…کشمیر ہماری لائف لائن ہے۔پاکستان میں پانی کے ذخائر کا بیشتر انحصار مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر ہے جو پنجاب میں بہتے ہیں بھارت کا پنجاب اپنے ملک کی 20فیصد غذائی ضروریات جبکہ ہمارا پنجاب 70 فیصد کا زمہ دار ہے۔ زراعت پر انحصار کے سبب پانی دونوں ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم 1960کی طرح ایک بار پھر مذاکرات کی طرف آ ئیں۔مگر 1960 کی نسبت آج کے حالات میں بہت تبدیلی آ چکی ہے اور آج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1960کے فارمولا پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔
ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ پنجاب سردار محسن خان لغاری نے آج گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں طلبہ سوسائٹی کے زیر اہتمام ” مسئلہ کشمیر اور مستقبل میں پانی پر ہونے والے تنازعوں ”کے عنوان سے دوسری آل پاکستان سمٹ سے خطاب کے دوران کیا۔ سمٹ کے دیگر مقررین میں سابق سفیرشمشاد احمد خان، بیکن ہاؤس یونیورسٹی ملتان کے سابقہ وائس چانسلر اور منہاج یونیورسٹی کے موجودہ ڈین،کنیئرڈکالج کی پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی چیئر پرسن ڈاکٹر اسما حامد، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے چیئر پرسن ڈاکٹر محبوب حسین، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ہیڈ محمد شعیب پرویز، ہجویری یونیورسٹی کے ظفر اقبال سندھو، سکول آف پیس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عدیل عرفان اور کشمیرسوسائٹی کے طلبہ و طالبات نے شرکت کی جبکہ مشال ملک نے کشمیر کی نمائندہ کی حیثیت سے بذریعہ ٹیلی فون طلبہ تک اپنا پیغام پہنچایا۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے بہت سے پہلو ہیں جن میں سے ایک مسئلہ پانی کا تنازعہ بھی ہے۔ پانی کا بحران ایک عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں اس مسئلہ کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے پانی کے موجود ذخائر کے موثر استعمال اور پانی کے زیاں پر کنٹرول کے لیے قوانین ترتیب دئیے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کے تحفظ کے لیے کوئی قانون موجود ہے نا ہمارے صارفین اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی تقسیم کا کوئی فارمولا ہے نا گھریلو پانی کے استعمال کی نگرانی کی جاتی ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے وہ زمین پائپ ڈال کر زمین سے پانی نکال لیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طلبہ عوام میں پانی کے محتاط استعمال سمیت مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور اس کے حل کی ضرورت کو اجاگرکرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ رائے عامہ کی ہمواری کے لیے سوشل میڈیا کا کردار اہم ہے تاہم رائے عامہ کی ہمواری کے لیے مسائل کی اصل رو ح سے آگاہی کے لیے تحقیق اور مطالعہ بھی ضروری ہے۔
شمشاد احمد خان نے مسئلہ کشمیر پرفارن آفس کی ذمہ داریوں اور کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ کو پانی کے تنازعہ سے الگ طور پر دیکھنا بھی ضروری ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کے وقت ہندوستان اور انگلستان کا خیال تھا کہ پاکستان اپنی آزاد حیثیت میں دو ماہ سے زیادہ قائم نہیں رہ پائے گااور بالآخر واپس ہندوستان کا حصہ بن جائے گا۔اس لیے پاکستان کو وسائل کی منتقلی میں تعصب سے کام لیا گیا۔پاکستان اور ہندوستان اگرچہ دو الگ جسم تھے لیکن ان کے دل اور دماغ مربوط تھے۔ سلامتی کونسل میں 75سال سے صرف دو مسئلے زیر بحث ہیں ایک فلسطین اور دوسرا مسئلہ کشمیر۔ عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کو کمیونزم اور اسلام دشمنوں کو مسلمانوں کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔
کشمیر ہماری لائف لائن ہے۔پاکستان میں پانی کے ذخائر کا بیشتر انحصار مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر ہے جو پنجاب میں بہتے ہیں ………بھارت کا پنجاب اپنے ملک کی 20فیصد غذائی ضروریات جبکہ ہمارا پنجاب 70 فیصد کا زمہ دار ہے……….وزیر خزانہ پنجاب سردار محسن خان لغاری
38