مصنفین: سانتیاگو زبالا اور کلاڈیو گالو
جب ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنی دوسری مدتِ صدارت پوری قوت سے چلا رہے ہیں، تو یورپ ایک ایسے سوال کا سامنا کر رہا ہے جسے وہ طویل عرصے سے نظر انداز کرتا آیا ہے: کیا یورپی یونین کو اب بھی امریکہ کے ساتھ اپنے اتحاد پر قائم رہنا چاہیے، یا وقت آ گیا ہے کہ وہ ایک نیا راستہ اپنائے — شاید وہ جو مشرق کی طرف جاتا ہو؟
اپریل میں، چینی صدر شی جن پنگ نے ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچز پر زور دیا کہ وہ یورپی یونین کو واشنگٹن کی “یکطرفہ جبر کی پالیسیوں” کے خلاف “مل کر مزاحمت” پر آمادہ کریں۔ یہ جبر صرف تجارتی میدان تک محدود نہیں بلکہ سیاست، ثقافت اور عالمی حکمتِ عملی تک پھیلا ہوا ہے۔ یورپ کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ محض ایک طاقتور اتحادی ہے، یا اب بھی ایک درست انتخاب ہے؟
چین سے قریبی تعلقات کے ممکنہ فوائد
جولائی میں منعقد ہونے والے یورپ-چین سربراہی اجلاس میں یہ خیال زیر بحث آنے کا امکان ہے کہ چین سے قریبی تعلقات یورپ کے لیے بہتر مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یورپی رویہ چین کے حوالے سے اب بھی محتاط ہے — جیسا کہ کم قیمت چینی مصنوعات پر حالیہ محصولات سے ظاہر ہوتا ہے — لیکن یورپ کی اسٹریٹجک حکمت عملی اب بھی امریکہ کی طرف مائل ہے، خاص طور پر مالیات اور دفاع میں۔ مگر یہ اب یورپ کے طویل مدتی مفادات سے ہم آہنگ نہیںا
ٹرمپ کا امریکہ: ایک بگڑتا ہوا اتحادی
امریکہ نے ہمیشہ دنیا میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں یہ قیادت ایک خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے۔ جمہوریت کے بنیادی اصول زوال کا شکار ہیں۔ انسانی حقوق، علمی آزادی اور سماجی انصاف مسلسل حملوں کی زد میں ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملوں — جنہیں کئی حلقے نسل کشی قرار دے چکے — کی غیر مشروط حمایت، ایران کے خلاف نئی جنگ کو اجازت، اور جامعات کی فنڈنگ کا خاتمہ، یہ سب امریکہ کے اس کردار کی نشانیاں ہیں جو اس کے سابقہ دعوؤں سے متصادم ہے۔
چین کے چیلنجز اور مغرب کا دوہرا معیار
یقیناً چین کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے: اظہارِ رائے کی آزادی کی کمی، اختلافِ رائے پر قدغن اور میڈیا پر سخت کنٹرول۔ لیکن کیا مغرب واقعی اب بھی مختلف ہے؟ انفارمیشن کے شعبے پر چند ٹیک ارب پتیوں کی اجارہ داری ہے۔ پلیٹ فارمز جیسے X (سابقہ ٹوئٹر) اور فیس بک پر سازشی نظریات کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدہ عوامی مباحثے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور حق گوئی کرنے والوں جیسے جولیان اسانج، چیلسیا میننگ، اور ایڈورڈ اسنوڈن سے سلوک ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں سچ اب جمہوریت کی بنیاد نہیں، بلکہ خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
جمہوریت یا اولیگارشی؟
یورپ کو اس اقتصادی و سیاسی ماڈل پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے جو وہ امریکہ کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ جمہوریت جو کبھی فخر کا باعث تھی، اب چند افراد کی حکمرانی کا پردہ بن چکی ہے۔ ٹرمپ اس تبدیلی کی علامت ہیں، جہاں جمہوری اصول دولت کے انبار کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ مغرب میں دولت کا ارتکاز بڑھ رہا ہے، جب کہ سیاست عام آدمی کی ضرورتوں سے کٹتی جا رہی ہے۔
چین بمقابلہ امریکہ: عالمی خارجہ پالیسی
خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی واشنگٹن اور بیجنگ کا فرق قابل غور ہے۔ چین کا صرف ایک بیرونی فوجی اڈہ ہے (جبوتی میں)، جب کہ امریکہ کے 750 سے زائد فوجی اڈے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں غزہ کو “مشرقِ وسطیٰ کی ریویرا” بنانے کا خواب دکھایا — یعنی وہاں کے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے جگہ خالی کرنا۔ چین نے اس جبری بے دخلی کی مخالفت کی اور فلسطینیوں کے حقِ مزاحمت کی حمایت کی۔
تعلیم کے میدان میں چین کی پیش رفت
تعلیم کے میدان میں بھی چین ایک پرکشش متبادل بن رہا ہے۔ 3,000 سے زائد جامعات، 4 کروڑ طلبہ، اور سالانہ صرف $1,500 سے $3,000 کی فیس، اسے امریکہ کے مہنگے نظام تعلیم (جہاں فیس $40,000 تک پہنچتی ہے) پر واضح برتری دیتی ہے۔ تسنگھوا یونیورسٹی جیسی ادارے تحقیق میں عالمی مقام حاصل کر رہے ہیں، اگرچہ یہ ادارے سخت سنسرشپ کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، یہ امریکی جامعات کے مقابلے میں ایک سنجیدہ متبادل بن چکے ہیں، خاص طور پر جب امریکی کیمپسز پر سیاسی مداخلت، ویزا پابندیاں اور طلبہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
یورپ کی محدود خودمختاری
تو پھر یورپی یونین اس اتحاد سے کیوں چمٹی ہوئی ہے جو اس کے مفادات اور اقدار کے خلاف جا رہا ہے؟ سادہ سی بات یہ ہے کہ یورپ ابھی تک مکمل سیاسی خودمختاری حاصل نہیں کر سکا۔ اس کے پاس یکساں معیشت، فوج، ٹیکس نظام اور لیبر مارکیٹ نہیں۔ براعظم اب بھی لسانی، ثقافتی اور سیاسی طور پر منقسم ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے 2017 میں سوربون یونیورسٹی میں “یورپی خودمختاری” کی بات کی تھی، لیکن یہی وہ چیز ہے جو اب بھی غیرحاضر ہے۔
جب تک یہ خودمختاری حقیقت نہیں بنتی، اتحادوں کی تبدیلی کی کوئی بھی بات محض نظریاتی سطح پر ہی رہے گی۔ چین نئی شراکت داری کے لیے تیار ہے، لیکن یورپ داخلی تقسیم اور پرانی وفاداریوں میں پھنسا ہوا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کا امریکہ ہر وہ کام کر رہا ہے جو یورپ کو بالآخر ایک واضح فیصلہ کرنے پر مجبور کر دے۔
بشکریہ الجزیرہ

سانتیاگو زبالا

کلاڈیو گالو