Home شاعری غزل

غزل

by Ilmiat

مسز یاسمین صغریٰ
اسسٹنٹ پروفیسر آئی ای آر، پنجاب یونیورسٹی، لاہو


گفتگو میں لہجہ دعاؤں جیسا ہے
بات عام ہو مطلب ثناؤں جیسا ہے
وہ باکمال ہے قدرت کی مہربانی سے
رہے خاموش تو پھر بھی صداؤں جیسا ہے
کوئی بھی مانگ لے امداد خیر خواہی کی
وہ تپتی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسا ہے
کوئی تفریق نہیں، حّوا کی بیٹیوں میں اُسے
وہ ہر ایک کے سر پہ رداؤں جیسا ہے
مقیّد ہو نہیں سکتا وہ اڑتی خوشبوؤں کی طرح
وہ اپنے آپ میں لگتا ہواؤں جیسا ہے
کوئی جو بات ہو منفی وہ بدل دیتا ہے
شفاف ذہن ہے مثبت فضاؤں جیسا ہے
نہیں ہے رعب کوئی اُسکو اپنے رفقاء پر
درویش منش ہے، فقر کی اداؤں جیسا ہے

You may also like

Leave a Comment