پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے سماجی تبدیلی اور ترقی کے لئے تحقیق کو فروغ دینے کے لئے اکانومی فیسٹیول2024 کا آغاز کردیا۔پائیڈ نے ریسرچ فار سوشل ٹرانسفارمیشن اینڈ ایڈوانسمنٹ (آر اے ایس ٹی اے) پروگرام اور پاکستان سوسائٹی آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی ایس ڈی ای) کے تعاون سے گندھارا سٹیزن کلب فاطمہ جناح پارک میں تیسرے اکانومی فیسٹیول (ایکون فیسٹ) کا افتتاح کیا۔ منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ پائیڈ کو پاکستان کے معاشی منظرنامے کو تبدیل کرنے کے مقصد سے ایک گہرا اصلاحاتی ایجنڈا پیش کرنے پر فخر ہے
نہوں نے کہا کہ ہماری توجہ فرسودہ نوآبادیاتی اداروں کو ختم کرنے پر ہے جو طویل عرصے سے مارکیٹوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو فروغ دیتے رہے ہیں، ڈی سی ریٹس جیسے پابندیاں عائد کرتے ہیں، اور تکنیکی ترقی اور مقامی تحقیق کی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں معیشت کے 64 فیصد سے زائد حکومتی اثر و رسوخ، پالیسی کی غیر یقینی صورتحال، حد سے زیادہ ریگولیشنز اور ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب کا تعین ہے جو سرمایہ کاری اور جدت طرازی کو روکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہماری معیشت پنپ رہی ہے، اور یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو سرمایہ کاری اور ترقی کی اجازت دی جائے، اعتماد اور مواقع پر مبنی معاشرے کو فروغ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اصلاحاتی ایجنڈے کے اہم شعبوں میں توانائی، تعلیم، شہری ترقی، سرکاری ملکیتی ادارے ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور صحت کے شعبے شامل ہیں۔ ہم گورننس میں بہتری لانے کے لئے پیشہ ورانہ مہارت، اور ٹیکنالوجی اور تحقیق کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نتائج پر مبنی مینجمنٹ (آر بی ایم) کی کمی کو دور کیا جانا چاہئے تاکہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کارپوریٹائزیشن اور نجکاری کی حمایت کرتے ہیں تاکہ کمزور، سیٹھ کی ملکیت والی کمپنیوں(ایس ایس سیز) اور سست سٹاک مارکیٹ کے غلبے کو توڑا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسٹاک مارکیٹ کو نجکاری، ایس ایس سیز سے آگے ترقی کو فروغ دینے اور کم از کم ایک دہائی کے لئے آسان ٹیکسوں، ڈیجیٹلائزڈ عمل اور مستحکم پالیسیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے واضح مواقع فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔پائیڈ کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر درے نایاب نے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پائیڈ کے ایجنڈے میں ریگولیٹری ماڈرنائزیشن، ٹیکس اصلاحات، مارکیٹ لبرلائزیشن، توانائی کے شعبے کی کارکردگی اور زراعت اور بینکاری میں بہتری سمیت کلیدی شعبوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حکمت عملی کا ایک قابل ذکر عنصر’ریگولیٹری گلوٹین’ ہے جس کا مقصد کاروباری نمو اور جدت طرازی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے بھاری ریگولیشنز کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصلاحات قرضوں کی تنظیم نو، آئی ایم ایف کے ساتھ تعاون کو تیز کرنے، جامع ٹیکس اصلاحات اور برآمدات کو ترجیح دینے اور درآمدی ضوابط کو جدید بنانے کے لئے اسٹریٹجک اقتصادی مواقع کی بھی وکالت کرتی ہیں۔ چیف (پالیسی) ڈاکٹر فہیم جہانگیر نے کہا کہ ٹیکس اور انتظامی اصلاحات کے دائرے میں، پائیڈ ٹیکس کو آسان بنانے اور پالیسی کو یقینی بنانے، محصولات کو غیر جانبدار انداز میں منظم کرنے اور ایک دہائی کے لئے استحکام کو یقینی بنانے پر زور دیتا ہے
اس میں یکساں ٹیکس کی شرح کا نفاذ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے میں یکساں سیلز ٹیکس نظام، نقصان دہ مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں آٹومیشن کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ انسانی عمل دخل کو کم کیا جاسکے اور کارکردگی میں اضافہ کیا جاسکے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ پائیڈ ایکسپورٹ پرو ٹریڈ پالیسی کی وکالت کرتا ہے، شمولیت اور لسٹنگ کے عمل کو آسان بناتا ہے اور سرمایہ کاری اور ترقی کے لئے سازگار ماحول کو فروغ دینے کے لئے پاکستان کی مارکیٹوں کی اوور ریگولیشن اور بیوروکریٹائزیشن کو حل کرتا ہے۔ دانیال عزیز، نرگس سیٹھی اور تیمور جھگڑا نے اصلاح برائے پبلک ایڈمنسٹریشن کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے کابینہ، سول بیوروکریسی، عدلیہ اور مقامی حکومت سمیت مختلف شعبوں میں جامع اصلاحات کی تجویز پیش کرتے ہوئے پاکستان کے گورننس سسٹم کیخامیوں پر بھی بات کی۔ انہوں نے گورننس کے کردار میں مہارت اور کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ سابق وفاقی وزیر اور سابق چیئرمین ایف بی آر سید محمد شبر زیدی نے پاکستان میں ٹیکسوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ریونیو کا 54 فیصد صوبوں کو مختص کیا جاتا ہے، جو اکثر سرپلس بجٹ دکھاتے ہیں۔ انہوں نے صوبائی اخراجات کے احتساب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ فنڈز اکثر ضروری منصوبوں پر استعمال نہیں ہوتے ۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی ٹیکسوں کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے جبکہ صوبے بھی اپنے ٹیکس خود جمع کرتے ہیں۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر حکومت ٹیکس وصولی سے گریز کرتی ہے، خاص طور پر رئیل اسٹیٹ میں۔ شبر زیدی نے پاکستان کے کم پراپرٹی ٹیکسوں کا موازنہ پونا جیسے بھارتی شہروں میں زیادہ شرحوں سے کیا۔ غیر ٹیکس دہندگان اکثر اپنے ٹیکسوں پر واپسی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ رسول بخش رئیس نے آئین کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ عارفہ نور اور سروپ اعجاز نے حکومت پر میڈیا کے انحصار سمیت انتظامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ماہرین نے ان چیلنجوں سے نمٹنے اور انتخابی دھاندلی کی ترغیبات کو کم کرنے کے لئے وسیع تر سیاسی شمولیت، انتخابی اصلاحات اور پسماندہ علاقوں کے لئے بہتر نمائندگی پر زور دیا۔ شاہد کاردار نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران آئی ایم ایف کے تقریبا 14 پروگراموں میں حصہ لیا ہے اور اب 58 ود ہولڈنگ ٹیکس ہیں جو براہ راست ٹیکس ادائیگیوں کا 70 فیصد ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نیلم جہلم منصوبہ، جس کا ابتدائی طور پر 2007 میں85 ارب روپے کا معاہدہ کیا گیا تھا، 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور نامکمل ہے۔