Home مضامین …..صوبے کی تیس سے زائد یونیورسٹیاں وائس چانسلروں کے بغیر چل رہی ہیں۔ا,کالجوں کی بڑی تعداد بھی مستقل پرنسپلوں کے بغیر چل رہی ہے…….مریم نواز تعلیمی شعبے پر کب توجہ دیں گی؟……

…..صوبے کی تیس سے زائد یونیورسٹیاں وائس چانسلروں کے بغیر چل رہی ہیں۔ا,کالجوں کی بڑی تعداد بھی مستقل پرنسپلوں کے بغیر چل رہی ہے…….مریم نواز تعلیمی شعبے پر کب توجہ دیں گی؟……

by Ilmiat

 ایک خبر نظر سے گذری اگرچہ اُس میں کچھ نیا تھا مگر یہ جان کر پھر افسوس ہوا کہ پنجاب میں اب بھی ایڈہاک ازم جاری ہے،حالانکہ نئی حکومت قائم ہو چکی ہے اور وزیراعلیٰ مریم نواز تیزی سے امور نمٹانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔خبر کے مطابق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی160 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو وائس چانسلر بنا دیا گیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر فیکلٹی آف میتھیٹکل اینڈ فزیکل سائنسز کی ڈین ہیں۔ سینئر موسٹ ہونے کی وجہ سے انہیں چار ماہ یا مستقل وی سی کی تعیناتی تک وائس چانسلر تعینات کیا گیا ہے،اُن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اسی ادارے سے جب یہ گورنمنٹ کالج ہوتا تھا، فزکس میں ایم ایس سی کرنے کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے ایم فل اور ویانا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکی ہیں،اُن کے عالمی جرائد میں  ڈیڑھ سو سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں اُن کا شمار پاکستان کے چند لیڈنگ اساتذہ میں ہوتا ہے، یہ خبر پڑھ کر اِس لئے بھی خوشی ہوئی کہ خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا لوہا منوا رہی ہیں تاہم جس بات نے مجھے مایوس کیا وہ یہ پہلو تھا کہ ایک بار پھر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو ایک قائم مقام وائس چانسلر دیا گیا ہے۔یہ ادارہ جو ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ اپنی تاریخ رکھتا ہے،کئی برسوں سے ایڈہاک ازم کا شکار ہے،حالانکہ حکومت کی پہلی ترجیح ہی یہی ہونی چاہئے کہ تعلیمی اداروں کو مستقل سربراہ دیئے جائیں۔ یہاں تک لکھا تو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایک سینئر پروفیسر کا فون آ گیا۔اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد انہوں نے پوچھا کیا جنوبی پنجاب کی اس یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر مقرر ہونے کی کوئی خبر ہے۔میں نے کہا ایسی خبریں تو آپ کے پاس ہونی چاہئیں،آپ یونیورسٹی کے باخبر استاد ہیں کہنے لگے نجانے آسیب کا سایہ ہے یا کچھ اور یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلروں  سے محروم کر دی گئی ہیں۔ان کا پورا انتظامی ڈھانچہ برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ اساتذہ میں ڈسپلن رہا ہے اور نہ طالب علموں میں۔ معاشی مسائل علیحدہ اَن یونیورسٹیوں کو گھیرے ہوئے ہیں، وقت پر تنخواہیں ملتی ہیں، نہ یونیورسٹی کے یوٹیلٹی بل ادا ہوتے ہیں۔آپ اس بارے میں کچھ لکھیں،کم از کم وزیراعلیٰ مریم نواز تک تو یہ بات پہنچائیں کہ صوبے کی تیس سے زائد یونیورسٹیاں وائس چانسلروں کے بغیر چل رہی ہیں۔اضافی چارج والے عارضی وائس چانسلرز کوئی بڑا فیصلہ کرتے ہیں اور نہ ہی اُس میں اتنی جرا ئت ہوتی ہے کہ  اساتذہ کی تنظیموں اور ملازمین کی یونین کے سامنے کھڑے ہو سکیں۔

وہ تو اپنے غصے کا اظہار کر کے چلے گئے اور میں کڑھتا رہا، کیونکہ مجھے معلوم ہے پنجاب میں کالجوں کی بڑی تعداد بھی مستقل پرنسپلوں کے بغیر چل رہی ہے۔محکمہ ہائر ایجوکیشن جس کا آئے روز سیکرٹری بدل جاتا ہے، اتنا سا کام بھی نہیں کر سکا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو مستقل سربراہان ہی دے دے۔ حیرانی ہوتی ہے ایسے محکموں کا آخر کام کیا ہے، کئی تعلیمی بورڈ ایسے ہیں جہاں مستقل چیئرمین نہیں۔ لاہور بورڈ جو صوبے کے تمام تعلیمی اداروں کا مرکز کہلاتا ہے بغیر سربراہ کے چلایا جا رہا تھا۔ اُس کا ایڈیشنل چارج ڈی پی آئی عنصر اظہر کے پاس تھا۔نویں جماعت کے امتحان میں نقل کا معاملہ اُٹھا تو انہیں نہ صرف چیئرمین بورڈ بلکہ ڈی پی آئی کالجز کی پوسٹ سے بھی ہٹا کر معطل کر دیا گیا،حالانکہ اتنا بڑا فیصلہ بغیر کسی تحقیق یا ثبوت کے نہیں کیا جاتا۔اب چیئرمین بورڈ کا چارج کمشنر لاہور کے پاس ہے اور یہاں بھی معاملہ ایڈہاک بنیادوں پر چل رہا ہے۔صوبے کے متعدد تعلیمی بورڈ اسی طرح کے انتظامات کی چھتری تلے چلائے جا رہے ہیں۔سکول ایجوکیشن محکمے کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں، گویا پنجاب میں تعلیمی شعبے کا بُرا حال ہے، مگر ابھی تک کسی کے پاس اس کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔کہا جاتا ہے کہ وائس چانسلروں کی پوسٹیں اس لئے خالی ہیں کہ اُن پر تقرری حکومت کے لئے امتحان بن جاتی ہے۔وائس چانسلروں کے پاس اتنے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں کہ جتنے کسی وائسرائے یا بادشاہ کے پاس ہوتے ہیں، پھر ایک بار انہیں چار سال کے لئے تعینات کر دیا جائے تو گویا انہیں آئینی تحفظ مل جاتا ہے وہ اس عرصے میں جو چاہے کریں۔یونیورسٹی کو برباد کر دیں یا سنوار دیں،اُن سے کسی کو پوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے اس سارے عمل میں شفافیت نہیں۔

پچھلے ادوار میں جب وائس چانسلروں کی تقرری کے جھگڑے اعلیٰ عدالتوں میں گئے تو یہ اصول طے ہوا،ایک سرچ کمیٹی بنائی جائے گی جو دیئے گئے معیار کے مطابق وائس چانسلروں کے ناموں کی سفارش کرے گی۔ایک دو بار تو یہ سلسلہ  ٹھیک طریقے سے چلا پھر یہ شکایات پیدا ہوئیں کہ سرچ کمیٹی کے ارکان بھی میرٹ کی بجائے دباؤ،سفارش یا ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان سرچ کمیٹیوں میں چونکہ سینئر ریٹائرڈ وائس چانسلرز اور اساتذہ شامل ہوتے تھے،اِس لئے وہ اپنے من پسند اساتذہ کو منتخب کرتے رہے تاکہ اُن کی یونیورسٹیوں پر گرفت رہے۔ صرف عام یونیورسٹیاں نہیں بلکہ میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی پنجاب میں مستقل وائس چانسلروں کے بغیر چل رہی ہیں اس سے کتنا بڑا انتظامی خلاء پیدا ہوتا ہے،اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ کیا وزیراعلیٰ مریم نواز اِس اہم مسئلے کی طرف توجہ دیں گی؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ہر شعبے پر دھیان دیا ہے،مگر تعلیم کا شعبہ اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔انہیں پہلی فرصت میں اعلیٰ سطحی اجلاس بُلا کر پنجاب میں کالجوں، یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈز کے سربراہوں کی تقرری کے لئے ایک شفاف اور فول پروف نظام وضع کرنا چاہئے جس میں طے شدہ میرٹ سے ہٹ کر تقرری کی گنجائش ہی نہ رہے تاہم صرف اِس لئے اہم تعلیمی اداروں میں سربراہوں کی تقرری نہ کرنا کہ سیاسی دباؤ آ سکتا ہے کہ ایک انتظامی کمزوری ہے، جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ پاکستان

You may also like

Leave a Comment