احمد علی عتیق
پاکستان کو آزاد ہو ئے76 سال ہو گئے ہیں مگر طویل عرصہ گذرنے کے باوجود ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے- خوشحالی‘ خود کفالت‘ اور ترقی یافتہ ملک کہلانے کی منزل کوسوں دور ہے- پاکستان کی سیاست کا جامع مشاہدہ اس تلخ حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ عام انتخابات کی صورت میں ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے کا ایک ڈرامہ ہو تا ہے جس میں عوام اپنا ووٹ مراعات یافتہ طبقے کو ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور خود ہی اپنے آپ کو اپنے حقوق سے محروم کرتے ہیں سیاسی جماعتوں کو ممبران اسمبلی کو دیکھا جائے کہ ہر الیکشن کے بعد وہی چہرے سیاسی جماعتیں تبدیل کرکے اسمبلی میں دوبارہ براجمان ہو تے ہیں جو اپنے گروہی مفادات اور ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے کے علاوہ کوئی خدمت اس ملک کی اس ملک کے عوام کی نہیں کرتے- اس کی کئی وجو ہات ہیں حد سے بڑھی ہو ئی مہنگائی معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی مسائل نے ایک عام آدمی کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ وہ دال روٹی کے چکر سے ہی باہر نہیں آ تا اور ہم اس سے توقع کریں کہ وہ ملکی مسائل کے حل کیلئے جمہوری عمل میں حصہ لے کر اپنا کردار ادا کرے- غریب عوام نے اس ملک کے مراعات یافتہ طبقے کو مجبورًا اپنی قسمت کا مالک بنا دیا ہے-
موجودہ دور حکومت کو دیکھیں تو صوبائی اسمبلیاں تو ایک طرف قومی اسمبلی میں ذاتی لڑائی جھگڑوں کے علاوہ مہنگائی‘ قومی مسائل اور مسائل زدہ عوام کی داد رسی کے لئے کو ءي بات سننے میں نہیں آئی – تو اس صورت حال میں عوام مایوس ہیں اور ان کو اپنے حالات بہتر ہونے کی کو ءي امید نہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ متوسط طبقے کا کو ئی بھی پڑھا لکھا صاحب کردار فرد صوبائی یا قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی جرات تو ایک طرف سو چ بھی نہیں سکتا- کیونکہ پاکستان کی سیاست اس قدر مہنگی ہو چکی ہے او ر اس میں صرف ارب پتی اور کروڑ پتی لو گ ہی الیکشن لڑنے کا سوچ سکتے ہیں – اس کے علاوہ ملک کی سیاسی جماعتیں تنظیمی حوالے سے عہدوں پر درمیانے درجے کے طبقے کو فائز کرنے سے قاصر ہیں جماعتی سطح پر اور انتخابی حوالے سے بھی تمام اصولی سیاست کے دعوؤں کو بالائے طاق رکھ کر الیکٹبیل افراد جو حقیقت میں سیاسی مسافر ہیں ان کو ٹکٹ دے کر عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے کیونکہ الیکٹیبل افراد کے بغیر کو ءي بھی جماعت الیکشن جیتنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی- ان حالات میں ملکی سیاسی تقدیر ملک کے وڈیروں‘جاگیرداروں‘ صنعت کاروں اور تاجروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے- یہی وجہ ہے کہ لو گ اپنے سیاسی اور طبقاتی مفادات کو عوامی اور قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور اس تلخ حقیقت کے باعث عوام حقیقی قیادت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں اور یہ لو گ عوام کو دبانے کے لئے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ عوامی خدمات کے دعوؤں کے باوجود ہر حوالے سے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں صو بائی اور قومی سطح کی سیاست میں حصہ لینا سفید پوش آدمی کے بس میں نہیں ہے- جس کی بناء پر یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اس ملک کو حقیقی اور مخلص قیادت میسر آئے گی- مگر مایو س ہونے کی ضرورت نہیں کو ئی بھی گروپ یہ عزم کر لے تو غریب عوام کے حقیقی نمائندوں کی قیادت تشکیل دی جا سکتی ہے–
عوام کو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا ہو تا ہے وہ یونین کونسل‘ تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی سطح کے ہوتے ہیں – عوام کے ہمدرد ضلعی افسران اور مخلص بلدیاتی نمائندوں کے اشتراک سے ایک عوام دوست ڈسٹرکٹ ایڈ منسٹریشن معرض وجود میں لائی جا سکتی ہے جو عوام کے داد رسی کرسکے- کیونکہ عوام کے 95فی صد مسائل ضلعی انتظامیہ سے متعلق ہیں صو بائی سطح پر منصوبہ بندی‘ انتظامی‘ مالیاتی امور اور افسران کی تقرری کے معاملات ہوتے ہیں -جن کا عام آدمی سے تعلق نہیں ہو تا مگر یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ سیاسی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے قیام کیلئے کبھی کوشش نہیں کی اور دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ حکومت کی 5 سالہ مدت پوری ہوگئی مگر بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد نہ ہو سکے- اس کی وجہ یہ ہے کہ ممبران اسمبلی افسر شاہی بلدیاتی اداروں کی منتخب قیادت کو اپنے مفادات کے حصول میں رکاوٹ تصورکرتے ہیں اس لئے ہرممکن کوشش کی جاتی ہے کہ بلدیاتی ادارے معطل ہی رہیں اوریہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق بلدیاتی اداروں سے متعلقہ مقاصد اقتدار کے زور پر حاصل کرتے رہیں – یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ ملک میں اکثر و بیشتر جمہوری حکومتوں کی بجائے فوجی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے کیونکہ بلدیاتی نمائندے حکومت اور عوام کے درمیان اسمبلی کی غیرموجود گی میں رابطہ کے لئے ضروری خیال کئے جاتے ہیں –
اس ملک میں عام آدمی کی حالت اسی صورت میں بہتر ہو سکتی ہے کہ عوام کو سیاسی عمل میں شرکت کے لئے ترغیب دی جائے اور کم ازکم بلدیاتی اداروں کی قیادت عمومی طبقے سے منتخب کرنے کے لئے عوام میں بیداری پیدا کی جائے- کیونکہ عوام میں سیاست امیر لوگوں کے حوالے کر دی ہے اور ان کا حصہ اور کردار صرف ووٹ ڈالنے تک محدود ہے مگر یہی صورت حال رہی تو اس ملک میں عام آدمی کی فلاح کے لئے کو ئی قانون سازی اور منصوبہ بندی نہیں ہو گی اور الیکشن منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی منصوبے بنتے رہیں گے اور عوام کی سماجی اور معاشی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی- اس کے لئے ایک گروپ کی تشکیل ضروری ہے جو عوام میں حقوق کی بیداری پیدا کرے اور اس کو تحریک برائے عوام حقوق کا نام د یا جائے- اس ضمن میں ملک کے جمہوری گروپ بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی بڑے لوگ شامل نہیں ہیں اور اس کی قیادت عام لوگوں پر مشتمل ہے جمہوری گروپ اگر عزم سے کام لے تو عوام میں حقوق کے حوالے سے بیداری پیدا کرکے انہیں بلدیاتی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے- اس کے لئے ضروری ہے کہ جماعتی وابستگی سے بالا تر ہو کر امیدواروں کو انتخابی عمل میں اتارا جائے ظاہری نام ونمود اور بھاری اخراجات سے پاک سستی اور سادہ الیکشن مہم کے ذریعے عوام کے حقیقی نمائندوں کو چنا جائے- انتخابی امیدواروں کے تعارف کے لئے ان کا نام اور ان کا انتخابی نشان‘ انتخابی مہم کا بنیادی جزو ہے-
جس کیلئے بڑے بڑے اور مہنگے فلیکس اور بڑی دعوتوں کی ضرورت نہیں ہے متوسط علاقوں کے تعلیم یافتہ بزرگ سادہ اشتہارات حتی کہ فوٹو کاپیوں کے ذریعے بھی امیدواروں کا پیغام عوام تک پہنچایا جاسکتا ہے- بہتر ہوگا انتخابی امیدوار کی مہم کے لئے علاقہ کے لو گ معمولی چندہ اکٹھا کرکے یہ کام کر سکتے ہیں اور ایماندار لوگوں کو آگے لایا جا سکتا ہے- اکثر دیکھا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین منتخب تو 5 مرلے کے مکانوں میں رہنے والے کونسلر ہی منتخب کرتے ہیں مگر ان سفید پوش لوگوں میں یونین کونسل جیسے ادارے کا چیئرمین صاحب حیثیت اور امیرآدمی ہی ہو تاہے- کونسلر تو شہر کے عام علاقوں کے ہوتے ہیں مگر چیئرمین ضلع کونسل‘میئر کارپوریشن ڈیفنس جیسے پوش علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو سیاسی جماعتوں کی قیادت ان اداروں پرمسلط کرتی ہے- تحریک برائے عوامی حقوق کے مقاصد کا اولین مقصد یہ ہونا چا ہیئے کہ شہروں کی قیادت امیر لوگوں کی بجائے متوسط درجے کے لوگوں کو دی جائے اوراس مقصد کے حصول کے لئے سیاسی وابستگی کو بالائے طارق رکھ کر کوشش کی جائے- اس مقصد کے حصول کیلئے شہروں اور دیہات کی سطح پر متوسط طبقے کے افراد پر مشتمل جمہوری گروپ بنائے جائیں جمہوری گروپ کی قیادت سادہ افراد پر مشتمل ہو اور یہ کسی بھی مسلک سے تعلق کی بجائے اتحاد امت کے جذبے کو برو ئے کار لاکر عوام میں پذیرائی حاصل کرے اور کونسلر شپ کے کسی بھی میدوار کیلئے جمہوری گروپ میں شمولت لازمی قرار نہ دی جائے وہ لو گ سیاسی وابستگیاں رکھتے ہوئے بھی عوام کی نمائندہ قیادت کی تشکیل کیلئے انتخاب میں شرکت کریں – چاہے وہ جمہوری گروپ کی قیادت میں الیکشن لڑے یا جمہوری گروپ ان کی پیشوائی میں انتخابی مہم چلائے اور عوام کے حقیقی نمائندوں کو کامیاب کروا کر بلدیاتی سطح تک ترقیاتی منصوبے شفا ف اندازمیں مکمل کرنے کا عمل شروع کیا جائے- اس تحریک کی کامیابی کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہی متوسط طبقے کے بلدیاتی نمائندے صوبائی اور قومی سطح کی قیادت کی تشکیل کے لئے اپنا کردار ادا کر کے عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنا بھرپور کردارادا کرسکتے ہیں –