Home Uncategorized 2024-25ء اقتصادی سروے، بجٹ اور تعلیم

2024-25ء اقتصادی سروے، بجٹ اور تعلیم

by Ilmiat

اقتصادی سروے 2025-24ء کے مطابق شرح خواندگی 60 فیصد رہی۔ جولائی 2024ء سے مارچ 2025ء کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی کا تناسب 0.8 فیصد خرچ ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے 61.1 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں جن میں 160 سرکاری اور 100 نجی ہیں۔ پاکستان کی شرح 53.8 فیصد رہی۔ ٹرانس جینڈر میں شرح خواندگی 40.15 فیصد ہے۔ اربن علاقوں میں شرح خواندگی 74.09 اور دیہی علاقوں میں 51.5 فیصد ہے۔ پنجاب میں شرح خواندگی سب صوبوں سے زیادہ ہے جو 66.25 ہے۔ سندھ میں 57.54 کے پی کے میں 51.09 اور بلوچستان میں 42.01 ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران تعلیم کے بجٹ کیلئے 12.51 ملین روپے خرچ کئے گئے جبکہ اِس سال 891 ملین روپے خرچ ہوئے۔ مجموعی طور پر تعلیمی بجٹ 361 ملین روپے کم ہوا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر 61 ارب 10کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یونیورسٹی کی سطح پر پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبرز کی شرح 37.97فیصد ہے۔ وزیر اعظم نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی تھی لیکن اِ س کے باوجود تعلیمی شعبے میں 0.8 فیصد خرچ ہوا۔38 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔


ادھر وفاقی بجٹ میں تعلیم کے منصوبوں کیلئے 58 ارب 6 کروڑ 80 لاکھ روپے رکھے گئےہیں۔ ایچ ای سی کی 140 سکیموں کیلئے 39 ارب 48 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم یوتھ سکلز پروگرام کیلئے 4 ارب 30 کروڑروپے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے 31 منصوبوں کیلئے 4.8 ارب روپے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایچ ای سی کی 128 سکیمیں اِس وقت جاری ہیں۔ اِس میں 12 نئی سکیمیں شامل ہیں۔ جاری سکیموں میں افغان طلباء کو 3 ہزار علامہ اقبال سکالرشپ دینے کیلئے 50 کروڑ روپے، شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی، اسلام آباد میں اکیڈمک بلاک کی تعمیر کیلئے 20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی، چارسدہ میں کیمپس کیلئے 25 کروڑ روپے اور نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، راولپنڈی کو اپ گریڈ کرنے کیلئے 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ کامیاب جوان سپورٹس کے قیام اور یوتھ اولمپکس پروگرام کیلئے 61 کروڑ 10 لاکھ روپے، یونیورسٹی آف گلگت، بلتستان سکردو کیلئے 58 کروڑ 80 لاکھ روپے، بنگلہ دیش، ازبکستان اور دیگر دوست ممالک کے طلباء کیلئے علامہ اقبال سکالرشپ کیلئے 5 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن کا نیا کیمپس قائم کرنے کیلئے 10 کروڑ روپے، مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کیمپس اور پتوکی یو وی اے ایس کیمپس کیلئے 15 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ پیشہ ورانہ تربیت کے نئے 2 منصوبوں کیلئے 18 ارب 58 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق جاری 4 منصوبوں کیلئے 18 ارب 28 کروڑ روپے جبکہ نئی سکیموں کیلئے 20 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
وزیر اعظم کے اقدامات کے تحت مختلف صوبوں سےایک ہزار زرعی گرایجویٹس تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجے جا رہے ہیں۔ اُن کی صلاحیتوں کو زرعی شعبے میں استعمال کیا جائے گا۔ جسمانی مسائل سے دو چار طالبعلموں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کیلئےالیکٹرک وہیل چیئرز، خصوصی لیپ ٹاپ اور تدریسی معاونات فراہم کی جائیں گی۔ معذور سرکاری ملازمین کے کنوینس الاؤنس میں 2 ہزار روپے کا اضافہ کر کے 6 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کیلئے 2025-26ء میں 31 جاری سکیموں کیلئے 4.8 ارب روپے پاک کوریا ٹیسٹنگ فسیلیٹی کے قیام کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ اِس میں پوری سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ پسماندہ علاقوں میں 11 دانش سکولز اور دانش یونیورسٹی کیلئے 9.8 ارب روپےرکھے گئے ہیں۔ تعلیم پر مرکوز اضافی منصوبوں میں ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن کے مراکز کا قیام، کمپیوٹرائزیشن اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایکسیلیس کا قیام شامل ہے۔ اِن کا مقصد تعلیم تک رسائی ممکن بنانا ہے۔ بچوں کے ڈراپ آؤٹ، شرح کو کم کرنا اور مجموعی تعلیمی معیار کو بڑھانا ہے۔ اِس کے لئے 18.5 ارب روپےمختص کئے گئے ہیں۔


سندھ میں 2022ء کے سیلاب سے متاثرہ سکولوں کیلئے 3ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے یوتھ سکلز پروگرام کیلئے 43 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اِس پروگرام کے تحت 161,500 نوجوانوں کو ہنرسکھائے جائیں گے جس میں 5,600 آئی ٹی، 64,000 کو صنعتی شعبہ جات اور 49,000 کو روائتی شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ 2,500 نوجوانوں کا تعلق فاٹا سے ضم شدہ اضلاع سے ہو گا۔ شہری سندھ کے علاقوں میں 8 آئی ٹی سینٹر بنائے جائیں گے تاکہ مقامی طور پر لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔
حکومت نے مالی سال 2025-26ء میں بینظیر انکم سپورٹس پروگرام کیلئے 716 ارب روپے مختص کئے ہیںاور بجٹ میں 21 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اِس میں تعلیمی وظائف کو مزید وسعت دی جائے گی۔ اِس قسم کے پروگرام ’’کفالت پروگرام‘‘میں رکھے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے پیف سکولوں کی سٹڈی میں 40 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ ادھر حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں7 فیصد اضافہ کیا ہے۔ یہ انتہائی مایوس عمل ہے۔ خاص کر پنشنرز جن کے اخراجات وہ ہی ہوتے ہیں جو ملازمت میں تھے لیکن اب 7 فیصد اضافہ زیادتی ہے اِسے بھی 10 فیصد کر لیا جائے۔ شریکِ حیات کی وفات کے بعد فیملی پنشن 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔اگرچہ سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ ٹیکس میں کچھ ریلیف ملا ہے۔ تنخواہوں میں موجودہ تغاوت کو دور کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپریٹی الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے وقت بھی ملازمین تنخواہوں کے سلسلہ میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ ادھر آج ٹیچرز یونین نے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ مسترد کر دیا ہے۔ ٹیچرز یونین کے راہنماؤں رانا لیاقت اور انوارالحق نے یہ اضافہ مسترد کر دیا ہے۔پنجاب پروفیسرز اور لیکچررز ایسوسی ایشن کی صدر فائزہ اعنا نے بھی تنخواہوں میں اضافہ ناکافی قرار دیا ہے اور پنجاب سبجیکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر رانا عطا محمد نے اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ پنجاب کا بجٹ بھی پیش ہونے والا ہے۔ اندازہ ہے کہ اِ س میں تعلیم کیلئے 110 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
تعلیم قومی ترقی کا سنگِ بنیاد ہے۔ پاکستان ایجوکیشن فریم ورک کے مطابق معیاری تعلیمی نظام کے قیام کیلئے اپنے غیر متزلزل عزم میں مصم ہے۔ ملک کو پڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں 26 ملین سکول سے باہر بچے تعلیم تک رسائی، مساوات، گڈ گورننس اور تعلیمی معیار جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اُن سے نپٹنےکیلئے کافی بجٹ اور معیاری سکولوں کی ضرورت ہے۔

اقتصادی سروے 2025-26ء کے مطابق شرح خواندگی 60 فیصد رہی۔ جولائی 2024ء سے مارچ 2025ء کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی کا تناسب 0.8 فیصد خرچ ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے 61.1 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں جن میں 160 سرکاری اور 100 نجی ہیں۔ پاکستان کی شرح 53.8 فیصد رہی۔ ٹرانس جینڈر میں شرح خواندگی 40.15 فیصد ہے۔ اربن علاقوں میں شرح خواندگی 74.09 اور دیہی علاقوں میں 51.5 فیصد ہے۔ پنجاب میں شرح خواندگی سب صوبوں سے زیادہ ہے جو 66.25 ہے۔ سندھ میں 57.54 کے پی کے میں 51.09 اور بلوچستان میں 42.01 ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران تعلیم کے بجٹ کیلئے 12.51 ملین روپے خرچ کئے گئے جبکہ اِس سال 891 ملین روپے خرچ ہوئے۔ مجموعی طور پر تعلیمی بجٹ 361 ملین روپے کم ہوا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر 61 ارب 10کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یونیورسٹی کی سطح پر پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبرز کی شرح 37.97فیصد ہے۔ وزیر اعظم نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی تھی لیکن اِ س کے باوجود تعلیمی شعبے میں 0.8 فیصد خرچ ہوا۔38 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔
ادھر وفاقی بجٹ میں تعلیم کے منصوبوں کیلئے 58 ارب 6 کروڑ 80 لاکھ روپے رکھے گئےہیں۔ ایچ ای سی کی 140 سکیموں کیلئے 39 ارب 48 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم یوتھ سکلز پروگرام کیلئے 4 ارب 30 کروڑروپے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے 31 منصوبوں کیلئے 4.8 ارب روپے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایچ ای سی کی 128 سکیمیں اِس وقت جاری ہیں۔ اِس میں 12 نئی سکیمیں شامل ہیں۔ جاری سکیموں میں افغان طلباء کو 3 ہزار علامہ اقبال سکالرشپ دینے کیلئے 50 کروڑ روپے، شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی، اسلام آباد میں اکیڈمک بلاک کی تعمیر کیلئے 20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی، چارسدہ میں کیمپس کیلئے 25 کروڑ روپے اور نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، راولپنڈی کو اپ گریڈ کرنے کیلئے 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ کامیاب جوان سپورٹس کے قیام اور یوتھ اولمپکس پروگرام کیلئے 61 کروڑ 10 لاکھ روپے، یونیورسٹی آف گلگت، بلتستان سکردو کیلئے 58 کروڑ 80 لاکھ روپے، بنگلہ دیش، ازبکستان اور دیگر دوست ممالک کے طلباء کیلئے علامہ اقبال سکالرشپ کیلئے 5 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن کا نیا کیمپس قائم کرنے کیلئے 10 کروڑ روپے، مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کیمپس اور پتوکی یو وی اے ایس کیمپس کیلئے 15 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ پیشہ ورانہ تربیت کے نئے 2 منصوبوں کیلئے 18 ارب 58 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق جاری 4 منصوبوں کیلئے 18 ارب 28 کروڑ روپے جبکہ نئی سکیموں کیلئے 20 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
وزیر اعظم کے اقدامات کے تحت مختلف صوبوں سےایک ہزار زرعی گرایجویٹس تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجے جا رہے ہیں۔ اُن کی صلاحیتوں کو زرعی شعبے میں استعمال کیا جائے گا۔ جسمانی مسائل سے دو چار طالبعلموں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کیلئےالیکٹرک وہیل چیئرز، خصوصی لیپ ٹاپ اور تدریسی معاونات فراہم کی جائیں گی۔ معذور سرکاری ملازمین کے کنوینس الاؤنس میں 2 ہزار روپے کا اضافہ کر کے 6 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کیلئے 2025-26ء میں 31 جاری سکیموں کیلئے 4.8 ارب روپے پاک کوریا ٹیسٹنگ فسیلیٹی کے قیام کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ اِس میں پوری سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ پسماندہ علاقوں میں 11 دانش سکولز اور دانش یونیورسٹی کیلئے 9.8 ارب روپےرکھے گئے ہیں۔ تعلیم پر مرکوز اضافی منصوبوں میں ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن کے مراکز کا قیام، کمپیوٹرائزیشن اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایکسیلیس کا قیام شامل ہے۔ اِن کا مقصد تعلیم تک رسائی ممکن بنانا ہے۔ بچوں کے ڈراپ آؤٹ، شرح کو کم کرنا اور مجموعی تعلیمی معیار کو بڑھانا ہے۔ اِس کے لئے 18.5 ارب روپےمختص کئے گئے ہیں۔
سندھ میں 2022ء کے سیلاب سے متاثرہ سکولوں کیلئے 3ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے یوتھ سکلز پروگرام کیلئے 43 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اِس پروگرام کے تحت 161,500 نوجوانوں کو ہنرسکھائے جائیں گے جس میں 5,600 آئی ٹی، 64,000 کو صنعتی شعبہ جات اور 49,000 کو روائتی شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ 2,500 نوجوانوں کا تعلق فاٹا سے ضم شدہ اضلاع سے ہو گا۔ شہری سندھ کے علاقوں میں 8 آئی ٹی سینٹر بنائے جائیں گے تاکہ مقامی طور پر لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔

تحریر ملک محمد شریف؛


حکومت نے مالی سال 2025-26ء میں بینظیر انکم سپورٹس پروگرام کیلئے 716 ارب روپے مختص کئے ہیںاور بجٹ میں 21 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اِس میں تعلیمی وظائف کو مزید وسعت دی جائے گی۔ اِس قسم کے پروگرام ’’کفالت پروگرام‘‘میں رکھے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے پیف سکولوں کی سٹڈی میں 40 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ ادھر حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں7 فیصد اضافہ کیا ہے۔ یہ انتہائی مایوس عمل ہے۔ خاص کر پنشنرز جن کے اخراجات وہ ہی ہوتے ہیں جو ملازمت میں تھے لیکن اب 7 فیصد اضافہ زیادتی ہے اِسے بھی 10 فیصد کر لیا جائے۔ شریکِ حیات کی وفات کے بعد فیملی پنشن 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔اگرچہ سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ ٹیکس میں کچھ ریلیف ملا ہے۔ تنخواہوں میں موجودہ تغاوت کو دور کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپریٹی الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے وقت بھی ملازمین تنخواہوں کے سلسلہ میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ ادھر آج ٹیچرز یونین نے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ مسترد کر دیا ہے۔ ٹیچرز یونین کے راہنماؤں رانا لیاقت اور انوارالحق نے یہ اضافہ مسترد کر دیا ہے۔پنجاب پروفیسرز اور لیکچررز ایسوسی ایشن کی صدر فائزہ اعنا نے بھی تنخواہوں میں اضافہ ناکافی قرار دیا ہے اور پنجاب سبجیکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر رانا عطا محمد نے اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ پنجاب کا بجٹ بھی پیش ہونے والا ہے۔ اندازہ ہے کہ اِ س میں تعلیم کیلئے 110 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
تعلیم قومی ترقی کا سنگِ بنیاد ہے۔ پاکستان ایجوکیشن فریم ورک کے مطابق معیاری تعلیمی نظام کے قیام کیلئے اپنے غیر متزلزل عزم میں مصم ہے۔ ملک کو پڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں 26 ملین سکول سے باہر بچے تعلیم تک رسائی، مساوات، گڈ گورننس اور تعلیمی معیار جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اُن سے نپٹنےکیلئے کافی بجٹ اور معیاری سکولوں کی ضرورت ہے۔

You may also like

Leave a Comment