
تحریر پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر
جدید دور میں بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ جہاں بہت سی چیزوں میں تبدیلی آرہی ہے. وہاں تعلیم میں بھی جدت پیدا ہو رہی ہے. نصاب کے ساتھ ساتھ پڑھانے کے طریقوں میں بھی نئے انداز اور رحجانات فروغ پا رہے ہیں۔ طلبہ کےتعلیمی مفاد کا تقاضاہے کہ ملک میں جدید رحجانات کے مطابق تعلیم دی جائے تاکہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے۔ تعلیم نہ صرف ممالک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ یہ انسانوں کی معاشرتی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ تعلیم نہ صرف انسان کی زندگی کو بہتر بناتی ہے بلکہ لوگوں میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہے۔ ایک معاشرے کی تعمیر کے لیے اساتذہ کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے ،پاکستان میں ہر بڑے شہر میں تربیتی ادارے موجود ہیں جو سال میں مختلف اوقات میں اساتذہ کی ٹریننگ کراتے ہیں۔ اس سے درجہ زیل فوائد ہوتے حاصل ہوتے ہیں۔
جدید سلیبس سے آگاہی:
ٹیچر ٹریننگ کے ذریعے اساتذہ کو بہتر طریقے سے جدید سلیبس سے متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر چھوٹے گریڈ کے لوگ کام کرتے ہیں زیادہ تر اساتذہ ایف اے ،بی اے ہیں ۔یہ اساتذہ پی ٹی سی اور سی ٹی اور بی ایڈ ہیں۔ کچھ اساتذہ نئے بھرتی ہو کر آئے ہیں۔ جدید سلیبس کی آگاہی کے لیے تربیت بڑی مفید ثابت ہوتی ہے۔ تربیت کے دوران انہیں نئی چیزوں سے آگاہ کیا جاتا ہے، ان کو پڑھانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ میٹرک تک کلاسز کو بہتر طریقے سے تربیت دے سکیں۔

خیالات کے تبادلے کے مواقع:
تربیتی اداروں میں ایک دوسرے سے خیالات شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے اساتذہ ایک دوسرے کے خیالات و تجربات سےاستفادہ حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
تدریس کے بہتر طریقوں سے واقفیت:
ٹیچر ٹریننگ کے دوران تدریس کے نئے اور بہتر طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ اج کل تدریس کے طریقوں میں بڑی جدت آگئی ہے۔ ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جس سے طلبہ اور اساتذہ کا رابطہ زیادہ ہو تا ہے۔بدلتے ہوئے سلیبس کے مطابق اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے ۔جس سے جدید طریقوں سےتعارف ہوتا ہے اساتذہ بہتر طریقوں سے متعارف ہوتے ہیں۔ ایسے طریقوں کا علم دیا جا سکتا ہے جس سے بچوں کا رجحان اور دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔
۔ عصر حاضر کے جدید طریقوں سے واقفیت:
بدلتے ہوئے سلیبس کے مطابق اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ جس سے جدید طریقوں سے واقفیت ہوتی ہے۔ بہت سے اساتذہ بھرتی ہونے کے بعد کئی سال تک تربیت حاصل نہیں کرتے، وہ بولنے سے ڈرتے ہیں ،تختہ سیاہ پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ تربیت سے انہیں سامنے آنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی جھجک دور ہو جاتی ہے۔ ٹریننگ کے آخر میں کچھ عملی سرگرمیاں بھی سکھائی جاتی ہیں جس سے اساتذہ کی تخلیق کی صلاحیتیں ابھر کر آتی ہیں۔ ان کو سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے جس سے وہ طلبہ کو بہترین طریقے سے تعلیم دے سکتے ہیں۔
خامیوں سے آگاہی :
ٹیچر ٹریننگ کے دوران اساتذہ کو اپنی تدریسی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان کو اپنی تدریس بہتر بنانے کے مواقع ملتے ہیں۔

لیڈرشپ سپرٹ:
ٹریننگ سے لیڈر شپ کی روح پیدا ہوتی ہے۔ جو نوجوانوں کے کیریئر کے لیے بڑی اہم ہوتی ہے۔ بچہ آٹھویں جماعت تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر اسے اردو کے چند جملے درست لکھنا نہیں آتے، املا درست نہیں اور تلفظ درست نہیں ہوتا ۔اج کل کالجز اور یونیورسٹیوں سے ڈگری لے کر نکلنے والوں کا معیار کیا ہے ۔زبان و بیان اور اخلاق کا اندازہ ہی نہیں۔ اس کے ساتھ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے ۔ تعلیم کے ساتھ تربیت سےایک طالب علم اچھا انسان بن جاتا ہے اور وہ ایک لائق شخص بن جاتا ہے۔ یہ باتیں امتحانی نتائج پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اب ہم معیار تعلیم کے انحطاط کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔
نظریہ حیات و تعلیم:
یہ انسان کے نظریہ حیات پر ہے۔ اگر نظریہ صالح اور تعمیری ہوگا ،تو تعلیم کا مقصد بھی وہی ہوگا۔ آج نظریہ تعلیم کا مقصد مادی خوشحالی ہے ۔ہر ناجائز طریقے سے دولت کمانا ہے۔ جب تعلیم کا مقصد ہی غلط ہوگا تو نتائج بھی اچھے نہیں ائیں گے۔
والدین کی لاپرواہی:
والدین کی بچوں کی تعلیم میں عدم دلچسپی بھی ہے۔ بچوں کو ایک دفعہ داخل کرانے کے بعد دوبارہ کبھی ان کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔
طلبہ میں علم کی لگن:
ایک سبب طلبہ میں علم کے حصول میں لگن کا نہ ہونا ہے ۔وہ محنت اور سعی سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ غور و فکر کی کوشش نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔ امتحانات میں تیار شدہ نوٹس پر اکتفا کرتے ہیں۔ کتابوں کو کھول کر نہیں دیکھتے، اگر ان میںمطالعہ کا جذبہ پیدا ہو تو معیار تعلیم بہتر ہو سکتا ہے۔
استاد کا کردار:
جہاں والدین غیر ذمہ دار ہیں ۔وہاں اساتذہ کا کردار بھی ذمہ درانہ نہیں ہے۔ حالانکہ وہ تعلیم کے ذمہ داروں میں سے ہیں۔ استاد کی قابلیت تعلیمی معیار کے بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر آج ہمارے اساتذہ کی اہلیت بہت پست ہے۔ انہیں مطالعہ کا شوق نہیں۔ وہ کلاس پڑھانے کے لیے تیاری کر کے نہیں آتے ۔سبق کو آساناور دلچسپ نہیں بناتے ۔اساتذہ کا تقرر کرتے وقت ان کی اہلیت کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آج استاد کو درس و تدریس سے کوئی لگاؤ نہیں ۔معلم کا منصب ایک بلند منصب ہے۔ ان کے ہاتھوں نسلوں کی تعمیر ہوتی ہے اسلئے انھیں ذمہ داری کا احساس ہو نا چاہیے ۔
غیر دلچسپ تدریس:
مروجہ طریقہ تعلیم میں وہ صرف لیکچر ہی دیتے ہیں۔ اس طریقہ تدریس میں بعض کمزوریاں بھی ہیں ۔انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کو تمام سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔ تدریس میں دلچسپی پیدا کریں ۔بچوں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ ان کو سبق میں شامل کریں تاکہ تعلیم میں تنوع پیدا ہو
۔ غیر تعلیمی ماحول:
مدرسہ کی خستہ عمارت، بنیادی سہولتوں کی کمی، تنگ و تاریک کمرےکلاس رومز ہوتے ہیں۔ بچے کی ہمہ گیر شخصیت کے لیے سکولوں کا ماحول بہترین اور صاف ستھرا ہونا چاہیے۔
معاشی حالت اورغربت: والدین کی معاشی حالت اور غربت بھی گرے ہوئے معیار کا سبب ہے۔ ٹرانسپورٹ کی کمی، غریب طلبہ کو مرا عات اور وظائف میں کمی، دور کا فاصلہ، ان سب چیزوں پر قابوپانا ہوگا۔
تحریر