Home مضامین “جنگ کے بعد: سبق، سچائیاں اور مستقبل کی تیاری”\

“جنگ کے بعد: سبق، سچائیاں اور مستقبل کی تیاری”\

by Ilmiat

تحریر : وائس چانسلر تھل یونیورسٹی بھکرپروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار

ایک خطرناک حد تک بڑھتے جنگ کا بالآخر خاتمہ ہو گیا۔ جنگ کا رک جانا، امن کا بحال ہونا، بذات ِ خود ایک جیت ہے۔ پاکستان اس جنگ کا کبھی بھی خواہش مند نہیں تھا، مگر ”جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے“ کے مصداق قوم نے اس جنگ کو تسلیم کر لیا۔ اور متحد ہو کر جوش و جذبے سے لڑ بھی لیا۔ لیکن یہ جنگ پاکستان کو بہت کچھ دے گیا۔ تاریخ کا اعلان ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ اس طرح کے غیر معمولی واقعات بہت کچھ سکھا کے جاتے ہیں۔ بہت کچھ بتا کے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں بھی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کا بغور مطالعہ کریں۔ اپنے نوٹس بنائیں اور مستقبل کی تیاری بھی کریں۔ سب سے پہلی چیز یا پہلا اچھا حاصل یہ ہے کہ جہاں ایک طرف طاقت کا بگڑتا توازن بحال ہوا، تو دوسرے طرف ہندوستان کی طاقت، اس کا دفاعی نظام، جنگ کو گلوریفائی کرتی ہندوستانی عوام اور جھوٹ کا بازار میڈیا، یہ سب بھی بری طرح ایکسپوز ہوئے۔


اس جنگ کی سب سے بری بات یقیناْ یہی ہے کہ جو نفرت دو ہمسائیوں میں کئی دہائیوں سے چلی آ رہی تھی اور شاید کبھی کبھی امن کی آشا کی صورت میں اس میں کمی بھی ہوتی رہی، مگر اب یہ نفرتیں آنے والی نسلوں میں منتقل ہو چکی ہیں۔ جنگ کے مزید نفع نقصان کا احاطہ آنے والا وقت کرے گا، تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں درج ہوں گی۔ کوئی بھی با شعور قوم وقتی طور پر خوش ہونے کو مکمل خوشی کا نام نہیں دے سکتی۔ حقیقت پسند ہو کر اپنا لائحہ عمل بنانا ہوتا ہے۔ جیتنے کے باوجود سرشاری میں مطمئن ہو کر نہیں بیٹھا جاسکتا۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان ایک شدید منفی سچ کی زد میں ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کر سکے، دوسری وجہ ان کی حکمران جماعت بی جے پی جو ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نظریے سے متاثر ہے اور ان کے اہم قائدین بشمول وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور بہت سے دیگر رہنما اُسی آر ایس ایس سے تربیت یافتہ ہیں۔ آر ایس ایس بھارت کی سب سے با اثر قوم پرست تنظیم ہے جس کا اثر بھارت کی سیاست، معاشرت، تعلیم اور میڈیا میں گہرا ہے۔ تاہم اس کا نظریہ بھارت کی مذہبی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے باعثِ تشویش رہا ہے۔ اگرچہ اقلیتوں کے بارے میں پاکستان کے لوگوں کی رواداری بھی مثالی نہیں ہے۔ لیکن اس قدر شدت پسندی یا اس حد تک نفرت کہ آپ اس سوچ کے ساتھ حکومت بھی بنا لیں کم از کم یہاں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی کی بحث کیے بغیر کم از کم یہ بات ذمہ داری سے کی جا سکتی ہے کہ یہاں پر الیکشن کے دوران جلسوں میں بے شک دوسرے پارٹی کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور دوسری پارٹیوں کی حکومتوں پہ بھی تنقید کی جاتی ہے مگر الیکشن مہم میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہت کم ہی زیر بحث آتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس سرحد کے اُس پار، اس بات کی بہت اہمیت رہی ہے اور خاص کر موجودہ حکمران پارٹی نے ہمیشہ اپنے الیکشنز میں ہی پاکستان کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی اور نفرتوں کو بھی مسلسل بڑھاوا دیتے رہے۔ وہاں پر انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی سوچ کو پذیرائی ملتی ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں کبھی بھی ووٹر کو اپنی طرف اتنی کامیابی سے نہیں کھینچ پائے۔ جس سے پاکستانی عوام کی مجموعی نظریات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں عوام، میڈیا اور حکومت پچھلے پورے ہفتے کے دوران شدید بپھرے ہوئے نظر آئے۔ کبھی کبھی تو یوں بھی لگتا تھا کہ عوام اور میڈیا حکومت کو جنگ کروانے پر مجبور کر رہی ہیں۔ لیڈر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ لیڈر بڑھکیں نہیں مارتے۔ عمل اور حقیقت پسندی پر یقین رکھتے ہیں۔ غیر مقبول فیصلے بھی کرتے ہیں۔ دور اندیش بھی ہوتے ہیں۔ جس حکمران یا لیڈر کا کنٹرول عوام کے جوش اور غضب کے پاس ہو، وہ لیڈر نہیں ہو سکتا۔ اصل میں تو لیڈر عوام کو راستہ دکھاتے ہیں۔

تیسرا اور سب سے اہم پیغام جو اس جنگ سے ایک بار پھر دہرایا گیا۔ وہ یہ ہے کہ ملکوں اور قوموں کے بیچ لڑائی، تلواروں، تیروں، بندوقوں، توپ خانوں، ٹینکوں سے ہوتے ہوئے مکمل طور پر اب نئی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر نئی سائنسی ایجاد کو جلد یا بدیر ہتھیار میں بھی استعمال کیا گیا۔ ایجادات کو، سائنسی قوانین کو، ٹیکنالوجی کو، اور تحقیق پیش رفت کو ہمیشہ دفاعی اور جنگی مقاصد پورا کرنے کے لئے بھی موڑا گیا۔ اب سرحدوں پر آمنے سامنے کی لڑائی کی توقع بہت کم ہے۔ اب انسانوں کی جگہ پر زیادہ تر مشینیں جنگ لڑتی ہیں جن میں سے بہت سے خود کار ہیں۔ سرحدوں پر پہرے داری کا کام سنسان خلاؤں اور گہرے سمندروں پر موجود سیٹلائٹ اور ریڈار سر انجام دیتے ہیں۔ میزائلوں کی رینج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مختصر یہ کہ جو ملک و قوم معاشی اور سائنسی طور پر مضبوط ہو گا وہی محفوظ ہو گا۔ حالیہ جنگ میں پاکستان کو چائنا اور ترکی کی بھرپور حمایت رہی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ آج سائنسی تحقیق پر اور ملکی دفاع پر اسی طرز کی سرمایہ کاری کی جائے۔ یونیورسٹیوں کی لیبارٹریوں اور دفاعی تحقیقی مراکز کو اس قابل بنایا جائے کہ مقامی طور پر دفاع کے لئے راڈار، سیٹلائٹس، حفاظتی ملبوسات، کیمیائی اور حیاتیاتی سینسر تیار کیے جا سکیں۔ میزائل ناکارہ کرنے والی ٹیکنالوجی بھی موجود ہو۔ اس کے علاوہ نہایت اہم سائبر سیکورٹی انفرا سٹرکچر، کوانٹم راڈار، کوانٹم کمیونیکیشنز، اور مصنوعی ذہانت کا اس حد تک استعمال کہ آپ کے ڈیٹا کو، آپ کی خفیہ معلومات کو کوئی ہیک نہ کر سکے۔

امریکہ نے آج سے پچھتر سال پہلے دنیا کی بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی میں لنکن لیبارٹری بنائی، جس کا مقصد صرف اور صرف مسلح افواج کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنا تھا۔ انہوں نے جدید راڈار ٹیکنالوجی ایجاد کی جو دشمن کی نقل و حرکت، میزائل ڈیفنس، اور ہوائی نگرانی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سے خطروں کا پیشگی اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یہ لیبارٹری نہ صرف یونیورسٹی میں یا پھر زمین پر موجود ہے، بلکہ اس کا کچھ حصہ خلا میں بھی ہے۔ ایسے ریڈار اس کا حصہ ہیں جو کہ انتہائی اچھی ریزولوشن کی تصاویر بہت دور سے بھیج بھی سکتے ہیں اور وصول بھی کر سکتے ہیں۔ سمندروں پر سپیس سرویلینس ٹیلی سکوپ (ایس ایس ٹی) نصب کر دیے گئے ہیں جو کہ خلا سے سرحدوں اور آس پاس کے خطوں پر مسلسل نظر رکھنے کے لئے موثر ہیں۔ اس ٹیلی سکوپ کے بھاری بھرکم اجزا کو اس کی متعلقہ جگہ پر لے جانے اور ان کو وہاں پر دوبارہ جوڑنے میں ایم آئی ٹی کی لنکن لیبارٹری نے اہم کردار ادا کیا۔ دنیا کے تمام اہم ممالک اس طرز کی لیبارٹریز اور تحقیقی مراکز بنا کر اپنے دفاع کو مضبوط کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ برطانیہ میں ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیبارٹری، چین میں چائنیز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور کیسک لیبارٹریز، روس میں کرچاتوو انسٹیٹیوٹ، اس کی چند مثالیں ہیں۔ پاکستان کے نوجوان بہت با صلاحیت ہیں۔ اب بھی پاکستان کے دفاع میں پاکستانی سائنسدانوں کی خدمات کی طویل فہرست ہے مگر ہم اس سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی اہم جنگی مارکیٹس سے خریداری کی بجائے خود انحصاری یقیناْ کم خرچ بھی ہوگی اور با اعتبار بھی۔ دفاعی مضبوطی قوم کو بیرونی خطرات سے آزاد کر کے معاشی مضبوطی کی طرف پیش رفت کا باعث بن سکتی ہے۔

ایک خوش گمانی تھی کہ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی سماج، معاشرت، سوچ اور کردار میں بہتری آئے گی، مگر بدقسمتی سے وہ نہ آ سکی اور اب اس کے امکانات بھی کم لگ رہے ہیں۔ شاید یہ انسانی جبلت ہے یا پھر طاقت کا لالچ۔ اپنی شناخت ( چاہے وہ مذہب ہو، رنگ ہو، نسل ہو، قومیت ہو، زبان ہو یا کچھ بھی) کے تکبر سے بھی منفی سوچ جنم لیتی ہے جس سے نفرتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور آخر کار انسان خسارے میں رہتا ہے۔

v

You may also like

Leave a Comment