اسلام آباد: ایک نئی سائنسی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ شمالی امریکا کا خطہ ایشیا کے گرمیوں کے مون سون میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جو ایک ارب سے زائد افراد کی زندگیوں کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ مطالعہ عالمی جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوا، جس نے زمین کے ماحولیاتی نظام کی باہمی وابستگی پر نئی روشنی ڈالی ہے۔
تحقیق کے مطابق، شمالی امریکا میں بڑھتی گرمی نہ صرف مقامی ماحول بلکہ ایشیا میں مون سون بارشوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ اثرات انسانوں کی سرگرمیوں سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت اور زمینی سطح میں تبدیلیوں سے مزید شدید ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرے۔یونیورسٹی آف برسٹل اور چینی اکیڈمی آف سائنسز (CAS) کے سائنس دانوں نے ماڈلز کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شمالی امریکا کی تبدیلیاں فضائی نمونوں کو اس طرح متاثر کرتی ہیں کہ جنوبی اور مشرقی ایشیا میں بارشیں شدید تر ہو جاتی ہیں۔ حیران کن طور پر اس اثر کی طاقت مشرقی ایشیائی مون سون پر تبتی سطح مرتفع کے اثر کے تقریباً نصف کے برابر پائی گئی۔
تحقیق سے یہ بھی واضح ہوا کہ شمالی امریکا گرمیوں میں ایک حرارتی مرکز پیدا کرتا ہے، جو بحرالکاہل کے ہائی پریشر نظام کو مضبوط کرتا ہے اور فضائی دباؤ کے نئے بہاؤ ایشیا کی طرف بھیجتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سمندری نمی کا بہاؤ بڑھتا ہے اور جنوبی و مشرقی ایشیا میں بارشیں تیز ہو جاتی ہیں۔

مرکزی مصنف لن لن چن، جو یونیورسٹی آف برسٹل میں فزیکل جغرافیہ کی پی ایچ ڈی طالبہ ہیں، نے کہا:
“ماضی میں ماہرین ہمیشہ ہمالیہ اور تبتی سطح مرتفع کو ایشیائی مون سون کے بڑے محرکات سمجھتے تھے، لیکن اب ہمارے پاس مزید ثبوت ہیں کہ زمین کے ماحولیاتی نظام گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔”اسی دوران، ڈاکٹر ایلکس فارنس ورتھ نے کہا:
“ہم نے ابتدا میں یہ سوچا کہ آسٹریلیا زیادہ اثر ڈالے گا، لیکن ماڈلز نے یہ غیر متوقع حقیقت ظاہر کی کہ شمالی امریکا سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا براعظم ہے۔”پروفیسر پال ویلڈز نے کہا:
“یہ تحقیق بتاتی ہے کہ زمین کے ماحولیاتی نظام کس قدر ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ مقامی تبدیلیاں عالمی اثرات پیدا کر سکتی ہیں، اس لیے ہر شخص اس میں اپنی ذمہ داری کا حامل ہے۔”