:وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہاہے کہ پروفیسر ز کا کام صرف طلباؤطالبات کو پڑھانا نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملک وقوم اور انسانیت کے لئے کردار ادا کرنابھی ہوتا ہے۔وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیات کے زیر اہتمام پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کی ’نیوکلیئر آرمز کنٹرول ان ساؤتھ ایشیا: پولیٹکس، پوسچرز اور پریکٹسز‘ کی تقریب رونمائی سے ادارہ تعلیم و تحقیق کے وحید شہید ہال میں خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پرڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آبادپروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال،ڈ ین فیکلٹی آف بیہوریل اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد، پروفیسر ایمریطس پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، چیئرمین شعبہ سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز احمد،اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد شارع قاضی، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی نے پاکستان کے لئے انتہائی قابل اور نامور سیاست دان، تعلیم دان، بیوروکریٹس اور سول سرونٹس پید کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی پالیسی سازی میں ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے ریسرچ پر توجہ دینا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ یہ کتاب عالمی سطح پر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو زائل کرنے میں مدد دے گی۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی کے چار سالہ سفر میں ڈاکٹر ظفر نواز نے بہت سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپورٹ کسی سے حاصل نہیں کی جاتی بلکہ یہ کمائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرنواز جیسے پروفیسرز طلباء کے لئے رول ماڈل ہیں جو ملک، معاشرے، حکومت اور کمیونٹی کے لئے بہت اچھا کام کررہے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ سکیورٹی اور بین الاقوامی روابط کے لئے یہ کتاب خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نیوکلئیرپروگرام پر 1979کے بعد سے دنیا کا فوکس آیا، جو منفی تھا۔انہو ں نے کہا کہ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اسلامی بم کا نام دیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہمارے دانشور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دنیا کو پاکستان کا نقطہ نظر سمجھانے سے قاصر رہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد سے اس حوالے سے شائع ہونے والا مواد بہترین تحقیق کی بدولت زیادہ موثرہے جو بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈ ہ کا مقابلہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بھی بہترین تحقیقی مواد پر مشتمل ہے جس کے لئے مصنف کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان سکالرز کو مستقبل میں ایمرجنگ ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت، جدید کمیونیکیشن بارے سیکھنا ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال نے کتاب کے خدو خال بیان کرتے ہوئے کاکہا کہ علم ہمیشہ وسعت اختیارکرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور مصنف کوشش کی ہے کہ غلطیاں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا پاکستان ایک خود مختار ایٹمی ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ماہرین تعلیم، محققین، پبلشرز، سکالرز اور دانشوروں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک سے کتب بینی کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر لکھاری کا تحقیقی کام اچھا ہو تو دنیا خریدتی ہے اور پڑھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں بھارت اور پاکستان کے جوہری موقف اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے حوالے سے بیان بازی اور عملی نقطہ نظر کو بھی واضح کیا گیا۔پروفیسرڈاکٹر ارم خالد نے کہا کہ یہ کتاب وقت کی ضرورت ہے جو یقینا پڑھنے والوں کو فائدہ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب سے ہمارے نوجوان طلباء کو پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بہترین موضوع پر کتاب لکھنے پر ڈاکٹر ظفر نوازجسپال کو مبارک بادپیش کی۔ انہوں نے کی کتاب کی تعریف کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کا پھیلا ؤاور کنٹرول کے چیلنجوں کی نظریاتی اور تجرباتی وجوہات پر روشنی ڈالی۔پروفیسر ڈاکٹر رانا اعجاز نے کہا کہ یہ خطہ پاکستان، چین، بھارت اور روس کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے کے لئے حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جوہری صلاحیت حاصل کی تھی جو اس کی جائز سیکورٹی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ضروری تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کسی بھی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ سیاسیات اپنے طلباء کی تنقیدی سوچ کوفروغ دینے کے لئے کردار ادا کرتا رہے گا۔ ڈاکٹر محمد شارع قاضی نے کہا کہ مصنف نے کتاب میں نظریہ اور جوہری پوسچرز کے مسائل کو خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سپرسونک میزائل، بیلسٹک میزائل ڈیفنس، اور نظریاتی تبدیلیوں جیسی ہندوستان کی تکنیکی ترقی بارے باخبر رہنا ضروری ہے۔
