سیالکوٹ کے تعلیمی اور سماجی حلقوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین سیالکوٹ میں جشن بہاراں کے موقع پر طالبات کی موجود گی میں مرد اہلکاروں اور افسران کی جانب سے رقص کرنےاور اس رقص کی وڈیو وائرل ہونےکے عمل کوانتہائی غیر مناسب اور قابل مذمت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے تعلیمی ادارے عزت و وقار کی علامت ہوتے ہیں، اور والدین اپنی بچیوں کو ان اداروں میں اس اعتماد کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ انہیں ایک محفوظ اور تعلیمی ماحول میسر ہوگا۔ مگر مردوں کا ڈانس دیکھ کر یوں لگتا کہ یہ درسگاہ ۔ نہیںبلکہ رقص گاہ ہے۔ان ڈانس کے رسیا اور شوقین افراد نے تعلمی ادارے کے تقدس کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔

والدین خواتین تعلیمی اداروں میں اپنی بچیوں کو اس لیےبھی داخل کراتے ہیں کیونکہ وہ مخلوط تعلیمی اداروں میں ان کا داخلہ نہیں کرانا چاہتے۔ لیکن اس کے باوجود، ان افسران اور اہلکاروں نے جو رقص کیا ہے، یہ کسی بھی خواتین کے تعلیمی ادارے کے شایان شان نہیں۔ یہ افراد اتنی بھی سمجھ نہیں رکھتے جتنی ایک پرائمری اسکول کے استاد کو ہوتی ہے، جو اپنے ادارے کے وقار اور عزت کا بھرپور خیال رکھتا ہے۔ یہ لوگ اس قابل ہیں کہ انہیں ان اداروں سے فوری طور پر فارغ کر دیا جائے۔
حالیہ وائرل ویڈیوز، جن میں افسران کو غیر مناسب حرکات کرتے دیکھا گیا، طالبات کے شدید احتجاج کا سبب بنی ہیں اور شہری حلقوں میں یونیورسٹی میں پائی جانے والی بدانتظامی پر سخت تشویش پائی جاتی ہےان کا کہنا ہے کہ یہ یونیورسٹی سٹاف ،ادارے کوعالمی رینکنگ میں تو کوئی مقا م نہین دلا سکا مگر ڈانس پرفارمنس میں اعلی مقام دلا دیا ہے۔ ۔یہ امر قابل زکر ہے کہ 23 فروری کو پنجاب یونیورسٹی کےجلسہ تقسیم اسناد کے موقع مخلوط تعلیم کی یونیورسٹی ہونے کے باوجود کس قدر احتیاط بھرتی گئی اس کا اندازا اس موقع پر جاری کی گئی پریس ریلیز کے خصوصی نوٹ سے ہوتا ہے۔

(ضروری نوٹ): ”پنجاب یونیورسٹی کے134ویں جلسہ عطائے اسناد کی کوریج کیلئے آنے والے تمام ایجوکیشن رپورٹرزسے التماس ہے کہ وہ صبح 10:15 تک تشریف لے آئیں کیونکہ سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر فیصل آڈیٹوریم کے تمام دروازے صبح 10:30 تک بند کر دیئے جائیں گے۔الیکٹرانک میڈیا کے کیمرہ مین سے گزارش ہے کہ لمبی XLR کیبل لے کر آئیں کیونکہ کیمرے سٹیج سے 100 فٹ دور لگائے جائیں گے۔ جبکہ پرنٹ میڈیا کے رپورٹرزو فوٹوگرافرز کو مطلع کیا جا تا ہے کہ انہیں تصاویرشعبہ تعلقات عامہ جلسۂ عطائے اسنادختم ہونے کے بعدارسال کر دے “۔
اس حساس پہلو کے حوالے سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین سیالکوٹ کی انتظامیہ کو کتنا شعورہے ، اس کا اظہار ان حرکات سے ہو تا ہے کہ نتائج سے کی سنگینی سے بے پرواہ ہو کر بڑے دھڑلے سے فلم بندی کرا رہے ہیں اور طالبات بھی کیمرے کے فوکس میں آرہی ہیں۔گھوڑوں کی موجودگی سے یوں لگتا ہے کہ یہ یونیورسٹی کی تقریب کی بجائے کوئی میلہ مویشیاں ہور ہا ہے ۔تدریسی فیس کے پیسے گھوڑے نچانے پر خرچ کئے جا رہے ہیں
۔ شہریوں حلقوں نے گورنر پنجاب/ چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین سیالکوٹ سردار سلیم حیدر خان ،وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف،وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات، ، اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائیں اور اس میں ملوث افراد کے خلاف حسب ضابطہ کاروائی عمل میں لائی جائے۔