یہ ادارہ تقریباً 6000 طلباءکو انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ لیول تک تعلیم فراہم کر رہا ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف کی ہدایت 2017 کے مطابق، پراجیکٹ پاکستانیت کا آغاز APSACs ، FGEI اور ملٹری ٹریننگ انسٹیٹیوٹشنز کے نوجوانوں/طلبہ میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس موضوع پر بارہ کتابیں پبلش کی گئیں اور متعلقہ اداروں کو جاری کی گئیں۔حکومت کے فیصلے کے مطابق نصاب اور کتابوں کے مواد کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ پاکستانیت جیسے اہم موضوع کو قومی نصاب میں شامل کیا جا سکے۔
یوتھ آو¿ٹ ریچ پروگرام
اسی طرح قومی اہمیت کے معاملات پر سینئر آفیسرز کے ذریعے نوجوانوں تک رسائی اور بات چیت کے لئے یوتھ آو¿ٹ ریچ پروگرام کے تحت 1400 سے زیادہ دفعہ مکالمے کا انعقاد کیا گیا۔
××××××××××××××
پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیوں نے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان اور فنڈز اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر بڑھ چڑھ کر کام کیا ۔……گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان ۔……
…گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان سے آج یہاں گورنر ہائوس لاہور میں فلاحی تنظیم اخوت فانڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب، کامران شمس،سلیم رانجھا، بہاولپور اکنامک ڈویلپمنٹ فورم کے رانا طارق، ڈاکٹر رضوان اور میاں شاہد اقبال نے ملاقات کی ۔ ملاقات میں سیلاب زدگان کی بحالی، مکانات کی تعمیر اور بالخصوص سیلاب متاثرین کو سیلاب کے ٹراما سے باہر نکالنے کے لیے کام کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے کہا کہ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیوں نے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان اور فنڈز اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر بڑھ چڑھ کر کام کیا ۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کے سماجی، معاشی اور نفسیاتی اثرات سے باہر آنے میں کافی وقت لگے گا۔گورنر پنجاب نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو ٹراما سے نکالنے میں مدد کے لیے میکنیزم بنایا جائے گا۔انہوں نے جامعات کے طلبہ پر زور دیا کہ سیلاب زدگان کو نفسیاتی اثرات سے باہر نکالنے میں کردار ادا کریں ۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی تک سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے فلاحی تنظیم کے سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر نو اور دوسرے بحالی کے کاموں کو سراہا۔گورنر پنجاب نے بہاولپور اکنامک ڈویلپمنٹ فورم (بی ای ڈی ایف)کی ٹیم کے ہمراہ فورم کی طرف سے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کا چیک بھی اخوت فانڈیشن کو دیا۔انہوں نے کہا کہ اس کار خیر کا مقصد بہاولپور ڈویژن کے بچوں کو تعلیمی وضائف دینا ہے۔