پروفیسر فاروق چوہدری
ہمارے تعلیمی نظام پر چاروں طرف سے انگلیاں اٹھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیاد تحقیق پر استوار نہیں کی گئی سوچ بچار تحقیق کی پہلی سیڑھی ہے اور ہمارے یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے ابھی تک پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھا،کافی عرصہ پہلے راولپنڈی میں ایک شام ،شامِ ہمدرد کے نام سے منعقد کی گئی، موضوع گفتگو نصاب تعلیم تھا جس پر عرفان نیاز ڈاکٹر ذوالکیف احمد اور راقم الحروف کو دعوت کلام دی گئی جناب عرفان نیاز اور ڈاکٹر زوال کیف احمد کے تقاریر کے دوران جناب حکیم محمد سعید بھی تشریف فرما تھے لیکن جب میری باری ائی تو ان کی کراچی کے لیے فلائٹ کا ٹائم ہو گیا لہذا وہ چند لمحے بیٹھے اور پھر سیکرٹری کوئی ہدایت دے کر کے ڈاکٹر فاروق کی تقریر کی ویڈیو انہیں پہنچا دی جائے اٹھ کر چلے گئے بعد میں ان کا یہ پیغام ملا کہ وہ میرے ساتھ نصاب تعلیم کے بارے میں ایک نشست رکھنا چاہتے ہیں ابھی ایک نشست کا بندوبست ہونا باقی تھا کہ انہیں گورنر سندھ کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی بعد ازاں کسی وطن دشمن سنگ دل قاتل کے ہاتھوں انہوں نے جام شہادت نوش فرمایا لہذا اس نشست کا اہتمام نہ ہو سکا اپنی گفتگو کے دوران میں نے جب میں نے عرفان نیاز تھے جو ایک عرصے تک فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری ایجوکیشن اسلام آباد کے سیکرٹری بعد ازاد چیئرمین کے عہدوں پر فائض رہے پوچھا عرفان صاحب میٹرک کے امتحان میں انگریزی سے اردو میں ترجمے کا سوال کتنے نمبروں کا ہوتا ہے عرفان صاحب نے جواب دیا’’ 15 نمبروں کا‘‘۔ میں نے کہا جناب! آپ کا استاد دو سال میں صرف 15 نمبروں کی انگریزی پڑھتا ہے اور 135 نمبروں کو پوچھتاہی نہیں یہ نصیبوں جلے طالب علم کا درد سر ہے کہ وہ گیٹ تھرو گائیڈ استعمال کر ےیاٹیسٹ کے پیپر کے نازک صفحات پر بلیڈ چلائے سبق میں دو یا اڑھائی صفوں کا ترجمہ ہوتا ہے اور چھ سات صفحات پر مشتمل سٹرکچر(Structure) جس سے انگریزی زبان سیکھنےمیں مدد ملتی ہے لیکن تعلیم و تربیت سے پیدل استاد ان چھ سال صفحات کو ہاتھ لگانے کی ہمت ہی نہیں رکھتا تو انگریزی کے مضمون کا اچھا رزلٹ کیسے دکھا پائے گا؟ہماری بدقسمتی ہے ہم اپنی تعلیم کا بیشتر عرصہ انگریزی سیکھنے میں گزار دیتے ہیں مگر کم بخت آتی پھر بھی نہیں ۔
اس مجلس میں سابق ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب جناب قاضی صغیر الحق مرحوم و مغفور بھی تشریف فرما تھے وہ بے ساختہ بولے فاروق صاحب واقعی ہم نے تو کبھی اس بارے میں سوچاہی نہیں، آپ نے جو بات کہی ہے یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے میں نے عرض کیا قاضی صاحب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا، سوچ بچار تحقیق کی پہلی سیڑھی ہے جب پہلی سیڑھی پر ہی قدم نہ رکھا جائے تو تحقیق کی بلندیوں کو کیسے چھُوا جائے گا؟ ہم تو لکیر کے فقیر ہیں ہم نے اپنے اداروں کو تحقیق کلچر سے پاک رکھنے میں ہی عافیت سمجھی ہے ۔
تحقیق اور مسئلے کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جب ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہو ہم اس کے حل کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے ہیں یہیں سے تحقیق کا آغاز ہو جاتا ہے گھر میں کوئی مسئلہ ہو تو میاں بیوی مل بیٹھتے ہیں اور اس کے حل کے لیے مختلف پہلووں پر غور کیا جاتا ہے ،گائوں یا محلے میں کسی مسئلے کا سامنا ہو تو پنچایت یا جرگہ کی اراکین اکٹھے ہو جاتے ہیں مسئلہ پیش کیا جاتا ہے جس کے سرکردہ رکن مسئلے کے حل کے لیے مفروضوں پر مبنی مختلف تجاویز دیتے ہیں ہر مفروضہ(Hypothesis) معزز رکن کی عقل و دانش اور ذاتی تجربے پر مبنی ہوتا ہے ۔ان تجاویز پر بحث ہوتی ہے ،جب ایک سے زیادہ مفروضے یا تجاویز قابل قبول نظر ائیں تو پھر ان پر رائے شماری کرائی جاتی ہے اور جس کے حق میں زیادہ اراکین کی رائے ہو اسے قبول کر لیا جاتا ہے اور آخر میں اس پر عمل درامد کے لیے سفارشات پیش کی جاتی ہیں اس سارے عمل کو جب باقاعدگی کے ساتھ منظم شکل میں اختیار کر لیا جائے تو یہ باقاعدہ تحقیق کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ تحقیق بنیادی طور پر ایک ذہنی کاوش ہے جسے فکر و دانش کے سہارے پروان چڑھایا جاتا ہے یہ مسائل کے متعلق ایسا طریقہ ہے جس سے حقائق کی روشنی میں مسائل کا حل معلوم کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں تعلیمی تحقیق قحط کا شکار ہے ملک میں تحقیق کا کلچر پروان چڑھنے ہی نہیں دیا گیا مختلف ایجنسیوں کے ذریعے ہونے والی تحقیق کا زیادہ تر انحصار جعلی اعداد و شمار پر ہوتا ہے ۔اگر سنجیدگی سے کوئی تحقیق کی بھی جائے تو اس کے نتائج سفارشات پر عمل درامد تودور کی بات ہےاسے پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی اور وہ الماریوں میں پڑی پڑی دیمک کی خوراک بن جاتی ہے۔ 1984 میں بلوچستان کی حکومت نے وفاقی حکومت سے کہا ان کے شعبہ تعلیم کے انتظامی مینجمنٹ سٹرکچر کو
سٹڈی کیا جائے اور اس کی اصلاح کے لیے سفارشات پیش کی جائیں اس مقاصد کے لیے اواینڈ ایم ڈویژن سے فضل حسین چوہدری اور وزارت تعلیم سے راقیم الحروف کو نامزد کیا گیا ہم نے باہمی مشاورت سے اپنا کام سرحد(اب خیبر پختونخوا) سےشروع کیا وہ اس لیے ،کہ کئی امور میں ان دونوں صوبوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے سب سے پہلے ہم پشاور ڈویژن کے ڈائریکٹر شاہجہان خاں کے پاس گئے تاکہ کچھ معلومات حاصل کر سکیں ،ان کی سیٹ کے ساتھ رکھے ریک پر نظر پڑی تو ان میں ایک رپورٹ نظر آئی جو ہمارے کام سے بڑی مطابقت رکھتی تھی ٹائٹل تھا ،’’صوبہ سرحد میں تعلیمی اصلاحات ‘‘میں نے اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو شاہ جہاں خان کے لبوں پر مانی کے مسکراہٹ تھی۔ رپورٹ کے متن میں سر فہرست نام لال حبیب خان کا تھا ٹائٹل پلٹ کے دیکھا تو اندر 1979 کی تعلیمی پالیسی کی فوٹو کاپی کر کے لگائی گئی تھی اور حرام ہے جو اپنی طرف سے ایک لفظ لکھنے کی بھی تکلیف کی گئی ہو سوائے اس ٹائٹل کے جو بڑا خوبصورت تھا مایوس تو ہوئے لیکن اُسے ہمارے ہاں ہونے والی تحقیقی کام کے نمونے کے طور پر رکھ لیا۔ شاہجہان خان بڑے علم دوست شخص ہیں انہوں نے بھلے وقتوں میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایڈ کر رکھا ہے ان سے شناسائی 1983 میں ہوئی ۔جب وہ ایبٹ آباد میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شناسائی دوستی میں تبدیل ہو گئی میں نے ان سے کہا خان صاحب اگر ہمارے اخلاقیات کا یہی معیار رہا تو ہماری تعلیم کا کیا بنے گا ؟خان صاحب
مسکرائے اور بولے ڈاکٹر صاحب سب کچھ آپ کے سامنے ہے اور آپ بھی جانتے ہیں کہ تحقیق کے معیار کا تمام تر انحصار محقق کی علمی قابلیت اور پیشہ ورانہ دیانت پر ہے ،جب محقق محض کاروائی ڈالنے کے لیے اس قسم کی حرکتوں کو اشعار بنا لے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔
ہم نے کوئٹہ میں ایک ہفتہ قیام کیا اور بلوچستان کے تعلیمی ڈھانچے پر ایک جامع رپورٹ تیار کر کے سیکرٹری تعلیم مظفر علی شاہ کے حوالے کی اس رپورٹ میں ہم نے آئندہ پانچ سال کے لیے منصوبہ بندی کر کے باقاعدہ اعداد و شمار کے ذریعے بتایا کہ اگر اس رپورٹ پر عمل درامد ہو تو 1988 کے اختتام تک بلوچستان میں کوئی استاد غیر تربیت یافتہ نہیں رہے گا ،لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس رپورٹ کو کسی نے پڑھنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی۔ کیونکہ اس کے چھ سال بعد 1990 میں بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم ناصر الدین احمد نے جو ہمارے ایک تربیتی پروگرام افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی تھے شکوہ کیا کہ بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے ۔میں نے اس رپورٹ کا حوالہ دیا ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے دفتر میں مذکورہ رپورٹ تلاش کریں ،رپورٹ ان کے دفتر میں موجود تھی انہوں نے دیکھی اس کی تعریف کے ساتھ ہی معذرت بھی کی کہ اس رپورٹ پر عمل درامد تو درکنار اس اسے کسی نے دیکھنے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی ،ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضے سے مکمل کیے گئے تربیت اسا تذہ کے منصوبے کے تحت 27 سے 28 تحقیقی رپورٹیں تیار ہوئیں جن میں سے شاید ہی کسی کی سفارشات کو درخوار اتنا سمجھا گیا ہو حالانکہ ان پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے تھے اور اب الماریوں میں پڑی دمک کے کام ودہن کی تشفی کر رہی ہیں تعلیم کے شعبے میں بارانی زرعی یونیورسٹی کے ادارہ تعلیم و تحقیق میں ہونے والا کام نمایاں اہمیت کا حامل ہے ۔بدقسمتی سے یہ ادارہ جناب وائس چانسلر کو ذاتی طور پر پسند نہیں تھا لہذا اپنی شبانہ روز محنت سے اسے بند کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس ادارے سے اب تک 68 سے زیادہ پی ایچ ڈی اور 24 ایم فل کے سکالرز اپنی تحقیقی مقالے مکمل کر کے ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں ۔
راقم الحروف نے اپنی نگرانی میں 35 پی ایچ ڈی اور 13 ایم فل کے سکالرز کے مقالے مکمل کرائے جن میں مختلف موضوعات پر تحقیق کر کے بڑی مفید قسم کی سفارشات پیش کی گئی ہیں لیکن مجھے نہیں امید کہ انہیں کسی بھی سطح پر قابل غور سمجھا جائے ۔طالب علم کو ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے ،ارباب اختیار بھی سمجھتے ہیں کہ ایسی تحقیق ڈگری کے علاوہ اور کوئی افادیت نہیں حالانکہ اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ تعلیمی تحقیق اور تعلیمی منصوبہ بندی کے اداروں کے مابین ایک مضبوط رابطے کی فضا پیدا کی جائے تاکہ ملک کے اندر ہونے والی تحقیق سے خاطر خواہ استفادہ کیا جا سکے اگر تعلیمی منصوبہ بندی کے ادارے اپنی ضرورت کے مطابق ادارہ ہائے تعلیم و تحقیق کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کی سطح کےسکالرز کو مالی معاونت فراہم کریں تو اس طرح کی گئ تحقیق کے اعتباریت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہوگی اور حاصل ہونے والے نتائج بھی یقینی طور پر قابل عمل ہوں گے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کو بھی اس توجہ دینا ہوگی وہ جو بھی پراجیکٹ شروع کریں اس کی بنیاد تحقیق پر رکھی جائے۔