Home مضامین چین: بین الاقوامی تعلیم کا نیا مرکز؟………..کیا مغرب کے متبادل کے طور پر چین ترقی پذیر دنیا کے طلباء کے لیے بہتر انتخاب بنتا جا رہا ہے؟

چین: بین الاقوامی تعلیم کا نیا مرکز؟………..کیا مغرب کے متبادل کے طور پر چین ترقی پذیر دنیا کے طلباء کے لیے بہتر انتخاب بنتا جا رہا ہے؟

by Ilmiat

از: شیرل یو |

تقریباً ایک دہائی قبل، میری پی ایچ ڈی تحقیق کا محور چین کے بین الاقوامی تعلیمی نظام میں موجود عدم مساوات تھیں، خاص طور پر ان طلباء کے لیے بیرونِ ملک تعلیم اور ٹرانس نیشنل ایجوکیشن (TNE) کے مواقع، جو صرف خوشحال خاندانوں کے لیے دستیاب تھے۔ ان مواقع میں مالی حیثیت کو علمی قابلیت پر فوقیت حاصل تھی۔

میں نے استعمار مخالف نظریات کی مدد سے یہ واضح کیا کہ بین الاقوامی تعلیم کس طرح عالمی طاقت کے توازن کو قائم رکھتی ہے اور چین کے اندر بھی طبقاتی تفریق کو جنم دیتی ہے۔ مگر بعد میں، جب میں نے برطانیہ کی جامعات کے بین الاقوامی دفاتر میں شمولیت اختیار کی اور طلباء کی بھرتی، شراکت داری اور TNE کے شعبوں میں کام کیا، تو میں انہی نظاموں میں تجارتی مقاصد حاصل کرنے میں مصروف تھی جن پر میں نے تنقید کی تھی۔

آج، جب میں نجی شعبے میں چین کی بین الاقوامی تعلیمی منڈی پر مشاورت فراہم کر رہی ہوں، تو میرا غور و فکر محض “کیا”، “کب” اور “کیسے” کے بجائے “کیوں بین الاقوامیت اختیار کی جائے” جیسے اہم سوال پر مرکوز ہے۔

اگرچہ اکثر بین الاقوامیت کے مقاصد میں بین الثقافتی فہم، عالمی شہریت، اور تعلیمی تعاون شامل ہوتے ہیں، مگر اصل محرکات اقتصادی مفادات، قومی حکمتِ عملیاں اور جغرافیائی سیاسی کشمکش پر مبنی ہوتے ہیں۔

چین کی حکمتِ عملی:
چین عرصے سے برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے لیے بین الاقوامی طلباء کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ لیکن اب چین خود بھی بین الاقوامی طلباء کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سرگرم ہو چکا ہے۔

مغربی ممالک میں جہاں تعلیم کا شعبہ منڈی سے منسلک ہوتا ہے، وہاں چین تعلیمی پالیسی کو اسٹریٹجک، سفارتی اور سافٹ پاور کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ چین بین الاقوامی طلباء کے لیے وظائف، کم فیس، اور بہتر تعلیمی انفراسٹرکچر کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے طلباء کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

عالمی جنوب (Global South) کے لیے چین کی کشش:
“بیلٹ اینڈ روڈ” جیسے منصوبے، چین کی معیشت میں مسلسل ترقی اور یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی شراکت داری کے بڑھتے مواقع چین کو جنوبی ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے طلباء کے لیے مزید پرکشش بناتے جا رہے ہیں۔

اندرونی رجحانات:
چین میں کئی طلباء جنہیں زونگ کاو (چینی ہائی اسکول امتحان) میں کامیابی نہیں ملتی، وہ بیرونِ ملک تعلیم کو متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مگر زبان، امتحانی نتائج یا مالی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اکثر مشروط آفرز پر پورا نہیں اترتے۔

اب زیادہ تر طلباء ملک کے اندر ہی 2+2 پروگرامز، فاؤنڈیشن کورسز یا مقامی یونیورسٹیوں میں ٹرانس نیشنل پروگرامز کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہانگ کانگ، مکاؤ اور قریبی ایشیائی ممالک بھی ان کے لیے بہتر متبادل بنتے جا رہے ہیں۔

چیلنجز:
اگرچہ چین ایک ابھرتی ہوئی تعلیمی منزل کے طور پر ترقی کر رہا ہے، لیکن اسے کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے:

  • مغربی میڈیا میں چین کی منفی شبیہہ
  • علمی آزادی سے متعلق خدشات
  • چینی زبان کا غلبہ (اگرچہ انگریزی پروگرامز بڑھ رہے ہیں)
  • تعلیمی معیار، عالمی رینکنگز اور طلباء معاونت کے بارے میں تحفظات

اہم سوالات:
کیا بین الاقوامیت کا مطلب صرف انگریزی ذریعہ تعلیم کو فروغ دینا ہے؟ کیا یہ لسانی یکسانیت اور ثقافتی مٹانے کی ایک صورت ہے؟

اگرچہ مغربی ممالک میں بین الاقوامی تعلیم اکثر تجارتی مفادات کے تابع ہوتی ہے، چین کی پالیسی کہیں زیادہ اسٹریٹجک، جامع اور ترقی پذیر دنیا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں دنیا بھر کی جامعات کو سوچنا ہوگا کہ آیا ان کا بین الاقوامی نظام واقعی جامع، باہمی اور متوازن ہے — یا صرف مخصوص زبان، علم اور حرکات کو فوقیت دے رہا ہے؟بین الاقوامیت کا مقصد صرف طلباء کو سرحدوں کے پار منتقل کرنا نہیں، بلکہ اقوام کے مابین فہم، ربط اور تعاون کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔

(بشکریہ ٹائم ہائر ایجوکیشن)

You may also like

Leave a Comment