Home مضامین برطانوی یونیورسٹیوں کی طرف سے ظالمانہ تشدد کرنے اوراذیت دینے والےسیکیورٹی اہلکاروں کو تربیت دینے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کا اظہار تشویش

برطانوی یونیورسٹیوں کی طرف سے ظالمانہ تشدد کرنے اوراذیت دینے والےسیکیورٹی اہلکاروں کو تربیت دینے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کا اظہار تشویش

by Ilmiat

طلبہ فلسطینی عوام کی حمایت میں کیمبرج یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے “اولڈ اسکول” عمارتوں کی جانب مارچ کرتے ہوئےتاکہ اپنے مطالبات پر مشتمل خطوط کالج سیکریٹری کے حوالے کر سکیں

برطانیہ بھر میں غزہ جنگ کے ردعمل میں ہونے والے pro-Palestinian مظاہروں نے جامعات کے انسانی حقوق سے متعلق ردعمل کو عوامی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ لیکن برطانوی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مابین تعلق صرف ایک پہلو تک محدود نہیں ہے۔

فریڈم فرام ٹارچر کی ایک تازہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ کی جامعات غیر ملکی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں — جن میں کچھ دنیا کے سب سے جابرانہ حکومتوں کی نمائندگی کرتے ہیں — کو سیکیورٹی اور انسداد دہشتگردی سے متعلق پوسٹ گریجویٹ کورسز کی پیشکش کر رہی ہیں۔ یہ ادارے بغیر کسی انسانی حقوق کی چھان بین یا جائزے کے، ریاستی اہلکاروں کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ مہارتیں کیسے آزاد آوازوں کو دبانے، نگرانی کرنے یا اذیت دینے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی جامعات نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر رہی ہیں بلکہ ممکنہ طور پر انہی خلاف ورزیوں میں شریک بھی ہو رہی ہیں۔ کچھ جامعات نے بیرونی پولیس فورسز کے ساتھ براہ راست شراکت داری کی ہے، جن کے بارے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے شواہد موجود ہیں۔ دیگر جامعات نے ایسے افراد کو داخلہ دیا ہے جو ان ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں “انسداد دہشتگردی” ایک عام بہانہ ہے ظلم و جبر کا۔

یہ محض نظریاتی یا دور کی باتیں نہیں بلکہ فوری اور سنگین سوالات کو جنم دیتی ہیں: اگر برطانیہ میں سکھائی گئی خفیہ نگرانی کی تکنیکیں بعد میں حکومت مخالف افراد کو پکڑنے میں استعمال ہوں تو؟ اگر وہ ممالک جہاں اذیت معمول کا حصہ ہے، وہاں کے افراد کو بغیر پس منظر کی جانچ پڑتال کے داخلہ دیا جائے تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ کی اکثر جامعات دنیا کے جابرانہ ترین ملکوں سے سیکیورٹی کورسز کے لیے درخواستیں قبول کر رہی ہیں۔ مگر مطالعہ میں شامل صرف ایک یونیورسٹی نے کہا کہ وہ ان درخواست دہندگان کو مسترد کرتی ہے جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں یا اس کا ارادہ رکھتے ہیں۔

برطانیہ میں پناہ لینے والے اذیت زدگان نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ وہی سیکیورٹی اہلکار جن کے ظلم سے وہ بھاگے تھے، اب بغیر کسی حقیقی چھان بین کے، برطانیہ کی جامعات میں تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ جامعات، جو ہمیشہ آزاد خیالی اور فکری آزادی کی علامت سمجھی جاتی رہی ہیں، اب یہ نظرانداز کر رہی ہیں کہ ان کا علم جبر و ظلم کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔اسی دوران، ملک بھر میں طلبہ کارکنان اپنی جامعات کے انسانی حقوق سے متعلق رویے پر بھرپور سوالات اٹھا رہے ہیں۔ حالیہ غزہ مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر طلبہ محسوس کریں کہ ان کی جامعات کا طرزعمل ان کے اقدار سے میل نہیں کھاتا، تو وہ احتساب کا مطالبہ ضرور کریں گے۔

دنیا بھر میں طلبہ کی تحریکوں کا ایک بھرپور ورثہ ہے۔ نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ کی تحریک سے لے کر میانمار کی 1988 کی بغاوت تک، نوجوان ہمیشہ ظلم کے خلاف صفِ اول میں رہے ہیں۔ آج کی نسل، جسے تاریخ کی سب سے زیادہ سماجی طور پر باشعور اور عالمی طور پر منسلک نسل سمجھا جاتا ہے، بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ جامعات کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ انسانی حقوق کا ریکارڈ طلبہ کے لیے ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔

کاروباری دنیا میں کمپنیاں اب انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر جانچی جاتی ہیں۔ “اخلاقی ذرائع”، “ذمہ دارانہ سرمایہ کاری” اور “انسانی حقوق کی جانچ پڑتال” جیسے الفاظ معمول بن چکے ہیں۔ جو جامعات خود کو ترقی پسند اور سماجی ذمہ داری رکھنے والے ادارے سمجھتی ہیں، ان پر بھی یہی معیار لاگو ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ کئی جامعات کے پاس بیرون ملک انسانی حقوق کے خطرات سے متعلق کوئی پالیسی ہی موجود نہیں۔

یہ رویہ اب تبدیل ہونا چاہیے۔

برطانیہ میں پناہ کے متلاشی اذیت زدگان کو یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ جن اداروں سے وہ تحفظ کی امید رکھتے ہیں، وہی ادارے ان کی جابر حکومتوں کے اہلکاروں کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ جامعات کو ایسے افراد، خواہ وہ ظلم کے شکار ہوں یا ان کے اپنے طلبہ، سب کے خدشات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے تعلیمی شعبے کو اپنا نظم و ضبط درست کرنا ہوگا۔ اس کا آغاز انسانی حقوق سے متعلق شفاف پالیسیوں کے نفاذ سے ہونا چاہیے اور مؤثر جانچ پڑتال کے نظام سے جو انسانی حقوق کے خطرات کا اندازہ لگا سکے۔ ان اقدامات میں ناکامی کا مطلب ہے کہ یہ شعبہ نادانستہ طور پر ہی سہی، عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہو سکتا ہے۔جامعات کو خود سے سوال کرنا ہوگا: ہمارے کلاس رومز میں کون بیٹھا ہے؟ ہماری تربیت سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ اور ہم جو کچھ پڑھا رہے ہیں اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت ہے، مگر تعلیمی شعبہ بظاہر انہیں پوچھنے کو تیار نہیں۔

برطانوی جامعات کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو یہ یقینی بنائیں کہ وہ جبر و تشدد کے عالمی ہتھیاروں کو مزید مؤثر بنانے میں غیر ارادی طور پر بھی معاون نہ بنیں۔ انہیں ایک ایسا انسانی حقوق کا ریکارڈ بنانا ہوگا جس پر وہ فخر کر سکیں۔ یہ نہ صرف نئی نسل کے سرگرم طلبہ کو اپیل کرے گا بلکہ یہ وہی راستہ ہے جو درست اور باوقار ہے۔

(بشکریہ الجزیرہ)

تحریر: نتاشا سانگارائڈز
ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، فریڈم فرام ٹارچر

You may also like

Leave a Comment