پروفیسر ملک محمد شریف
’’ادارہ تعلیم و تحقیق کو ایک معیاری ادارہ بنانا چاہتا ہوں جو دُنیا کے اساتذہ کے تربیتی اداروں کی فہرست میں شامل ہو‘‘، یہ الفاظ پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر کے تھے جب وہ ۲۰۱۷ء میں پہلی دفعہ ادارہ کے سربراہ بنے پھر اُن الفاظ کو اُنہوں نے نے پورا کر دکھایا۔ اُنہوں نے اللہ کی نصرت، مدد اور فضل کا طلبگار ہوتے ہوئے اِس ادارہ کو دُنیا کا بہترین ٹیچرز ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ بنایا اور ۳۱ دسمبر ۲۰۲۲ء کو اُن کی ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ ۳۱ دسمبر ۲۰۲۲ء کی شام آپ پھولوں اور ملازمین کی سسکیوں کے مناظر کو دیکھتے ہوئے ادارے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے اپنے گھر چلے گئے۔ راقم نے سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کے اعزاز میں اتنی کثرت سے الوداعی تقریبات منعقد ہوئی ہوں ۔ اُنہوں نے ہر تقریب میں ادارے کے لئے، اپنے رفقائے کار ، ملازمین، اپنے اساتذہ اور ہم عصروں کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اپنے دِلی جذبات سے بہت سے لوگوں کو رنجیدہ اور افسردہ کیا۔
ڈاکٹر رفاقت علی اکبر ایسے درخشندہ ستارے ہیں جنہیں علمی، ادبی اور عملی میدان میں ایک منفرد حیثیت حاصل رہی۔ وہ ایک فاضل شخص اور خداداد بصیرت کے مالک ہیں۔ بیرونِ ملک جانے کے بجائے اپنے ملک میں تعلیمی خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دی۔وہ ہر محفل میں چھا جاتے۔ وہ افہام و تفہیم کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ طلباء کے ذہن کے مطابق سمجھانے کا طریقہ رکھتے ہیں۔ جس موضوع پر بولتے ہیں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے۔ اُنہیں انتظامی امور پر گرفت حاصل تھی۔ پالیسی سازی اور نصاب سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ تعلیمی دُنیا کے ممتاز مفکر اور منصوبہ ساز ہیں۔ اُن کا قائدانہ کردار ایک مایٔہ ناز منتظم کی حیثیت سے آئی ای آر کی تاریخ میں نمایاں رہے گا۔ اُنہوں نے ادارہ تعلیم و تحقیق کو رفعتوں تک پہنچایا اور بہترین معیارات کے ساتھ قومی اور ملی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔وہ ادارہ میں تعلیمی اصلاحات، ریسرچ کلچر کو فروغ دینے، ملازمین کو ترقیاں دلانے اور اُن کی رہاش گاہوں کی تعمیر کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ اُنہوں نے ریسرچ کلچر کو فروغ دینے کے لئے ملکی اور غیر ملکی کانفرنسز منعقد کرائیں۔ سیمنارز اور روکشاپس کے انعقاد کے سلسلہ میں پیش پیش رہے۔ اُنہوں نے طلباء امور میں بھی کافی دلچسپی لی۔ ادارہ میں نظم و ضبط، اتفاق اور اتحاد اُن کا طُرہ امتیاز رہا۔ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ اُستاد شجر سایہ دار ہیں۔ ادارہ میں شائع ہونے والے مجلّوں کو حیات نو بخشی۔ اعلیٰ تعلیم کو نئے سرے سے منتظم کیا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کلاسزکا از سرے نو آغازکیا۔ لائبریری کو کتب اور رسالوں سے مزین کیا۔
محوری مقبولیت کے لحاظ سے اُن کی شخصیت سرِفہرست رہی۔ اب وہ ایک نجی یونیورسٹی میں ڈین کے عہدے پر فائز ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ بقیہ زندگی میں خدمت کا سفر جاری رکھیں گے۔
بہرحال ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔ کیا اُن کا خلاء پُر ہو سکے گا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
تو جہاں بھی رہے یہ محفل سجی رہے
آسمان بھی تیری عظمت پہ ناز کرے
اُن کی آنکھوں سے ہمیشہ محبت کی آبشار بہتی دیکھی۔ آج بھی اُن کے ذکر سے دلوں میں چاہت اور اُلفت کے طوفان اُٹھتے محسوس ہوتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ کواسلامی جمعیت طلباء کا اہم رُکن تصور کیا جاتا تھا۔ جمعیت طلباء سے اُنہیں نہ صرف عشق تھا بلکہ اُس کام کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔ وہ جمعیت کے ناظم کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ اُنہوں نے سرد اور گرم حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
اللہ کے کچھ بندے اپنی دیانت، صداقت، اخوت اور شرافت کے باعث ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں روشن چراغ کی سی روشنی بکھیرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ کرنے سے محبت کے طوفان اُٹھتے ہیں۔