امریکہ میں مقیم محققین نے نوبیل انعامات میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے، لیکن ان میں سے ایک تہائی سے زائد بیرون ملک پیدا ہوئے تھے، جنہیں امریکہ کے عالمی معیار کے تحقیقی نظام نے اپنی جانب متوجہ کیا۔ تاہم، کئی نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس نظام پر حملے، مستقبل میں امریکہ کے لیے انعامات کا بہاؤ روک سکتے ہیں۔
امریکی سائنسی فنڈنگ کا بحران اور خاموشیح
الیہ مہینوں میں، امریکی سائنسی فنڈنگ کے شدید بحران کے دوران بیشتر نوبیل انعام یافتگان خاموش رہے۔ جولائی کے آغاز میں منعقدہ لنڈاؤ نوبیل لاوریٹ میٹنگ میں بھی، جو ٹرمپ کے دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا اجتماع تھا، بیشتر سائنسدان سیاسی معاملات پر بات کرنے سے کتراتے رہے۔ایک امریکی سائنسدان نے کہا:
“معذرت چاہتا ہوں… میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔”ایک یورپی سائنسدان نے بتایا کہ ان کے ساتھی کو تنقیدی سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد امریکہ سے ملک بدر کر دیا گیا، اور وہ خود کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے۔
ٹرمپ حکومت کے اقدامات: سائنسدانوں کے لیے خطرناک ماحول
ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے طلباء اور محققین کو حراست میں لیا اور ملک بدر کیا جنہوں نے حکومت پر تنقید کی، بالخصوص فلسطینی مظاہروں کی حمایت کرنے والے طلبہ۔ ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی جیسے اداروں کی فنڈنگ بھی بند کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہرت بھی تحفظ کی ضمانت نہیں۔
امریکہ میں موجود کئی نوجوان کیمیا دانوں نے یورپ کے سفر کی دعوت اس خوف سے رد کر دی کہ واپسی پر انہیں امیگریشن کی سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ایک امریکی مندوب نے کہا:
“میں امریکہ کے رویے سے شرمندہ بھی ہوں اور ناراض بھی۔”
کیا نوبیل انعامات کی تعداد متاثر ہوگی؟
اس سوال پر کئی نوبیل انعام یافتہ سائنسدان بات کرنے پر آمادہ نظر آئے۔ ٹرمپ کے اقدامات سے سائنسدانوں کے مطابق، امریکہ مستقبل میں کم نوبیل انعامات جیتے گا۔
نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF) کا بجٹ 57 فیصد اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کا بجٹ 40 فیصد کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ کئی تحقیقی منصوبے منسوخ کر دیے گئے ہیں، خاص طور پر وہ جو ماحولیات یا دیگر حساس موضوعات سے متعلق ہیں۔
“ہم ان ذہین لوگوں کو بھگا رہے ہیں” – فرانسس آرنلڈ
2018 کی نوبیل انعام یافتہ فرانسس آرنلڈ نے کہا:
“بہت سے نوبیل انعام یافتہ امریکہ آنے والے غیر ملکی سائنسدان ہوتے ہیں۔ لیکن اب ہم ان لوگوں کو خود سے دور کر رہے ہیں۔ خاص طور پر چینی طلبہ نے امریکہ میں اپلائی کرنا کم کر دیا ہے۔”نیشنل فاؤنڈیشن فار امریکن پالیسی کے مطابق، 1901 سے 2023 تک امریکہ میں رہنے والے نوبیل انعام یافتگان میں سے 36 فیصد امیگرنٹس تھے، اور 2000 کے بعد یہ شرح 40 فیصد رہی ہے۔فرانسس آرنلڈ نے خبردار کیا کہ:
“جو کمپنیاں یہ لوگ قائم کرتے، جو ادویات یا ٹیکنالوجی وہ ایجاد کرتے، وہ سب اب نہیں ہوں گی۔ نقصان فوراً محسوس نہیں ہوگا، لیکن دیرپا ضرور ہوگا۔”
“ابھی امریکہ نہ جائیں” – جوہان ڈیئزن ہوفرجرمن کیمیا دان جوہان ڈیئزن ہوفر نے کہا:
“اگر امریکہ نوجوان سائنسدانوں کے لیے پرکشش نہیں رہا تو نوبیل انعامات کی تعداد بھی کم ہو جائے گی۔”
“اب امریکہ آنے کا سوچنا بھی مشکل ہے” – ڈیوڈ میک ملناسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ میک ملن نے کہا:
“جب میں نوجوان تھا، تو امریکہ ایک خواب تھا۔ اب جو خبریں دنیا دیکھ رہی ہے، انہیں دیکھ کر کوئی کیسے امریکہ آنا چاہے گا؟”انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ آج PhD کے لیے درخواست دینا چاہتے، تو شاید وہ 19 یونیورسٹیوں کو خط نہ لکھتے جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا۔
“یہ زوال کی ابتدا ہے” – دیگر نوبیل انعام یافتگان کے تبصرے
کیمبرج یونیورسٹی کے جان واکر نے کہا کہ:“اگرچہ مالی حالات بھی اہم ہوتے ہیں، مگر امریکہ کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔”
ایک گمنام نوبیل انعام یافتہ نے کہا:“ایک عالمی معیار کی لیب بنانے میں 20 سال لگتے ہیں، اور اسے برباد کرنے میں صرف 2 سال۔ امریکہ سائنسی ترقی میں ماہر تھا، لیکن اب فنڈنگ ہٹا کر، وہ اسپیس ایکس جیسے تجربوں پر پیسہ لگا رہا ہے۔ اس رفتار سے، اگلے 20 سال میں امریکہ ایک ترقی پذیر ملک کی سطح پر آ سکتا ہے۔”
ایک اور سائنسدان نے کہا:“اگر ٹرمپ کا معاشی وعدہ جھوٹا نکلا، تو امریکہ میں خانہ جنگی جیسے حالات بن سکتے ہیں۔”
“ہم سنہری دور میں نہیں رہیں گے” – مارٹن چالفی2008 کے نوبیل انعام یافتہ مارٹن چالفی نے خبردار کیا:
“اگر NIH کی فنڈنگ کم کی گئی تو تحقیق رک جائے گی۔ NSF کے کئی گرانٹس پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ یہ تحقیق کو سیاسی قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔”
“چین اور دنیا پہلے ہی امریکہ کو پیچھے چھوڑ رہی ہے”دیگر سائنسدانوں نے کہا کہ چین جیسے ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، اور ٹرمپ کی پالیسی نہ بھی ہوتی، تب بھی امریکہ کی برتری خطرے میں تھی۔
بشکریہ تائم ایجوکیشن