موسم گرما کی تعطیلات انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کاایک حصہ ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی تعطیلات کا کلچر روبا عمل ہے۔ انگریز تعطیلات کو تفریح کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ بر صغیر کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں انگریز سٹاف موجود ہوتا تھا ۔جب تعطیلات ہوتیں تو انگریز سٹاف بھی برصغیر سے انگلینڈ چلا جاتا ۔اس کی مثال آئی ای آر جامعہ پنجاب بھی ہے۔ دنیا بھر میں جن ممالک میں موسم گرما شدید ہوتا ہے وہاں طلبہ کو تقریبا تین ماہ کی تعطیلات دے دی جاتی ہیں ۔ان تعطیلات سے اساتذہ طلبہ خوش ہوتے ہیں ہمارے ملک میں بھی طلبہ کو گرمیوں کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ جس کے نتائج خوشگوار بھی اور مایوس کن بھی سامنے آتے ہیں ۔ہم تعطیلات میں طلبہ کی ذہنی اور جسمانی مصروفیات سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ تعطیلات میں اساتذہ ،طلبہ اور والدین کے پاس کوئی پروگرام اور روڈ میپ نہیں ہوتا ۔تاکہ تین ماہ تعمیری سرگرمیوں میں میں گزر سکیں۔ بعض والدین بچوں کو نانا نانی یا دادا دادی کے ہاں بھیج دیتے ہیں تاکہ چھٹیاں وہاں گزر جائیں۔ بچوں کا کام ادھورا رہ جاتا ہےاور تعطیلات کے دوران پڑھا لکھا بھول جاتے ہیں۔ تعطیلات جس سے طرح سے گزارنی چاہیں ان کو اس طرح نہیں گزارا جاتا ۔تاہم ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں کی طرف سے باقاعدہ ایک پروگرام اور روڈ میپ دیا جاتا ہے۔ یہ ممالک بچوں کے ذہنی سماجی اور اخلاقی تقاضے بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں یہ ممالک تعلیمی سیر کا پروگرام بھی ترتیب دیتے ہیں تاکہ بچے واپسی پر اسے ایک پروجیکٹ کہ طور پر لیں ۔بعض ماہرین تعلیم تعطیلات کے عمل کو مثبت قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو بند کمروں سے باہر نکالیں ۔بچوں کو کھلی فضا میں سرگرمیاں انجام دینی چاہیں۔ انہیں سورج کی روشنی اور وٹامن ڈی میسر آئے گی جو ہڈیوں کے لیے ضروری ہے ۔بچے کھلی فضا میں کھیل کود کی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں جو جسمانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں میں ایسا مواد موجود ہے۔ جو گرمیوں میں بخوبی عمل میں لایا جا سکتا ہے ۔اساتذہ کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ تعطیلات کےدوران بچوں کو روڈ میپ، پروگرام اور منصوبے دیں تاکہ بچوں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو ، تعطیلات کے مثبت پہلو یہ ہیں کہ بچے والدین بھائیوں اور رشتہ داروں کے ہاں زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ جس سے خاندانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ بچے تحفظ اور پیار کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ انہیں خاندانی فرائض کا پتہ چلتا ہے۔ کھیل کود سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور خاندان کا ذہنی طور تناؤ کم ہوتا ہے ۔تعطیلات کے دوران بچے مختلف پارٹیز اور تقریبات میں شامل ہوتے ہیں۔ تعطیلات کا بہترین فائدہ یہ ہے کہ بچے والدین کی مدد کریں اور ان کی کاشتکاری میں بھی مدد کریں۔ شہروں میں اپنے والدین کی کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ بچیاں وکیشنل سینٹر اور امور خانہ داری میں حصہ لیں ۔ لڑکیوں کو سلائی کڑھائی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ آج کل تو آئی ٹی سکلز سیکھنے کو ملتے ہیںتا کہ بچے کچھ کما بھی سکتے ہیں کسانوں کے بچے زراعت میںمہارت حاصل کر سکتے ہیں ۔بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور ان میں لیڈرشپ سپرٹ پیدا ہوتی ہے۔ چھٹیوں کے دوران کوئی تفریحی سفر کرایاجائے ۔سفر سے حاصل شدہ معلومات کسی بھی پروجیکٹ کی تیاری کے لیے مفیدثابت ہوسکتی ہیں۔ اس طرح تعطیلات کے دوران بچوں کے کردار میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعطیلات سے فائدہ اٹھایا جائے ۔اس دوران نصابی اور ہم نصابی سرگرمیاں اس طرح ترتیب دی جا سکتی ہیں کہ تعطیلات کا کام باقاعدہ دیاجائے ورنہ سکول کھلنے کے بعد بچے سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اساتذہ کرام دوبارہ بچوں کو ٹریک پر بڑی مشکل سے لاتے ہیں ۔تعطیلات کے بعد سکول کا دیا ہوا کام اساتذہ سختی سے چیک کریں اور اور ایک سہ ماھی امتحان رکھیں اورنتائج کی رپورٹ والدین کو بھیجیں تاکہ طلبہ کی آئندہ اصلاح ہو سکے۔
موسم گرما کی تعطیلات والدین اور طلبا
38