پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پنجاب یونیورسٹی کے تعاون سے انسداد مذہبی منافرت مہم کاآغازپنجاب یونیورسٹی سے کر دیا جس کا مقصد طلباؤطالبات میں قانون توہین مذہب کے تناظر میں سماجی ذمہ داریوں کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ امور طلبہ اور کمیٹی برائے آگاہی انسداد مذہبی منافرت اورپی ایچ ای سی کے زیر اہتمام ’قانون توہین مذہب اور ہماری سماجی ذمہ داریاں‘ کے موضوع پر شیخ زائد اسلامک سنٹر کے آڈیٹوریم آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور انیق احمد، وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمود، صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ،ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، ڈائریکٹر کو آرڈینیشن پی ایچ ای سی ڈاکٹر رانا تنویر قاسم، ڈائریکٹر شعبہ امور طلباء ڈاکٹر محمد علی کلاسرا، ڈاکٹر سعید احمد، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ معاشرے کو تعلیم دینا اساتذہ اور جامعات کی ذمہ داری ہے جب تک عوام کو قوانین بارے آگاہی نہیں ہوگی جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ درست معلومات کے حصول اور غلط معلومات سے بچاؤ اس مسئلے کا حل ہے جس کے لئے سوشل میڈیا ماہرین تیار کرنا ہوں گے۔ انہوں نے پی ایچ ای سی کی طرف سے آگاہی انسداد مذہبی منافرت مہم کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ سب کو مل کر ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کرسکے۔انیق احمد نے کہا کہ ہر دور کے شیطانوں کی چالیں مختلف ہوتی ہیں جن کی پہچان علم کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنقید، تحقیر اور تذلیل میں فرق ہوتا ہے، اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں توہین مذہب کی اجازت ہر گز نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ، سیالکوٹ جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے قوانین بارے آگاہی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ میں علماء کرام نے عیسائیوں کے لئے مساجد کے دروازے کھول دیئے تھے جو مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے حوالے بنائے گئے قوانین کو ختم کرنے کے لئے نادیدہ قوتیں پس پردہ کردار ادا کررہی ہیں مگر ہم ایسا نہیں ہوں دیں گے۔ اسد منظور بٹ نے کہا کہ محبت اور جذبات کی بھی کچھ حدود متعین ہیں جن کی پاسداری سے ہی مہذب معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال ہورہا ہے جو بین الاقوامی سطح پر ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بنتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل ڈیوائس کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے لئے 295A, B اورC کے قوانین موجود ہیں جس کے مطابق توہین مذہب کے مرتکب شخص بارے اداروں کو اطلاع دی جانی چاہیے۔ڈاکٹرتنویر قاسم نے کہا کہ دین اسلام پوری انسانیت کے لئے ایک جامع قانون لے کر آیا ہے بدقسمتی سے اسلام دشمن عناصر سوشل میڈیاکے ذریعے اسلام، شعائر اسلام، پیغمبر اسلام اورمقدس ہستیوں کی اہانت پر مبنی ویڈیوز، کارٹونز،تصاویر پھیلارہے ہیں انہوں نے کہا کہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس مہم میں کمزور عقائد کے حامل نوجوان بھی ملوث پائے گئے جنہیں گرفتار کرلیا گیا۔اس کے خطرناک اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان ہائیر ایجوکیشن کمیشن،پنجا ب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے معزز عدلیہ کی ہدایات کی روشنی میں،قومی وریاستی اداروں،پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن، ایف آئی اے کی معاونت سے اعلی تعلیمی اداروں میں قانون توہین مذہب کے تناظر میں ہماری سماجی ذمہ داریوں کی آگاہی کی مہم شروع کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے پر سوشل میڈیا کے منفی اور نقصان دہ اثرات انتہائی تشویش کا باعث بنتے جارہے ہیں، اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات میں فوری بیداری کی ضرورت ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی نے کہا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی تقسیم نفرت، شدت پسندی اور مذہبی منافرت کو فروغ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی منافرت میں کمی اور اختلاف رائے کا حسن سمجھنے کیلئے تربیت بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد علی کلاسرا نے کہا کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے پنجاب یونیورسٹی اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ بعد ازاں آغازِسحر گرین کمیونٹی کے تعاون سے شیخ زاید اسلامک سنٹر میں شجر کاری مہم کا بھی آغاز کیا گیا۔
وقتی فوائد کی بجائے پائیداری کی سوچ کو فروغ ملنا خوش آئند ہے،
سب کو مل کر ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کرسکے۔……. معاشرے کو تعلیم دینا اساتذہ اور جامعات کی ذمہ داری ہے جب تک عوام کو قوانین بارے آگاہی نہیں ہوگی جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں۔….. پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود
42