چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے کہا ہے کہ جامعات کی خود مختاری کے ساتھ خوداحتسابی بھی ضروری ہے۔ وہ پنجا ب یونیورسٹی ادارہ تعلیم وتحقیق اور اکیڈیمیا میگزین کے زیر اہتمام ’پاکستان میں اعلیٰ تعلیم:گورننس،فنانس اور کوالٹی‘ کے موضوع پر وحید شہید ہال میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پرچیف ایگزیکٹیو آفیسر نالج سٹریمز وسابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹرہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر سہیل نقوی، صدرفپواساڈاکٹر امجد عباس مگسی، ڈائریکٹر ادارہ تعلیم و تحقیق پروفیسرڈاکٹر عبدالقیوم چوہدری،ڈائریکٹر سپورٹس ڈاکٹر محمد شبیر سرور،ڈائریکٹر جنرل اسٹیٹ اینڈ سکیورٹی ڈاکٹر ریحان صادق شیخ، محمد ابراہیم قاضی، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو گورننس اور کوالٹی جیسے مسائل کا سامنا ہے جس کا تعلق مالی معاملات سے جڑاہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کئی جامعات تنخواہ اور پینشن سمیت بجلی کے بلوں تک کی ادائیگی میں دشواری کا سامنا کر رہی ہیں۔ان مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے اساتذہ کو منفی سیاست کی بجائے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم پر صرف 0.22فیصد خرچ کیا جارہا ہے جس کو بڑھانے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کوکردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ الحاق شدہ کالجز کے تدریسی معاملات کو بہتر کرنے کیلئے جامعات کو قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کرناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں الزام تراشی کی بجائے مل کر کام کرتے ہوئے پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں کی مہارتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نصاب تعلیم میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کے لئے صنعتکاروں کو بھی اکیڈمک کونسل کا ممبر بنانا چاہیے۔ انہوں نے بہترین تقریب کے انعقاد پرمنتظمین کی کاوشوں کو سراہا۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر سہیل نقوی نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ پبلیکشنزچالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے مگر معاشرے کے لئے بالکل بے اثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کا جامعات میں وائس چانسلر ز کی تعیناتی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ جامعات کمیونٹی آف سکالرز کی جگہ ہوتی ہے اگر قوانین بنانے والے اور عمل کرنے والے مل کرکام کریں توایک بہتر نظام فروغ پاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا1.4فیصد خرچ ہونا قابل افسوس ہے۔ا نہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان بہت ذہین ہیں اور یہی اس کا اثاثہ ہے۔ڈاکٹر امجد عباس مگسی نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو ایک وقت میں اتنے مسائل کا سامنا کبھی نہیں رہا جتنا اس وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی جامعات سے وائس چانسلرز کی تعیناتی میں ایچ ای سی کا کردار ختم ہونا نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو برس سے زائد پنجاب ودیگر صوبوں میں جامعات بغیر وائس چانسلر زکے ایڈہاک ازم پر کام کرتی رہی جس سے مالی و انتظامی معاملات میں خرابی پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ اور ساکھ کوتقویت دیئے بغیر گورننس، معیشت اور کوالٹی میں بہتری نہیں آسکتی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی جامعات میں نان پی ایچ ڈیز کی تعیناتی کے لئے قانون سازی افسوس ناک عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی جامعات میں بھی اساتذہ کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازصوبے میں اچھا کام کررہی ہیں مگر اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ سے چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تقرری کا نہ ہونا بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ڈاکٹر عبدالقیوم چوہدری نے ادارہ تعلیم و تحقیق کی تاریخ و تعمیری سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جدیددورکے تقاضوں کے مطابق علوم کو فروغ دینا ادارہ کی ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے مضامین کے اعتبار سے ایجوکیشن کے مضمون کو پاکستان میں پہلے نمبر قرار دیا ہے جوہماری بہترین پالیسیوں کانتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کی ذمہ داری صوبوں کے سپر د ہے لیکن ایچ ای سی اور پی ایچ ای سی کوتعلیمی نظام کی بہتری کیلئے مضبوط روابط قائم کرنا ہوں گے۔
جامعات کی خود مختاری کے ساتھ خود احتسابی بھی ضروری ہے، ڈاکٹر مختا راحمد ……. پاکستان میں سالانہ پبلیکشنزچالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے مگر معاشرے کے لئے بالکل بے اثر ہیں …… پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا1.4فیصد خرچ ہونا افسوس ناک ہے، ماہرتعلیم ڈاکٹر سہیل نقوی
48