Home مضامین سرکاری یونیورسٹیوں سے بد انتظامی کا خاتمہ۔۔۔یونیورسٹیوں کی عوام میں پزیرائی کی اولین شرط

سرکاری یونیورسٹیوں سے بد انتظامی کا خاتمہ۔۔۔یونیورسٹیوں کی عوام میں پزیرائی کی اولین شرط

by Ilmiat

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا اور اخبارات میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر قاسم کی صدارت میں ایک اہم اجلاس کی خبریں پڑھنے کو ملی۔ جس میں صوبہ پنجاب کی اہم سر سرکاری یونیورسٹیوں ورسٹیوں کے پبلک ریلیشنز افیسرز شریک ہوئے۔ خبر کے مطابق سرکاری یونیورسٹیوں کے عوام میں امیج کو بہتر بنانے کے حوالے سے سوچ بچار کیا گیا اور اور اس حوالے سے اقدامات عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔جسکے تحت میں افسران تعلقات عامہ اور وائس چانسلر ز کا ایک مشترکہ اجلاس پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام مستقبل قریب میں منعقد ہوگا۔ اجلاس میں ڈاکٹر اکمل سومرو، ہوم اکنامکس یونیورسٹی لاہور، ڈاکٹر خرم شہزاد، پنجاب یونیورسٹی، محمد عثمان یونیورسٹی آ ف سرگودہا،ڈاکٹر شہزاد احمد خالد،اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور، مصدق سہروردی،جی سی یونیورسٹی لاہور،محترمہ نائمہ بھٹی گورنمعٹ صادق کالج یونیورسٹی بہاول پور،اور ڈاکٹر بریرہ بختاور لاہور کالج یونیورسٹی لاہور نے شرکت کی۔یہ اجلاس اس حوالے سے بڑی اہمیت کاحامل کا کہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سطح پر شعبہ تعلقات عامہ کی اہمیت کو کو تسلیم کیا گیا ہے اورایک اعلی سطحٰ اجلاس طلب کرکے مشاورت کا اہتمام کیا گیا ہے۔جس کے لئے چیئر مین پی ایچ ای سی پروفیسر ڈاکٹرشاہد منیر اور ڈائر یکٹڑ ڈاکٹڑتنویر قاسم قابل ستائش ہیں۔


جہاں تک پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کا تعلق ہے۔ یہ ادارے اپنی بساط کے مطابق کافی حد تک ہائر ایجوکیشن کے شعبہ میں اور اس کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ دونوں صاحبان پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر اور پروفیسر ڈاکٹر مختاراحمد یک ویژن رکھتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور ان کو تعلیمی اداروں کے مسائل اور ان کی ترقی اور یونیورسٹیوں کے قوموں کی ترقی میں کردار کا مکمل ادراک حاصل ہے۔ مگر جس طرح ہمارا معاشرہ تنزلی، اور معاشی بدحالی کے اثرات کا شکار ہے ۔اس طرح یونیورسٹیاں بھی اسی معاشرے میں اسی ملک میں کام کر رہی ہیں اور انہی مسائل سے دوچار ہیں، جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی اصلاحات کی بات کی جاتی ہے یا یونیورسٹیوں کو بہتر بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ تو سب سے پہلے معاشی وسائل کے فقدان کی کا سوال اٹھتا ہے۔ بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے بلکہ عیاں حقیقت ہے کہ اداروں کو معاشی وسائل کی ضرورت ہے۔ تبھی ریسرچ ہو سکتی ہے، تبھی نئی عمارتیں بن سکتی ہیں تبھی بہتر اساتذہ یونیورسٹیوں میں لائی جا سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود چند عوامل ایسے ہیں۔ جن میں معاشی وسائل کی چنداں ضرورت نہیں، بلکہ نیت کو بہتر بنانے اور بد انتظامی ختم کرنے کے لیے کہ عزم کی ضرورت ہے، جس کا فقدان ملک بھر میں پایا جاتا ہے۔ راقم الحروف کو بھی تین عشروں تک سرکاری شعبہ میں افسر تعلقات عامہ کے فرائض انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے ۔اس ملازمت کے دوران جو میں نے دیکھا کہ پبلک ریلیشن افیسر کو صرف ہیڈ اف دی ڈیپارٹمنٹ ،وزیر یا یونیورسٹی کے سربراہ کی سرگرمیوں کی تشہیر کرنے کا ہی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، جبکہ امیج بلڈنگ کے لیے جو دوسرے اقدامات ہیں ان کی طرف نہ انتظامیہ توجہ دیتی ہے ۔ اور تشہیر کا سارا بوجھپی آر او پر نہ ہی کچھ ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں مثلا اب یہ دیکھنے میں ایا ہے کہ جو بھی شخص یونیورسٹیوں میں گریڈ 20 کی کی پوسٹ حاصل کر لیتا ہے وہ بزم خیش وائس چانسلر ہوتا ہے تقریبا ہر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گریٹ 20 کے ہوتے ہیں تو پرنسپل وائس چانسلر تو ایک ہی لگ سکتا ہے باقی ہر شعبے میں وائس چانسلر موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہر یونیورسٹی میں گروہ جنم لیتے ہیں اور جج کی بنا پر اپس کی کھینچا تانی کی وجہ سے بڑھائی تو ایک طرف ریسرچ کی طرف کسی کا خیال نہیں جاتا اور جس مقصد کے لیے یہ حضرات یونیورسٹیوں میں ملازمت کرتے ہیں یا جسمقصد کے لیے یونیورسٹیوں پر اتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے وہ مقاصد حل نہیں ہوئے دوسرا یہ بھی ہے کہ یونیورسٹیوں میں سیاسی عمل دخل بہت زیادہ ہے ہر طبقہ کے لوگ چاہے وہ شعبہ صحافت سے ہوں سیاست سے ہوں انتظامیہ سے ہوں مقتدر حلقوں سے ہوں تمام لوگ اس میں حصہ ڈالتے ہیں اور اپنے لاڈلوں کو لاڈلیوں کو اہلیت نہ ہونے کے باوجود اعلی عہدوں پر فائض کرانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اس دباؤ کی وجہ اور سفارش کلچر کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں نا انصافی اور بد انتظامی فروغ پا رہی ہے بعض معاملات بڑے اعلی افسران کے اور ذمہ دار لوگوں کے نوٹس میں بھی لائے جاتے ہیں مگر ہوتا ہے یہ ہے کہ اکثر بڑے عہدوں پر بھی پروفیسر صاحبان تعیینات ہوتے ہیں تو وہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ مجاں مخاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں تو اس اصول کے تحت برادری کا بندہ برادری کے لوگوں کا خیال کرتا ہے اور کسی قسم کا بھی کوئی اقدام کرنے سے حتی المقدور گریز کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ٹیچر یونین یونین کے عہدے داران بھی اپنی اپنی یونین کے ممبران کو غلطیوں کوتاہیہں کے باوجود جزا اور سزا سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے سکینڈل محکمہ تعلیم کے میڈیا میں دیکھنے میں ائے ہیں مگر وہ خبروں کی حد تک رہے اور اس کے ڈمہ دار افراد کے خلاف بہت کم کاروائی دیکھنے میں ائی۔ مثلا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہونے والے ہونے والے شرمناک واقعہ کی عدالتی اور دیگر تحقیقات سے یہ بات سامنے ائی ہے۔

چند عناصر وائس چانسلر کی جگہ لینا چاہتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر عطر محمود کی ملازمت کی توسیع میں بھی روڑے اٹکانا چاہتے تھے تو اس مضموم مقاصد کے حصول کے لیے انہوں نے وہ کھیل کھیلا کہ ایک اچھی تاریخ سو سال سے زیادہ پرانی یونیورسٹی کو ب** اور ذلیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جو اس واقعہ کے ذمہ دار لوگ تھے وہ بدستور عہدوں پر قائم ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہوا ہے کہ ان کو تبادلہ کر دیا گیا ہے مگر یونیورسٹی کو جو اس قدر نقصان پہنچایا گیا ہے اس زیادتی کا کوئی ازالہ نہیں کیا جا رہا۔کیونکہ بڑے بڑے لوگ اس میں ملوث تھے۔ جن کے خلاف قانون حرکت میں انا پاکستان میں اسان کام نہیں ہے۔ جب جب یونیورسٹیوں کی تشہیری مہم کے حوالے سے میں نے کچھ دوستوں سے بات کی۔ اور اس حوالے سے حقیقت حال جاننے کی کوشش کی تو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فار وومن سیالکوٹ کے حوالے سے ایک عجیب داستان اس سننے کو ملی۔ جس سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کے حکام اور یونیورسٹی سیالکوٹ کی انتظامیہ محکمہ تعلقات عامہ کو کس قدر اہمیت دے رہی ہے اور کس قدر امیج بلڈنگ کے لیے اپنے پی ار او کو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ واقعات کے مطابق پی ار او کی بھرتی کے لیے اخبارات میں اشتہار دیا گیا۔جس میں بہت سے امیدواروں نے درخواستیں دیں اور ان کے انٹرویوز منعقد ہوئے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنے من پسند امیدوار کو منتخب کرنا چاہتی تھی مگر سلیکشن کمیٹی غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل تھی اور انہوں نے انصاف کے تقاضوں کے مطابق جس امیدوار کا میرٹ بنتا تھا اس کو اہل قرار دیتے ہوئے اس کی تقرری کی سفارش کر دی اور سلیکشن کمیٹی کی سفارش پر اس امیدوار کا بہت بطور ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز ارڈرز جاری کر دیے گئے مگر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے خاص طور پر وائس چانسلر نے اس تقرری کو دل سے قبول نہیں کیا اور حت الممکان ایسی کوشش کی اور مجبور کیا گیا کہ یہ افسر مجبور ہو کر نوکری چھوڑ کر چلا جائے مگر موصوف پیا رو صحافت کا بھی تجربہ رکھتے تھے انہوں نے حت الامکان اپنے فرائض منصبی انجام دیے اور دوسری ستم ظریفی یہ کہ سابقہ وائس چانسلر نے جو ایک پبلک ریلیشن افیسر جونیئر تھے ان کو ان کے شعبہ میں رکھنے کی بجائے اپنا پی ایس او مقرر کر دیا اور یہ صاحب پی ار او کی ڈیوٹی کرنے کی بجائے پیایس او بن کر اپنے من مانی کر رہے ہیں اور وائس چانسلر کا نام لے کر تمام یونیورسٹی پر روپ ڈالتے ہیں اور اپنے نائے جائز کام کرانے میں مصروف ہیں اچھا یہ ایک امر قابل ذکر ہے کہ سابقہ وائس چانسلر اپنا رویہ جاتے ہوئے موجودہ قائم مقام وائس چانسلر بھی تفویض کر گئی کہ انہوں نے بھی وائس چانسلر سے امتیازی سلوک اور بلکہ ظالمانہ سلوک جاری رکھنا ہے اور اس کو ہر ممکن حد تک مجبور کرنا ہے کہ یہ نوکری چھوڑ کر چلا جائے بہت کیا دیا ہے کہ اس اس یونیورسٹی کے پی ار او کو نہ کوئی کمرہ دیا گیا ہے نہ کوئی دفتر دیا گیا ہے جبکہ یہ ائی ٹی کا دور ہے نہ اس کو کوئی کمپیوٹر کی سہولت فراہم کی گئی ہے وہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور سامان کو استعمال کر کے اپنی خبریں بناتے ہیں اور اخبارات اور میڈیا کو جاری کرتے ہیں مگر اب ان کو مٹگو میں بلانا بند کر دیا گیا ہے اور پی ار او جو ایک جونیئر ہے وہ ہی کام کا ہے بلکہ اس پر بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد کو محکمہ تعلقات چائے دے دیا گیا یہ صورتحال اس امر کی کہ یونیورسٹیوں میں کس قدر بد انتظامی پائی جاتی ہے میٹر میرٹ کی خلاف وردی کی جاتی ہے جن کا کام نہیں ہے یہ ایک شعبہ اردو کے پروفیسر جن کی تربیت ہی اردو پڑھانے کی ہے جن کا علم ہی اردو پڑھانا ہے وہ کیسے تعلقات عامہ کا کام کر سکتے ہیں یونیورسٹیوں میں یہ بھی دیکھنے میں ایا ہے کہ بعض صاحبان سفارشوں کے ذریعے اعلی عہدے حاصل کر لیتے ہیں اور وہ پھر یونیورسٹیوں کے مدار المہام بننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں اسی قسم کی شکایت ایک لاہور کی بڑی یونیورسٹی کےپی ار او کو بھی یہ ہے کہ اس کے ایک افیسر سارے ان کے کام میں روڑے اٹکاتے ہیں اور کام وہ کرتے ہیں اور کاروائی وہ ڈالنے کے لیے وائس چانسلر کے پاس چلے جاتے ہیں ذرائع کے مطابق سیالکوٹ یونیورسٹی کے پی ار او نے اپنی اس زیادتی کی اطلاع اعلی حکام کو دی مگر تلخ حقیقت ہے کہ وائس چانسلر نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان درخواستوں پر کوئی کاروائی نہیں ہونے دی اور یہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پنجاب بھر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر کے کہ نوٹس میں بھی یہ واقعہ لایا گیا اور وہ سیالکوٹ میں تشریف بھی لائے مگر ان کا اخری پیغام یہ ملا کہ وہ کہ وہ وائس چانسلر سے کمپرومائز کریں ٹھیک ہے ایک ماتحت کو اپنے سینیئر کا کہنا ماننا پڑتا ہے مگر کمپور ہو مائز کی بہترین صورت یہ تھی کہ یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے حوالے سے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں پی ار او کو پی ایس او کے عہدے سے ہٹا کر ڈپٹی ڈائریکٹر کے ماتحت بنا کر ایک ٹیم بنائی جاتی جس سے یونیورسٹی کی امیج بلڈنگ کا کام لیا جاتا سیالکوٹ کا شہر پاکستان کا ایک صنعتی مرکز ہے مگر ایک ایاں حقیقت ہے کہ یہ یونیورسٹی اس صنعتی مرکز کو کوئی تربیت یافتہ افراد دینے میں ناکام رہی ہے نہ کوئی یہاں پر کھیلوں کے سامان کا شعبہ ہے نہ جراہی کے الات کا کوئی شعبہ ہے جس سے تربیت یافتہ افراد اس شہر کی سند میں شامل ہو کر اس کو معیاری بنانے میں کردار ادا کریں یہ تو ایک یونیورسٹی کی خبر تھی ہائر ایجوکیشن کے حکام یونیورسٹیوں کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تمام میرٹ کے خلاف تقرریوں کو ختم کرنا چاہیے اور سیاسی دباؤ سے ازاد کرنے کے لیے اقدامات عمل میں لانے چاہیے تاکہ یونیورسٹیوں میں انتظامی صورتحال بہتر ہو۔اور اساتذہ بہتر انداز میں اپنے طلبہ کو پڑھائیں اور تحقیق کو فروغ دے دیا جائے۔ کافی دنوں پہلے ملک کے دو نامور کالم نگاروں نے بھی ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جن میں سے میں چند ایک باسات کارین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جس سے جو ا مسائل اٹھائے گئے ہیں وہ بڑے حقائق کے مطابق ہیں مگر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود محکمہ ہائر ایجوکیشن کی طرف سے کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں ائے اس میں سب سے بڑا مسئلہ وائس چانسلر کی خالی نشستوں کا ہے اور اس کے علاوہ تحقیقاتی سرگرمیوں کا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں اپنے ملک کے صنعتی اداروں کے درمیان وہ اس طرح کے عمل قائم نہیں کر سکی جو ان کے معاشی مسائل حل کرنے میں یہ اقدام بڑا ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے اس طرف اگرچہ نمائشوں میں خبروں کی صورت میں بہت سے معاہدات کی خبریں دیکھنے میں اتی ہیں مگر کوئی عملی صورت سامنے نہیں ائی اگر یونیورسٹیوں نے صنعتی شعبہ کے ساتھ کوئی اشتراک عمل پیش کیا ہے تو علمیت کے ان عظیم کارناموں کو جگہ دینے کے لیے حاضر ہیں یہ بہت بڑی بات ہوگی اور ہمیں ان کی یہ اشتراک عمل کے مضامین شائع کرتے ہوئے بہت خوشی ہوگی تو بات ہو رہی تھی کالم نگاروں کے چند خیالات کی یاسر ملک کے نامور کالم نگار ہیں اور سینیئر صحافیوں میں ان کا شمار ہے انہوں نے اپنے ایک کالم میں کہا د نیا بھر میں یونیورسٹیاں تدریس و تحقیق دونوں کام کرتی ہیں، ابتدائی تعلیم کے لیے اسکول اور اُس کے بعدکالج ہوتے ہیں جبکہ جامعات کالجوں سے مختلف ہوتی ہیں،وہاں دو قسم کے کام ہوتے ہیں،ایک تو وہ انڈر گریجوایٹس پیدا کرتی ہیں جو مختلف شعبوں کے پروفیشنل بن کر معاشرے کے مفید شہری بنتے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں کا دوسرا اور اصل کام تحقیق ہوتا ہے جو ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبا اپنے اساتذہ کی زیر نگرانی کرتے ہیں۔ اِس تحقیق کے نتیجے میں یونیورسٹی سے نت نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں جیسے سٹینفورڈ یونیورسٹی کی وجہ سے سیلیکون ویلی بنی اور وہاں گوگل، فیس بک، یاہو، ایپل اور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کی بنیاد پڑی،یہ سیلیکون ویلی دراصل سٹینفورڈ یونیورسٹی کی مرہون منت ہے۔ اسی طرح کووڈ کی مشہور زمانہ ویکسین ایسٹرا زینیکا آکسفورڈ یونیورسٹی میں تیار کی گئی جس کی فروخت سے اربوں ڈالر کمائے گئے،یہ کمائی آکسفورڈ یونیورسٹی کی بدولت ممکن ہوئی۔ ایسی یونیورسٹیاں صرف ملکی پیداوار بڑھانے کا ہی سبب نہیں بنتیں بلکہ وہاں سے دانشور، محقق، سائنسدان، فلسفی اور ایسے ہنر مند افراد فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں جو نہ صرف اُس شہر بلکہ اپنے ملک کی پیداوار کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں،یہ جامعات ایسے دانشور بھی پیدا کرتی ہیں جو عالمی سطح پر اپنا لوہا منواتے ہیں جس کے نتیجے میں نوجوان طلبا اُن جامعات میں کھنچے چلے جاتے ہیں اور اِس طرح یہ بات بھی اُس ملک کے لیے فائدے کا سبب بنتی ہے۔بہاولپور یونیورسٹی کے ایک نوجوان پروفیسر سعید احمد بزدار نے اِس موضوع پر ’علم کی راہداریاں‘ کے نام سے نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے دنیا کی اُن دس غیر معمولی یونیورسٹیوں کا حال لکھا ہے جنہوں نے دنیا بدل ڈالی۔جب بھی دنیا کی بہترین جامعات کی مثال دی جا تی ہے تو جواب میں ہمارے وی سی صاحبان ایک ہی بات کرتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی سٹینفورڈ اور آکسفورڈ کی طرح پیسے دیں، پھر دیکھیں کیسے ہم ٹوپی میں سے کبوتر نکال کر دکھا تے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں ہم حب الوطنی کے جذبیسے سرشار ہو کراِس ’دلیل‘ سے قائل ہوجاتے تھے مگر اب نہیں،اگرا ٓپ کسی یونیورسٹی میں ایک دن گذار کر دیکھیں توبخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح جامعات میں وسائل اور پیسے کا ضیاع ہوتا

ہے۔ویسے بھی تخلیقی آئیڈیا پیسے کا محتاج نہیں ہوتا، پاکستان کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اُس نے حکومت کو معاشی بدحالی سے نکلنے کا منصوبہ بنا کردیا تھا مگر حکومت نے اُس پر عمل نہیں کیا،دوسری طرف اگر آپ معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی فہرست نکال کر دیکھیں گے تو پتاچلے گا کہ مردان سے لے کر نارووال تک ہر گلی میں ایک پی ایچ ڈی موجود ہے۔ویسے تو یہ ایک مثال ہی اِن جامعات کی بد انتظامی اور نالائقی کا ثبوت دینے کے لیے کافی ہے مگر خواتین
جامعات کا حال اِس سے بھی برا ہے، لڑکیوں کی بہت سے یونیوورسٹیاں ایسی ہیں جہاں خواہ مخواہ مرد سٹاف بھرتی کر لیا گیا ہے اوراُن اسامیوں پر بھی مرد ٹھونس دئیے گئے ہیں جہاں عورتوں کو باآسانی نوکری مل سکتی تھی۔ اصولاً تو خواتین یونیورسٹی کی تمام اسامیوں پر،پروفیسر سے لے کر نائب قاصد تک، خواتین کو بھرتی کیا جانا چاہیے لیکن اُس نالائقی کا کیا کریں جس کی بنیاد پر اِن خواتین یونیورسٹیوں کی رئیس الجامعات نے عورتوں کی یونیورسٹی میں مرد بھرتی کر رکھے ہیں

You may also like

Leave a Comment