Home Uncategorized ٹرمپ کی ویزا پالیسی میں تبدیلی کے بعد بین الاقوامی طلباء کے لیے آگے کیا؟

ٹرمپ کی ویزا پالیسی میں تبدیلی کے بعد بین الاقوامی طلباء کے لیے آگے کیا؟

by Ilmiat

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بین الاقوامی طلباء کے ویزے بحال کرنے کا فیصلہ ایک بڑے یوٹرن کے طور پر سامنے آیا ہے۔ شان کارور وضاحت کرتے ہیں کہ ایسی غیر یقینی صورتحال میں، جب تبدیلی ہی واحد مستقل حقیقت ہے، بین الاقوامی طلباء اور تعلیمی منتظمین کو کس طرح تیار رہنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے غیر متوقع اور وسیع اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تجارت سے لے کر سٹافنگ تک، بہت سے مواقع پر پالیسیوں کو اچانک نافذ اور پھر تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح، طالبعلموں کے ویزوں کے حوالے سے بھی بڑے اقدامات دیکھنے میں آئے۔ٹرمپ نے ہارورڈ اور دیگر یونیورسٹیوں کو دھمکیاں دیں، فلسطین کے حق میں مظاہروں پر طلباء کو گرفتار کیا گیا، اور ہارورڈ کو بین الاقوامی طلباء سے متعلق معلومات حکومتی اداروں کو دینی پڑیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے رواں سال کے آغاز میں 1800 سے زائد طلباء کے ویزے منسوخ کیے، جس کے بعد بہت سے طلباء روپوش ہو گئے۔ عوامی دباؤ کے بعد تقریباً 1200 ویزے بحال کر دیے گئے۔بین الاقوامی طلباء کو مزید غیر متوقع فیصلوں کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے پہلے 100 دنوں سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال تعلیمی اداروں اور طلباء دونوں کے لیے بے چینی اور دباؤ کا باعث بنے گی۔

غیر متوقع صورتحال معمول بن جائے گی

ماضی میں بین الاقوامی طالبعلم بننے کا ایک طے شدہ طریقہ کار تھا، لیکن اب یہ تمام توقعات بدل چکی ہیں۔ خاص طور پر میڈیکل کے طلباء کے لیے، امریکہ آنا ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ اس کے اثرات تحقیق، اختراع، اور افرادی قوت کے معیار پر پڑیں گے، اور امریکی کمپنیاں باصلاحیت افراد سے محروم ہو سکتی ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کو خطرات:

وفاقی فنڈنگ منجمد کرنا اب حقیقت بن چکا ہے، خاص طور پر وہ ادارے جو تنوع، مساوات اور شمولیت (DEI) کے اصولوں پر کام کرتے ہیں۔ انتظامیہ نے حال ہی میں کارنیل کے لیے 1 ارب ڈالر اور نارتھ ویسٹرن کے لیے 790 ملین ڈالر کی فنڈنگ منجمد کر دی ہے۔ اس سے امریکی یونیورسٹیاں بین الاقوامی طلباء کے لیے کم پرکشش ہو جائیں گی۔

امریکہ میں تعلیم کی تیاری کا منظرنامہ بدل چکا ہے

بین الاقوامی طلباء کو اب صرف ثقافتی، لسانی، اور سماجی چیلنجز نہیں، بلکہ ویزے کی ممکنہ منسوخی، اظہارِ رائے پر گرفتاری یا ملک بدری، اور معاشرتی تقسیم جیسے خطرات کا بھی سامنا ہو گا۔ انہیں امریکہ آنے سے پہلے اپنے قانونی حقوق سے آگاہ ہونا چاہیے، اور منتظمین کو ان کی مدد کے لیے قانونی وسائل مہیا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

STEM شعبہ بھی متاثر ہو گا

ماضی میں صرف سماجی علوم کو نشانہ بنایا گیا، لیکن اب سائنس، ٹیکنالوجی، اور میڈیکل شعبے بھی زد میں ہیں۔ فنڈنگ میں کمی خاص طور پر AI جیسے اہم تحقیقی پروگراموں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہارورڈ کے اسکول آف میڈیسن، پبلک ہیلتھ، اور انجینئرنگ کی بڑی آمدنی وفاقی گرانٹس پر منحصر ہے، جو اب کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف “برین ڈرین” ہو سکتا ہے، بلکہ امریکہ کی عالمی مسابقت، صحتِ عامہ، اور تکنیکی ترقی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

مجموعی منظرنامہ

یہ وقت بین الاقوامی طلباء اور یونیورسٹی منتظمین دونوں کے لیے مشکل ہے، لیکن امریکی یونیورسٹیاں اب بھی دنیا کی بہترین اداروں میں شامل ہیں اور ان کے پاس مضبوط مالی وسائل موجود ہیں۔ ادارے تخلیقی حل تلاش کر رہے ہیں؛ ہارورڈ کے عملے نے تنخواہوں میں کٹوتی قبول کی ہے تاکہ ادارہ مالی طور پر مستحکم رہے۔بین الاقوامی طلباء اور منتظمین کو چاہیے کہ وہ متحرک رہیں، حالات پر نظر رکھیں، اور پالیسی سازوں پر واضح اور شفاف پالیسیوں کے لیے دباؤ ڈالیں۔ اسی طریقے سے اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے اور امریکہ کی تعلیمی برتری برقرار رکھی جا سکتی ہے۔

(بشکریہ (دی پائی نٹ ورک

تحریر؛ شان کریور

You may also like

Leave a Comment