Home مضامین [: ماحولیاتی مسائل اور تعلیمی نصاب میں ان کی شمولیت: ہماری نسلوں کا محفوظ مستقبل

[: ماحولیاتی مسائل اور تعلیمی نصاب میں ان کی شمولیت: ہماری نسلوں کا محفوظ مستقبل

by Ilmiat

تحریر۔۔۔۔نبیلہ حنیف


ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ ترقی، صنعت کاری اور سائنسی ایجادات کا زمانہ ہے، لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ کئی سنگین ماحولیاتی مسائل نے بھی جنم لیا ہے، جو نہ صرف ہماری موجودہ زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک خطرناک صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم بچوں کو ابتدائی سطح سے ہی ماحولیات کے مسائل، قدرتی وسائل کی حفاظت، پانی کے ضیاع، فضائی آلودگی، اسموگ، اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے جیسے اہم موضوعات سے آگاہ کریں۔

یہ ضروری ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق موضوعات کو شامل کیا جائے تاکہ بچوں کو شعور دیا جا سکے کہ ان کا ماحول کے ساتھ کیسا رشتہ ہے اور وہ اس میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک صاف، سرسبز اور صحت مند ماحول میں پرورش پائیں تو ہمیں انہیں بچپن سے ہی ان موضوعات سے روشناس کروانا ہوگا۔

پانی کا ضیاع اور اس کا حل

پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس کی قدر نہیں کر رہے۔ گھروں، اسکولوں، دفاتر، فیکٹریوں، اور دیگر مقامات پر پانی کا بے دریغ استعمال معمول بن چکا ہے۔ ہمیں بچوں کو یہ سکھانے کی اشد ضرورت ہے کہ پانی ضائع نہ کریں، نلکوں کو بند رکھیں، برتن دھوتے وقت یا دانت برش کرتے وقت غیر ضروری پانی کے بہاؤ کو روکیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ضلعی سطح پر ایک نظام وضع کیا جائے جس کے تحت ہر اسکول کے پانی کے ذخیرہ ٹینک چیک کیے جائیں کہ وہ صاف ہیں یا نہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے بچے بیمار ہو سکتے ہیں، جس کا براہِ راست اثر ان کی تعلیم اور نشوونما پر پڑتا ہے۔

بارش کی کمی اور زمین کی زرخیزی

گذشتہ سال کی نسبت اس سال بارشوں میں چالیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے نتیجے میں زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ صرف ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ماحولیاتی بحران ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں انسانی سرگرمیاں، جنگلات کی کٹائی، اور فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج شامل ہیں۔

زمین کی زرخیزی کا ختم ہونا نہ صرف فصلوں کی پیداوار کو متاثر کرتا ہے بلکہ معیشت، غذائی قلت اور عوام کی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو یہ سمجھایا جائے کہ اگر ہم نے قدرتی توازن کو برقرار نہ رکھا تو ہماری آنے والی نسلیں بھوک، پیاس اور بیماریوں کا شکار ہوں گی۔

قدرتی گیس کی قلت

قدرتی گیس، جو کہ ایک اہم توانائی کا ذریعہ ہے، اس کی بھی کمی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم نے اس کے استعمال میں احتیاط نہ برتی اور اس کے متبادل ذرائع تلاش نہ کیے تو آنے والے دنوں میں شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی سطح پر ہی یہ شعور دینا ہوگا کہ قدرتی وسائل محدود ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

صنعت کاری اور فضائی آلودگی

دن بہ دن بڑھتی ہوئی صنعت کاری نے جہاں ترقی کی راہیں ہموار کی ہیں، وہیں اس نے ماحول کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں کی آلودگی، کوئلے اور ایندھن کے جلنے سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) فضا میں شامل ہو کر زمین کے درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہے۔ یہ “گلوبل وارمنگ” کا باعث بنتی ہے، جس کے اثرات پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔

سطحِ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سمندری سطح بلند ہو رہی ہے، اور موسموں میں غیر معمولی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ہم نے آج ماحولیاتی تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔

اسموگ: پنجاب کا سنجیدہ مسئلہ

پنجاب، خصوصاً لاہور میں ہر سال سردیوں کے موسم میں اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اسموگ بچوں، بزرگوں اور سانس کے مریضوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ یہ اتنی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے کہ حکومت کو اسکولوں میں تعطیلات دینا پڑتی ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔

اسموگ کی بنیادی وجوہات میں فصلوں کو جلانا، گاڑیوں کی دھواں چھوڑتی مشینیں، اور فیکٹریوں سے نکلنے والی زہریلی گیسیں شامل ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس بات کا شعور دینا ہوگا کہ وہ اسموگ کے اثرات سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں، اور ماحول کی بہتری کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ماحولیاتی اہداف اور بچوں کی تعلیم
عالمی سطح پر ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختلف اہداف اور مقاصد مقرر کیے گئے ہیں، جیسے اقوامِ متحدہ کے “پائیدار ترقیاتی اہداف” (SDGs)، جن میں ماحول کے تحفظ کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ان اہداف سے آگاہی ہمارے بچوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
بچوں کو سکھایا جائے کہ پودے لگانا صرف ایک سرگرمی نہیں بلکہ ایک عظیم عمل ہے، جو فضا کو صاف کرنے، درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے، اور زمین کی خوبصورتی بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ انفرادی سطح پر بچے اپنے گھروں میں، اسکولوں میں اور محلے میں صفائی رکھ کر اور درخت لگا کر ماحول کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں

نصاب میں ماحولیاتی تعلیم کی شمولیت

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں ماحولیاتی تحفظ، پانی کی بچت، توانائی کے متبادل ذرائع، آلودگی سے بچاؤ، اور قدرتی وسائل کے تحفظ جیسے موضوعات کو شامل کیا جائے۔ ان موضوعات کو صرف سائنسی مضامین تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ادب، مطالعہ پاکستان، اور اخلاقی تعلیم کے ذریعے بھی بچوں میں ماحول کے حوالے سے ایک مثبت شعور پیدا کیا جائے۔
اساتذہ کو بھی ماحولیات کے موضوع پر تربیت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو مؤثر انداز میں سکھا سکیں۔ اسکولوں میں ماحولیاتی کلب قائم کیے جائیں، جہاں بچے عملی طور پر صفائی مہم، شجرکاری، اور ماحولیاتی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

ماحولیاتی اہداف اور بچوں کی تعلیم
عالمی سطح پر ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختلف اہداف اور مقاصد مقرر کیے گئے ہیں، جیسے اقوامِ متحدہ کے “پائیدار ترقیاتی اہداف” (SDGs)، جن میں ماحول کے تحفظ کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ان اہداف سے آگاہی ہمارے بچوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
بچوں کو سکھایا جائے کہ پودے لگانا صرف ایک سرگرمی نہیں بلکہ ایک عظیم عمل ہے، جو فضا کو صاف کرنے، درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے، اور زمین کی خوبصورتی بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ انفرادی سطح پر بچے اپنے گھروں میں، اسکولوں میں اور محلے میں صفائی رکھ کر اور درخت لگا کر ماحول کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں

والدین اور کمیونٹی کا کردار

صرف اسکول ہی نہیں بلکہ والدین اور معاشرہ بھی اس کوشش میں برابر کے شریک ہونے چاہئیں۔ اگر والدین بچوں کو گھر میں پانی بچانے، بجلی کا کم استعمال کرنے، کچرا صحیح جگہ ڈالنے، اور صاف ماحول برقرار رکھنے کی ترغیب دیں گے تو یہ بچوں کی شخصیت کا حصہ بن جائے گا۔
مساجد، کمیونٹی سینٹرز، اور میڈیا کو بھی ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ٹی وی پروگرامز، ریڈیو، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
انفرادی کردار: ایک قدم بہتری کی طرف
ہر فرد کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ ماحول کے تحفظ کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ بچے چھوٹے ہوتے ہیں، لیکن ان کے سیکھنے اور سکھانے کی صلاحیت بہت بڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم انہیں آج سکھائیں گے کہ درخت لگانا، پانی بچانا، اور کچرا مناسب جگہ پر ڈالنا کیسا کارِ خیر ہے تو وہ کل ایک ذمہ دار شہری بن کر ابھریں گے۔
اگر ہر اسکول، ہر گھر، اور ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھے اور اس پر عمل کرے تو ایک بڑا انقلاب آ سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمارا ایک چھوٹا سا عمل کیا فرق ڈالے گا، بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ایک ایک قطرے سے ہی دریا بنتا ہے۔
نتیجہ
ماحولیات کا تحفظ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ آج اگر ہم نے بچوں کو اس حوالے سے شعور نہ دیا تو آنے والا کل نہایت بھیانک ہو سکتا ہے۔ اسکولوں کے نصاب میں ماحول سے متعلق موضوعات کی شمولیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے اپنی نئی نسل کو ماحول دوست سوچ دی، تو وہ ایک محفوظ، سرسبز اور خوشحال پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment