Home Uncategorized نظریاتی بحث کے فروغ میں جامعات کا کلیدی کردا رہے،بات میں دلیل اور الفاظ میں شائستگی ہونی چاہیے، زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔…… پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود

نظریاتی بحث کے فروغ میں جامعات کا کلیدی کردا رہے،بات میں دلیل اور الفاظ میں شائستگی ہونی چاہیے، زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔…… پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود

by Ilmiat

پنجاب یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا ہے کہ نظریاتی بحث کے فروغ میں جامعات کا کلیدی کردا رہے،بات میں دلیل اور الفاظ میں شائستگی ہونی چاہیے، زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔وہ پنجاب یونیورسٹی سنٹر فار سویلیٹی اینڈ اینٹی گریٹی ڈویلپمنٹ کے زیر اہتمام پنجاب سنٹر آف ایکسیلینس آن کاؤنٹر وائلنٹ ایکسٹریمزم کے اشتراک سے ’تشدد پر مبنی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا: معاشرے میں شائستگی اور دیانت داری کو مضبوط بنانا‘ کے موضوع پر الرازی ہال میں منعقدہ پالیسی سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر سیکریٹری داخلہ پنجاب ڈاکٹر احمد جاویدقاضی،چیئرمین مرکزرویت ہلال کمیٹی مولانہ سید عبدالخبیر آزاد،دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر)غلام مصطفی،سابق وزیر قانون احمر بلال صوفی ڈائریکٹر سی سی آئی ڈی ڈاکٹر شبیر احمد خان، سکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر تحمینہ اسلم رانجھا، میڈیا کنسلٹنٹ منصور اعظم قاضی، فیکلٹی ممبران اور طلباؤطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ انسان نے معاشرے میں کیسے رہنا ہے، نظم و نسق کیسے چلانا ہے، ان سب پر بات کرنے کے لئے جامعہ ہی بہترین جگہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں رواداری، برداشت، سچ، محبت اور اخلاقیات کے فروغ کیلئے کام کررہے ہیں۔ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن، رواداری اوربرداشت کے کلچر کو فروغ دینے اورانتہاپسندی کے خاتمے کیلئے مسلم و غیر مسلم کو قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اس بات کا ادراک کرناہوگاکہ پاکستان کا باقی رہنا ہر بات سے زیادہ اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ طلباؤطالبات پیغام پاکستان کو پڑھیں اور مثبت سوچ کو پھیلانے کیلئے کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ کتاب بہترین ساتھی ہے جو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تشدد، ناانصافی اور انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے اپنے گھر سے آغاز کریں۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جنگ اور کھیل کے میدانوں میں سرخرو کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینا ہے اور دوسروں کے لئے آسا نیاں پیدا کرنی ہیں۔مولانہ سید عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ امن کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پرعمل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی دل آزاری کا باعث نہیں بنناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ قوم یکجا ہوئی تو بنیان المرصو ص میں دشمن کو شکست فاش دی۔ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہاکہ آج ہم ایک دوسرے کی بات کوسُن رہے ہیں مگر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علم اورانفارمیشن میں فرق ہے،مگرآج کی نسل کی ذہن سازی سوشل میڈیا کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دورِ جدید میں نوجوان موبائل کے قیدی بن چکے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کونصیحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ترقی اور امن کے لئے منفی ذہنیت والے افراد سے بچنا ہے۔احمر بلال صوفی نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس میں قرآن کریم کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی معاہدہ کرکے اس کی پاسداری لازمی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طلباؤطالبات داخلہ لیتے وقت پر تشد کاروائیوں کا حصہ نہ بننے کی شرائط پر دستخط کرتے ہیں اور ان پر عمل نہ کرکے غلط کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد خان نے کہاکہ جامعات کے فرائض میں علم و تحقیق کی ترویج کے ساتھ افراد کی تربیت اور نشوونما کرنابھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعات ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ماہرین، محققین، صحافی، اساتذہ سمیت ہر شعبے کے لئے افرادی قوت پیدا کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں مرکز ترقی و تہذیب و دیانت کے قیام کا مقصد اعلیٰ اخلاق کے مالک، امانت اور دیانت دار گریجوئیٹس پیدا کرنا ہے۔ڈاکٹر تحمینہ اسلم رانجھا نے کہاکہ افریقہ، ڈنمارک اور مراکش میں خواتین کی شمولیت سے دہشت گردی پر کا خاتمہ کرنے میں مدد ملی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں کئی قربانیاں دی مگر خواتین کی شمولیت کے بغیر امن کا پیغام ادھورا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے خلاف اچھے طریقے سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ منصور اعظم قاضی نے کہا کہ بیانیہ بنانے میں میڈیا کاکردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کروطن عزیر کے مثبت تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے نوجوان طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہاکہ کسی بھی معلومات کی تصدیق کئے بغیر آگے شیئر نہ کریں۔

You may also like

Leave a Comment