ی آئینی ترمیم ۔ ایک جائزہ کے عنوان سے 9نومبر بروز بدھ شوریٰ ہمدرد لاہور کا اجلاس مقامی ہو ٹل شالیمار ٹاور میں منعقد کیا گیا اجلاس میں اسپیکر کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے ادا کیے جبکہ معزز اراکین میں جناب قیوم نظامی جناب ،برگیڈیئر حامد سعید اختر ،جناب ڈاکٹر خالد محمود عطا ،جناب رانا امیر احمد خان، جناب کاشف ادیب جاویدانی، جناب پروفیسرنصیر اے چوہدری ،جناب ثمرجمیل خان ،جناب حکیم راحت نسیم سوہدوری اور مبصرین کے طور پر جناب حکیم عمر توصیف ،جناب راشد حجازی ،محترمہ آمنہ پروین صدیقی ،جناب اے ایم شکوری ،جناب نصیر الحق ہاشمی ،جناب جمیل بھٹی ،جناب انوار قمر، انجینیئرمحمدآصف ، رفاقت حسین رفاقت ،ایم آر شاہد سمیت دیگر نے شرکت کی ماہر قانون صدر لیگل کونسل ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان جناب اشتیاق چوہدری بطور مہمان خاص شریک ہوئے انہوں اپنے خطاب میں بتایا کہ26ویں آئینی ترمیم کے ایک مثبت پہلو پر نظر ڈالی جائے تو آئین کے آرٹیکل 9-اے میں صاف و شفاف ماحول کی ضمانت دی گئی ہے جو زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح آئین کے آرٹیکل 38کی کلاز (ایف)میں سود کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائیگا جبکہ 26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ تنقید آئین کے آرٹیکل 175اے کے بارے میں سامنے آئی ہے جس میں جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد9سے بڑھا کر 13کر دی گئی ہے جس کے ذریعے 2قومی اسمبلی کے ممبر ہوں گے جبکہ 2سینٹ کے ممبر ہوں گے جبکہ ایک غیر مسلم رکن یا خاتون وہ بھی اسپیکر کی صوابدید پر کمیشن کا ممبر بنے گا، اس طرح سیاست دانوں اور انتظامیہ کے ممبران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ 20اکتوبر کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کیاگیا جس کے بعد اس بل کو اگلی صبح 21اکتوبر کو قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت منظور کرلیاگیا، بنیادی مقاصد میں سپریم کورٹ کے ازخود(سوموٹو) اختیارات لینا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنا اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینا شامل ہیں۔ اسکے تحت ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور اس کمیٹی میں مختلف تجاویز پر بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ بل میں اپوزیشن کی جانب سے اختلافات پر مبنی ردعمل دیکھنے میں آیا تنازع کی ایک بڑی وجہ ایک مجوزہ وفاقی آئینی عدالت تھی، اس کی بجائے آئینی بینچ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جسے مسودے میں شامل کر لیا گیا ہے۔جے یو آئی(ف) نے پی پی پی کے ساتھ مسودے پر معاہدہ کیا جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں حتمی مسودے پر ’کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ انہوں نے ووٹنگ کے طریقہ کار کا باضابطہ بائیکاٹ کیاابتدائی مسودے میں مبینہ طور پر 56 ترامیم تجویز کی گئی تھیں تاہم تمام جماعتوں کے درمیان بھرپور غور و خوض کے بعد پارلیمنٹ میں آنے والے حتمی مسودے میں ان کی تعداد کم کر کے 22 کر دی گئی۔
٭ ماہرین واراکین شوریٰ کی جانب سے گذشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں درج ذیل تجاویز پیش کی گئیں:
٭ 26 ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 175 اے کی کلاز تھری کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کو تجویز کیا گیا ہے جو کہ 12 ارکان پر مشتمل ہوگی جن میں سے آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینٹ سے لیے جائیں گے اس ترمیم کی وجہ سے اب سینیئرترین تین ججوں میں حکومتی پارلیمنٹیرین خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوگا کہ جو زیادہ پارلیمنٹیرین کے قریب ہوگا وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فاٸز ہو اگر اس ترمیم کو بدل دیا جائے کہ سینیئر ترین جج ہی چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوگا تو عدلیہ کی
آزادی کے لیے بہتر ہو جائے گا۔٭ آئین کے آرٹیکل 175 اے کی کلاز فور کے مطابق ججز کی کارکردگی جانچنے کے طریقہ کار کا اختیار بھی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے جو کہ عدلیہ کے معاملات میں براہ راست مداخلت ہے ججز کی کارکردگی جانچنے کا معیار فقط سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس رہنا چاہیے ٭ آرٹیکل 191 اے کے تحت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دے دیا گیا ہے جو کہ درست نہیں آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس اور ساتھی ججز کے پاس ہی رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح حکومت من پسند فیصلوں کے لیے خود آئینی بینچ تشکیل نہیں دے سکے گی٭ آئین کے آرٹیکل 193(2) میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے جس کے تحت پہلے جج بننے کی عمر 45 سال مقرر تھی جبکہ اب 40 سال کر دی گئی ہے دنیا بھر میں مسلمہ اصول یہی ہے کہ تمام آئینی عہدوں پر تقرر کے لیے کم از کم عمر 45 سال ہونی چاہیے۔٭ آئین کے آرٹیکل 199 میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے ہائی کورٹ کا از خود نوٹس کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے اسی طرح آرٹیکل 184 میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور سپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کا اختیار اعلی عدلیہ کے پاس رہنا چاہیے تاہم از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی ملنا چاہیے٭ آئین کے آرٹیکل 175اے کا کلاز 18 کے مطابق جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ حکومت میں بیٹھے سیاستدان ججز کو انفلوئنس کر سکیں گے کیونکہ ججز کی سالانہ رپورٹ کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں پارلیمنٹیرین کا حصہ بڑھ چکا ہے ، وزیر قانون ،اٹارنی جنرل کے علاوہ پانچ مزید ارکان اسمبلی و سینٹ سے ارکان کی تعداد ملا کر 7ہو جاتی ہے جبکہ کل تعداد 13 میں سے 7ارکان ہر فیصلے کو منظور کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ججز کو بااختیار کیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کے دبائو سے بالاتر ہوکر فیصلہ کر سکیں۔٭ آئین کے آرٹیکل 175-اے کی کلاز 8کیمطابق ججز کی تعنیاتی میں بھی ارکان پارلیمنٹ کا بنیادی رول سامنے آیا ہے ، حکومتی ارکان /سیاستدان من پسند ججز نامزد کرسکے گی ۔ججز کی سلیکشن کی شفافیت کیلئے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کو بیلنس کیا جائے تاکہ حکومتی ارکان من پسند ججز کی بھرتی نہ کر سکیں ۔٭ شوریٰ ہمدرد قومی اداروں بشمول پارلیمنٹ وعدلیہ کو تجویز کرتی ہے کہ قوم میں بڑھتی ہوئی تفریق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات
کیے جائیں جس کے لیے ہر شعبہ کے ماہرین پر مشتمل غیر جانبدار اور سمجھدار افراد پر مبنی ایک قومی ادارہ تشکیل دے دیا جائے تاکہ اس
تفریق کو ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
From: