پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے سود پر مبنی معاشی نظام کو اسلامی شریعت کے برخلاف قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ ملک کے بینکاری نظام کو آئندہ پانچ سالوں میں سود سے پاک کیا جائے اور اب حال ہی میں حکومت پاکستان نے سود سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی آئین کی شق 38 (ف) کے تحت ’ربا‘ کا ’جلد از جلد خاتمہ‘ لازم قرار دیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے ،ربا کا عمومی تصور ایسے سود کا ہے جو کسی قرض کے بدلے حاصل کیا جائے۔ اسے اسلامی بینکاری میں استحصال پر مبنی تصور کیا جاتا ہے بینکوں کے قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔اسلامی سکالرز کے مطابق سود کو سادہ ترین الفاظ میں ’قرض پر حاصل ہونے والا منافع (یا منفعت)‘ کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔اسلامی معیشت کے ماہر ربا یا سود کو ایک استحصالی نظام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بڑھتے ہوئے قرضوں میں پھنسے ہونے کے باعث غریب کو نازک اور غیر یقینی مالی حالات میں دوچار کرتا ہے، جب کہ امیر بغیر کسی اضافی قیمت کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ’امیر اپنے پیسوں سے پیسہ کماتے ہیں اور غریب اپنے پاس موجود پیسے کو استعمال کرنے کے لیے ادا کرتے ہیں، اس طرح امیر اور غریب کے درمیان فرق کو مزید تقویب ملتی ہے۔‘ ”پاکستان میں سود سے پاک نظام کانفاذ-کیا ایسا ممکن ہے؟“ کے موضوع پرگذشتہ دنوں شوریٰ ہمدرد لاہور کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔صدارت اسپیکر شوریٰ ہمدرد لاہورمحترمہ جسٹس(ر)ناصرہ اقبال نے فرمائی ناظم اعلیٰ مرکزی انجمن خدام القرآن پروفیسر عاطف وحید،ماہر معاشیات و سابقہ مشیر اسٹیٹ بنک آف پاکستان محمدمنیراحمد چوہدری بطور خاص شریک ہوئے۔علاوہ ان کے محترم قیوم نظامی ،پروفیسرڈاکٹرمیاں محمداکرم،محترم عمر ظہیر میر،محترم مجیب الرحمن شامی ،ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ،محترم کاشف ادیب جاویدانی،پروفیسر محمد احمد عوان،محترم راشد حجازی،محترم الطاف قمر،برگیڈیئر(ر)ریاض احمد طور،
پروفیسر نصیر اے چوہدری،محترمہ پروین سجل،ڈاکٹر عمران مرتضیٰ،محترم رانا امیر احمد خان،میجر(ر)خالد نصر،پروفیسر خالد محمود عطاء ،محترم وسیم احمد،محترم ثمر جمیل خان،محترمہ عائشہ عمران،اے ایم شکوری و دیگرنے شرکت کی۔اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید و فرقان حمید سے کیا گیاجسکا شرف قاری فاروق اکرم کو نصیب ہوا ۔پروفیسر عاطف وحید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر مذہب میں سود کی مستقل بنیادوں پر ممانعت کی گئی ہے،انسانی سمجھ کے مطابق بھی یہ صرف یہودیت کا نظام ہے ،انہوں نے کہاکہ تاریخ میں دو سوشل سائنٹسٹ گزرے جنہوں نے اس اہم مسئلے کیطرف نشاندہی کروائی۔ایک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ انہوں نے Distribution of Wealthکوعنوان بنایا جسکے تحت اگر دولت کی تقسیم غیر جانبدار ہو جائے گی تو معاشرتی نظام درہم برہم ہو جائے گااور دوسری شخصیت علامہ اقبال ہیں علامہ کا کلام اور شاہ صاحب کاکشف ایک ہی نقطے پر ہے ۔انہوں نے کہا کہ بظاہر خوشنما دیکھائی دینے والا آئی ایم ایف کے مکمل مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ ادارہ تو آسانی پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہماری مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے ہے ، ہمیں اس مسئلہ پر الجھا کر ایسا بے حس کر دیا کہ ہم ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ،انہوں نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بلیغ قول ہے کہ مقروضیت غلامی ہے ،آج ہمارے لیے قرض سے زیادہ قرض پر سود کا مسئلہ وبال جان بنا ہوا ہے ،یوں لگتا ہے کہ میدان گاہ میں ہم شکار ہیں جس پر کچھ شکاری ہم پر مسلط کر دیئے گئے ہیں اورہم مسلسل استعمال کیے جا رہے ہیں ،ہماری رقم بنکوں کے ذریعے اونرز، ڈائریکٹرز چند لوگوں میں منتقل ہورہی ہے ،ٹیکس ریونیو کے نام پر عوام کو نوچا جا رہا ہے،اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ سود کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ کوئی بڑی راکٹ سائنس نہیں جیسا کہ اسلام اور کفرکے درمیان فرق کرنے والا عمل نماز ہے اسی طرح سودی و غیر سودی فرق کرنے والا concept of liability ہے ۔ ہمارا کم ترقی یافتہ ہونا۔پیداواری کمی کا ہونا اور غربت میں اضافہ جیسے مسائل اس فرسودہ نظام کے سبب ہیں ۔ انہوں نے اس بابت فوری فائنانشل ایمرجنسی لگائے جانے پر زور دیا اور کہا کہ یہ قدم اس فرسودہ نظام سے چھٹکارا دلائے جانے کا آغاز ہوگا۔انکا کہنا تھا کہ ہمیں Out of the boxحل کی طرف جانا پڑے گا کیونکہ Within boxآئی ایم ایف سے قرض لینا اور ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ بظاہر ایک ایسا حل ہے جس سے معاشی مسائل میں اضافہ ہو جاتا
ماہر معاشیات محمد منیر احمد نے کہا کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مارکیٹ کی سپلائی سائیٹ کو دیکھناشروع کیا اور یہودی جو خرید و فروخت میں صحیح نہیں تھے تو اس سمت کو درست کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمہ لگایا ، اسمیں مارکیٹ بنائی اور فرمایا کہ تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور انکم پر زکوة ہی سالانہ ٹیکس ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ،اکنامک سسٹم سے بنکنگ سسٹم نکلتا ہے لہذا جب تک ہم اپنا معاشرتی نظام درست نہیں کریں گے اُس وقت تک بینکنگ کا نظام درست نہیں ہو سکتا افسوسناک امر یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم سنجیدگی سے کام نہیں لے رہے ،دوسری طرف ہم اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے اُمید یں لگائے بیٹھے ہیں جو سر سے پاﺅں تک سود میں شرابور ہے ۔اُنکا کہنا تھا کہ دراصل سودی تجارتی بنکوں سے پہلے مرکزی بنک کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ سود کے خاتمے کے لیے دو طبقے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ایک یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس کے پروفیسرز اور دوسرے مذہبی اسکالرز ۔۔۔۔۔۔اس موقع پر انہوں نے مذہبی اسکالرز سے اپیل کی کہ اسلامی تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں ، انہوں نے ریاست مدینہ کی مارکیٹ کو بطور رول ماڈل اپنے معاشرے میں رائج کرنیکی تجویز بھی پیش کی۔