ہمدرد شوریٰ لاہور کا ماہانہ اجلاس محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں اسپیکر کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے انجام دیے، جب کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسیز کے ڈین، جناب ڈاکٹر نوید الٰہی، بطور مہمانِ خصوصی شریک ہوئے۔اس موقع پر معزز شرکاء میں محترمہ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم، جناب قیوم نظامی، پروفیسر خالد محمود عطا، جناب ثمر جمیل خان، پروفیسر نصیر اے چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری، ڈاکٹر جاوید یونس اوپل، برگیڈیئر ریاض احمد طور، برگیڈیئر محمد سلیم، ڈاکٹر عمران مرتضیٰ، کاشف ادیب جاودانی، رانا امیر احمد خان، اصغر علی کھوکھر، اعجاز احمد اعجاز، علی رضا، علی اصغر عباس، ناصر بشیر، پروفیسر ڈاکٹر مہر محمد سعید اختر، طبیب چوہدری محمد عمر توصیف، ڈاکٹر پروین خان، بیگم ڈاکٹر جاوید اوپل، پروفیسر ڈاکٹر مشکور اے صدیقی، محمد فاروق اکرم، ایم آر شاہد، رفاقت حسین رفاقت، پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری، محمد نصیرالحق ہاشمی، ڈاکٹر یاسر معراج سمیت دیگر علمی و فکری شخصیات شریک ہوئیں۔اجلاس کا آغاز قاری خالد محمود کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان محترمہ سعدیہ راشد کا پیغام اسپیکر نے حاضرین کو سنایا۔ جناب ڈاکٹر نوید الٰہی نے بتایا کہ آج کا موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس قسم کے موضوعات پر مباحثے ہونے چاہئیں۔ ملک میں اس حوالے سے پہلی پالیسی قیام پاکستان کے پچاس سال بعد 2001ء میں بنائی گئی اور ابھی حال ہی دوسری پالیسی پہلی پالیسی کے پچیس سال بعد 2025ء میں بنائی گئی ہے جو کہ تیار ہو چکی ہے اور جلد ہی کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کی جائے گی۔ہمدرد شوری میں اس حوالے ماہرین کی آراء ایک ایسے وقت میں اہمیت اختیار کر چکی ہیں کہ جب یہ پالیسی منظور ہونے جا رہی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسیز حکومت پاکستان کا تھنک ٹینک ہے جو حکومت کو مختلف پالیسیوں میں معاونت فراہم کرتا ہے۔آج کے موضوع کی مناسبت اور اس کی اہمیت کے پیش نظر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسیز کے زیر اہتمام بھی جلد ہی ایک ایسی ہی فکری نشست کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ حکومت کو بروقت سفارشات فراہم کی جا سکیں۔آج ملک میں آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ اور بڑھتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں مسائل کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ آج کی اس نشست میں ماہرین جو تجاویز پیش کریں گے۔وہ زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہو گی کیونکہ آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، ہم سبھی کو اس کا بخوبی ادراک ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اس میں سرفہرست ہے، جسے مد نظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ آج برساتی پانی کی قدرتی گزر گاہوں پر بھی آبادیاں بن چکی ہیں جس کے باعث برسات کے موسم میں جب پانی سیلابی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے راستے میں موجود رکاوٹوں کو بڑی طرح کچلتا ہوا گزرتا ہے جو بڑی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
دوسرا سیوریج سسٹم ناقص ہے جو آبادی کی ضرورت کے مطابق نکاسی آب کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے اسی وجہ سے بارش کے دنوں میں نکاسی آب کے مسائل شدت اختیار کر جاتے ہیں اور ایک بڑی وجہ دیہی علاقوں میں سہولتوں کا فقدان ہے جس کے باعث شہروں میں آبادی کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں ان سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی، اس سلسلے میں اجتماعی رہائش گاہیں بنانے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ معیاری اور پبلک ٹرانسپورٹ بڑھانی ہو گی تاکہ کاربن کا اخراج کم سے کم کیا جائے، شجرکاری کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت جو پالیسی منظور کرنے جا رہی ہے، اسے مشتہر کر کے عوامی تجاویز حاصل کی جائیں تاکہ پالیسی میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔ڈپٹی اسپیکر جناب قیوم نظامی نے اپنے خطاب میں ہمدرد فاؤنڈیشن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ شہیدِ پاکستان، حکیم محمد سعید کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے ملک بھر میں ہر ماہ فکری نشستوں کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں شہروں کی وسعت بڑھ رہی ہے، مگر معیارِ زندگی تنزلی کا شکار ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، پانی و صفائی کے مسائل، بڑھتی ہوئی کچی آبادیاں، ٹریفک کا دباؤ، غیر منصوبہ بند تعمیرات اور تجاوزات — یہ سب ناقص منصوبہ بندی اور بیڈ گورننس کا شاخسانہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکیمیں اکثر اشرافیہ کے مفادات کی نذر ہو جاتی ہیں، جب کہ عام شہری نہ تو سستی رہائش حاصل کر پاتا ہے، نہ صاف پانی، معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ مسائل صرف حکومت کی نہیں، بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ہمیں محض تنقید کے بجائے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نیک نیتی اور دیانتداری سے آئینی فرائض ادا کرے، اور عوام بھی ریاست کے ذمہ دار شہری بن کر اپنے فرائض انجام دیں — ٹیکس ادا کریں، قانون کا احترام کریں اور اصلاحات میں حکومت سے تعاون کریں۔
اجلاس کے دوران مختلف تجاویز پیش کی گئیں، جن میں نمایاں نکات یہ تھے:
٭ a ختیار مقامی حکومتوں کا قیام اور انہیں آئینی تحفظ دینا، تاکہ 90 روز میں بلدیاتی انتخابات یقینی بنائے جا سکیں٭ پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، عدلیہ کی آزادی اور میرٹ پر مبنی نظام کا قیام۔٭ شفاف، یکساں اور بے لاگ احتساب کی فوری ضرورت، تاکہ کرپشن پر قابو پا کر عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ ٭ حکومتی سطح پر قابل عمل تجاویز شہری منصوبہ بندی کے اداروں کی اصلاح اور شفافیت کے لئے ماسٹر پلان کی تیاری اور اس پر سختی سے عمل درآمد تمام ترقیاتی منصوبے جغرافیائی اور ماحولیاتی اور سماجی اثرات کے تجزیے کے بعد منظور ہوں ٭ ڈیجیٹل اپروول سسٹم کرپشن کے خاتمے کے لئے ضروری ہے زمین کے غیر قانونی استعمال اور قبضہ مافیا کا خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ سسٹم کے ذریعے زمین کے ریکارڈ کو آن لائن کرنا بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی پر فوری جرمانے اور لائسنس منسوخ کرنا سستے مکانات اور عمودی تعمیرات کے لئے ہائی رائز اپارٹمنٹس پرائیویٹ سیکٹرز کو ٹیکس ریلیف دے کر سبسڈی پر پر رہائشی منصوبے کم آمدنی والے طبقے کے لئے مثال قرض حسنہ سکیم شہری نقل و حمل کا بہتر نظام کے لئے موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ سائیکل واک ویسٹ کے لیے الگ ٹریکس کا قیام اسی طرح ماحولیاتی اور گرین سپیس پالیسی ہر رہائشی سکیم میں 20 فیصد گرین ایریا لازمی قرار دینا جس کے لئے شجرکاری اور ماحولیاتی زونز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ رہائش اور ماحولیاتی توازن برقرار رہے عوامی سطح پر اقدامات قانونی تعمیرات کی پابندی کے لیے بلڈنگ پلان منظور کیے بغیر تعمیر نہ کرنا رہائشی علاقوں کو تجارتی مقاصد کے لیے ہرگز استعمال نہ کرنا مشترکہ رہائش کا رجحان بڑھانے کے لئے اپارٹمنٹ کلچر کو اپنانا بجائے غیر ضروری زمین کے پھیلاؤ کیا جائے مشترکہ سہولتوں کے لیے پارکنگ گرین ایریاز کا استعمال شہری صفائی اور وسائل کا خیال رکھنے کے لئے کوڑا کرکٹ اور نکاسی آب کے نظام میں تعاون کریں پانی اور بجلی کے غیر ضروری استعمال سے گریز کیا جائے مشترکہ حکمت عملی جو عوام اور حکومت کو کرنا ہے ان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرز شپ کم لاگت رہائشی منصوبے مشترکہ سرمایہ کاری سے کیے جا سکتے ہیں اس کے لیے آگاہی مہمات شروع کی جائیں جن میں میڈیا سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے شہری منصوبہ بندی کی اہمیت پر آگاہی غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیم سے بچاؤ کے لیے عوام کو تعلیم دینا ضروری ہے ٹیکنالوجی کا استعمال اس انداز سے کیا جائے کہ ڈیجیٹل ہاؤسنگ پورٹل جہاں شہری اپنی رہائشی ضروریات اور قانونی تصدیق کر سکیں سمارٹ سٹی سولیوشنز اور ٹریفک مینجمنٹ ایپس کا استعمال عمل میں لایا جائے٭ شہری منصوبہ بندی کے اداروں میں اصلاحات اور شفافیت یقینی بنائی جائے۔٭ جدید ماسٹر پلان مرتب کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد ہو۔٭ تمام ترقیاتی منصوبے صرف ماحولیاتی، سماجی اور جغرافیائی اثرات کے تجزیے کے بعد منظور ہوں۔٭ ڈیجیٹل ہاؤسنگ پورٹل کے ذریعے رہائشی منصوبوں کی قانونی تصدیق کو ممکن بنایا جائے۔٭ ڈیجیٹل اپروول سسٹم کے ذریعے کرپشن اور تاخیر کا خاتمہ کیا جائے۔٭ زمین اور بلڈنگ کے قوانین کے لئے لازمی ہو کہ زمین کے ریکارڈ کو آن لائن کر کے غیر قانونی قبضوں کا خاتمہ کیا جائے۔٭ بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی پر فوری جرمانے اور لائسنس منسوخ کیے جائیں۔٭ رہائشی علاقوں کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر مکمل پابندی ہو۔٭ تعمیرات کی منظوری کے بغیر کوئی بھی عمارت تعمیر نہ کی جائے۔٭ ہائش و عمودی تعمیرات کے لیے ہائی رائز اپارٹمنٹس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔٭ پرائیویٹ سیکٹرز کو ٹیکس ریلیف اور سبسڈی فراہم کر کے سستے رہائشی منصوبے شروع کیے جائیں۔٭ کم آمدنی والے طبقے کے لیے قرضِ حسنہ اسکیمیں متعارف کرائی جائیں۔٭ مشترکہ رہائش (اپارٹمنٹ کلچر) کو فروغ دیا جائے تاکہ شہری زمین کا پھیلاؤ کم ہو۔ ٭ شہری نقل و حمل کے لیینان موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ جیسے سائیکل، واک ویز کے لیے علیحدہ ٹریکس بنائے جائیں۔٭ ٹریفک مینجمنٹ ایپس اور اسمارٹ سٹی سولیوشنز کا استعمال کیا جائے۔٭ ماحولیاتی توازن اور گرین ایریاز کے لیے ضروری ہے کہ ہر رہائشی اسکیم میں کم از کم 20 فیصد گرین ایریا لازمی قرار دیا جائے۔٭ شجرکاری مہمات، ماحولیاتی زونز اور پارک قائم کیے جائیں۔