Home مضامین اکیسویں صدی کا تعلیمی ادارہ

اکیسویں صدی کا تعلیمی ادارہ

by Ilmiat

دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم و تعلم میں بھی اکیسویں صدی کے چیلنجز اور رجحانات سابقہ ادوار سے

قطعی مختلف ہیں۔ آج کا تعلیمی ماڈل ماضی میں رائج سبھی ماڈلز سے بالکل جدا ہے ۔ اکیسویں صدی کی ضروریات پوری کر پانے ،دیگردیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم و تعلم میں بھی اکیسویں صدی کے چیلنجز اور رجحانات سابقہ ادوار سے شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم و تعلم میں بھی اکیسویں صدی کے چیلنجز اور رجحانات سابقہ ادوار سے ایجاداتدیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم و تعلم میں بھی اکیسویں صدی کے چیلنجز اور رجحانات سابقہ ادوار سے کے اس زمانے میں اپنا حصہ ادا کر سکنے اور روزافزوں بدلتے زمانے کی ضروریات کے مطابق ڈھلنا تعلیمی اداروں کے لیے جہاں ایک چیلنج ہے وہیں نشانِ منزل بھی۔ ہر دور کے الگ تقاضے ہوتے ہیں اور اداروں سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ آج کی ضرورت کے مطابق افراد تیار کریں۔
اکیسویں صدی تبدیلیوں اور ترقی کی صدی ہے۔ تعلیمی منظر نامے میں آئے روز بے شمار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ہر آنے والا دن کئی طرح کے تعلیمی میتھڈز اور کئی طرح کے تصورات کو ساتھ لائے طلوع ہو رہا ہے۔ آج کل اداروں میں تقابلی تدریس کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ اب کتاب اور قلم سے ہٹ کے تصورات کی وضاحت پر بات ہو رہی ہے۔ سٹوڈنٹ سنٹر اپروچ آج کے ماہرین تعلیم کا موضوع ہے اور ان کی سبھی کاوشیں اسی کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔
آج دنیا سکولوں سے تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ شخصیت کی تعمیر چاہتی ہے۔ دنیا اداروں کو ان کے معیارِ تعلیم سے پہچان رہی ہے۔ آج کے تعلیمی ادارے کو معاشرے میں موجود بچوں کے لیے وہ تمام سہولیات دینا اور تعلیم کاوہ معیار فراہم کرنا ہو گا جو ان بچوں کی ضرورت ہے۔وہ ادارہ جو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور ایسے افراد پیدا کر رہا ہو جو اس صدی کو مطلوب ہیں ہی کو مثالی تعلیمی ادارہ کہا جائے گا ۔
ہم درج ذیل سطور میں ایسے سبھی عوامل اور خصوصیات جو اکیسویں صدی میں مثالی سکولوں کا خاصہ ہیں کو ڈسکس کرتے ہیں:
1) مقاصد(Objectives)
ہر مثالی تعلیمی ادارے کے لیے اس کے وژن اور مشن کا تعین اور پھر اس کے حصول کے لیے منصوبہ بندی اور کاوش اہم ہوتی ہے۔اسی مشن کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا معاملہ تکمیل پاتا ہے۔یہ مشن ایک ایسا روڈ میپ ہوتا ہے جس پر چلتے ہوئے منزل تک رسائی کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سکول کی منزل کیا ہے۔یہ مشن ،نصب العین یا مقصد مختصر اور جامع ہو تا کہ اس کا حصول ممکن ہو۔
2) ماہر اور مستنداساتذہ(Expert and Qualified Teachers)
جب تک ادارہ کے اساتذہ میں قابلیت اورصلاحیت نہ ہو وہ طلباء کو کیسےصحیح معنوں میں علم منتقل کرسکتے ہیں۔ اس لیے مثالی ادارے اساتذہ کو بھرتی کرنے سے قبل متعلقہ معیار جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا یہی جاتا ہے کہ استاد ویسے ہی پڑھاتے ہیں جیسا انہیں پڑھایا گیا تھا لیکن اب نصاب میں بے شمار تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اساتذہ کو جہاں مہارتیں بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں اداروں کو اساتذہ کو بھرتی کرتے وقت معیار مطلوب دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو اکیسویں صدی میں اپنےمتعلقہ مضمون میں مہارت، طریقہ تدریس میں امتیاز، سمعی و بصری معاونات کے استعمال اور جدید تعلیمی رحجانات سے واقف ہونا ضروری ہے۔
3) معاونت سے بھرپور تعلیمی ماحول (A Supportive Learning Environment)
فرد کو مخصوص سانچے میں ڈھالنے کے لیے مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً عبادت گاہ میں عبادت کاماحول ہوتا ہے اور انسان وہاں سکون قلب سے عبادت کرسکتا ہے۔اسی طرح ایک سکول کے لیے تدریس وتعلیم کاموثر ماحول ہونا لازم ہے۔ ایسے ماحول کے بغیر تربیت اور سیکھنے کاعمل متاثر ہوتا ہے۔ سکول کا

ماحول ایسا ہوکہ طلبا کو گھر سے زیادہ سکول میں رہنا اچھا لگے۔ انہیں سکول سے چھٹی کرنا پسند نہ ہو۔ یہ ماحول بچے اور استاد پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔تعلیمی و تربیتی ماحول پیدا کرنے کے لیے جہاں اور بہت ساری طبعی اشیاء وخصوصیات کاہونا ضروری ہے وہاں استاد کاموثر کردار بہت اہم ہے کیونکہ استاد اس ماحول کابنیادی جزو ہے۔
سکول کی عمارت سر سبز و شاداب ، پائیدار اور ضروری سہولیات سے آراستہ ہونی چاہیے۔مثلاً روشن ہوا دار کمرہ ہائےجماعت، اکیسویں صدی کی ضرورتیں پوری کرتا انفراسٹرکچر ،تازہ ترین معاون وتدریسی مواد، سمعی وبصری معاونات اور ضروری آلات سے مزین لیبارٹری ،پروجیکٹر یا ملٹی میڈیا کی فراہمی اور ورزش /کھیل کا میدان، جدید دور کی ضروریات کے لحاظ سے لائبریری ۔ اس کے علاوہ واش روم اور پینے کے صاف پانی کی سہولت ، کسی بھی ہنگامی حالت کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کا انتظام اور ٹیم ورک کے اوپر خاص توجہ
4) سکول کاموثر انتظام وانصرام(Effectively Managed School)
ایک سکول تبھی مثالی سکول کا درجہ حاصل کر سکتا ہے جب اس کی قیادت مضبوط اور موثر ہو۔ تعلیمی ادارہ براہ راست معاشرے میں واقع ہوتا ہے اس لیے اس کی قیادت کی معاشرتی تعلقات میں مضبوطی بہت لازم ہے۔تعلیمی ادارے اس حوالے سے والدین کی توقعات کو سامنے رکھتے ہیں اور اس کے مطابق پورا پلان بھی۔ مزید برآں اکیسویں صدی سکول سے ایک جامع انتظام و انصرام کا تقاضا کرتی ہے۔
5) طلباء اور اساتذہ کے تعلیمی اور اخلاقی معیار کی بہتری(Improvement of Academic and Moral Standards)
سکول میں طلباء اور اساتذہ کے اخلاق اور تعلیمی صورتحال پر خصوصی فوکس اکیسویں صدی کی اولین ترجیح ہے۔اس لیے سکول میں طلبہ کی تربیت اور رہنمائی کے لیے جامع عملی پالیسی کے تحت ایک دفتر انتہائی ضروری ہے جو کہ ان کی نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں کے انعقاد کاذمہ دار ہو۔ ان کے مسائل سنے جائیں اور ان کا حل نکالا جائے۔ اس دفتر کو سٹوڈنٹ Facilitationسنٹر یا سٹوڈنٹ افئیرز سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسی فورم سے اساتذہ کی اخلاقی و تعلیمی بہتری کے لیے بھی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
6) ذاتی نوعیت کی تعلیم (Personalized Learning)
یہ ایک حقیقت ہے کہ سبھی بچوں کا مقیاس ذہانت ایک جیسا نہیں ہوتا اور نہ سبھی ایک جیسے طریقہ تدریس سے یکساں سیکھ پاتے ہیں۔ ہر بچے کے لیے انفرادی طریقہ ہی بہترین نتائج لا سکتا ہے۔اکیسویں صدی کے تقاضوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اداروں میں ہر سطح کے طلبہ کے لیے سیکھنے کے مختلف لیول اور پیٹرن طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلباء ان طریقوں سے سیکھ سکیں جو ان کی ذاتی ضروریات کے مطابق ہوں۔اس حوالےسے اساتذہ اپنے تدریسی طریقوں کو کئی طرح سے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں جیسے:
o مواد کی تقسیم کار میں فرق؛
ترسیل کے طریقوں میں فرق؛ اور
o جائزے کی حکمت عملیوں میں فرق
روایتی اور پرانے طریقہ ہائے تدریس میں کلاس کے تمام طلباء کو ایک ہی وقت میں ایک ہی طریقے سے ایک ہی مواد پڑھایا جاتا تھا۔ تدریس کے نمونے کے تحت ہدایات عام طور پر ٹرانسمیشن طرز کی ہوتی تھیں جسے اکثر تعلیم کا بینکنگ ماڈل کہا جاتا ہے۔
7) مساوات، تنوع اور شمولیت(Equity, Diversity And Inclusivity)
20ویں صدی میں طلباء سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ سکول پالیسی کے مطابق ہوں گے یا خارج کر دیے جائیں گے۔ لیکن 21ویں صدی میں سماجی شمولیت اور فرق کا جشن منایا جاتا ہے۔اب کلاس رومز میں مساوات، تنوع اور شمولیت کو اپنایا جاتا ہے ۔
مساوات: اکیسویں صدی کے ماہرین تعلیم کا مقصد نتائج کی مساوات حاصل کرنا ہے۔ ماہرین تعلیم امیر اور غریب کے درمیان کامیابیوں کے فرق کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تنوع: تنوع کو اب کلاس رومز میں ایک طاقت سمجھا جاتا ہے۔ جب طلباء مختلف ہوتے ہیں، تو وہ سیکھتے ہیں کہ فرق ٹھیک ہے۔ وہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں اور اپنے آس پاس کی دوسری ثقافتوں سے خوفزدہ نہ ہونا سیکھتے ہیں۔
شمولیت: اہلیت کی تمام سطحوں، جسمانی معذوری یا سیکھنے کی معذوری والے طلبہ آج عام سکولوں میں دیگر بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
8) کام کر کے سیکھنا (Learning Through Doing)
تعلیم کے پرانے طرز عمل کے طریقے جو 20ویں صدی میں عام تھے جیسے :
o معلومات کی یادداشت
o استاد سے طالب علم تک معلومات کی ترسیل
o اپنے ذہن کو حقائق سے بھرنا

جبکہ آج اکیسویں صدی میں ہم کام خود کرکے کے دیکھنے کے ذریعے سیکھ رہے ہیں، ہم:
 حقیقی دنیا میں معلومات کو لاگو کرنے کا تجربہ
 آزمائش اور غلطی کے ذریعے سیکھنے کا موقع (تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ کچھ سچ کیوں ہے یا نہیں)۔
 کچھ نہیں بتایا جاتا، بلکہ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ اپنی مصروفیت کے ذریعے چیزوں کو دریافت کرتے ہیں۔
9) معلم اور متعلم کے کردار پر نظر ثانی (Rethinking Learner And Teacher Roles)
اکیسویں صدی میں، کلاس رومز استاد مرکز سے طالب علم مرکز میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
ماضی میں طلباء تمام توجہ استاد پر مرکوز رکھتے اور استاد کی باتیں سنتے تھے۔ اب، استاد ان طلباء پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو توجہ کا مرکز ہیں۔ استاد کا کام سیکھنے کے عمل کے دوران طلباء کی تربیت میں مدد کرنا ہے ۔طلبا کو مضبوط کمیونیکیشن سکل، تنقیدی سوچ اور پرابلم سالونگ سکل سکھانے کے لیے بہرحال Student Centre Approachہی قابل عمل ہے۔
اکیسویں صدی میں استاد اور طالب علم دونوں کے کردار بدل چکے ہیں:
استاد بطور سہولت کار: استاد اب طلباء کے ساتھ شریک سیکھنے والا ہے۔ استاد کو اب بھی ماحول کو محفوظ بنا کر اور سیکھنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کلاس روم کا ماحول اب بھی استاد کے لیے بہت زیادہ ہے۔ تاہم، اساتذہ اب صرف موضوعات پر حکام نہیں ہیں۔ اس کے بجائے، ان کا کام طلباء کی رہنمائی میں مدد کرنا ہے کیونکہ طلباء فعال عمل کے ذریعے سیکھتے ہیں۔
فعال طلباء: طلباء سننے کے بجائے عمل سے سیکھتے ہیں۔ اس لیے طلبہ کو اپنی تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے خود نتیجہ اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
10) کمیونٹی سے تعلقات (Community Relationships)
ہماری کمیونٹیز میں حیرت انگیز طور پر مفید لوگ موجود ہیں جو ہمارے طلباء کو ہم سے کہیں بہتر سکھا سکتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
اساتذہ جانتے ہیں کہ وہ ہر چیز کے ماہر نہیں ہو سکتے۔ لیکن دنیا میں ہر موضوع کے لیے ایک ماہر موجود ہے۔ آج کئی صورتیں موجود ہیں جہاں طلبہ مختلف پروجیکٹس اور پورٹ فولیوز کمیونٹی کی انوالومنٹ کی وجہ سے بہتر سرانجام دے رہے ہیں۔ البتہ اس معاملے میں کمیونٹی کی مہارتوں اور علم سے فائدہ اٹھا کر، ہم اپنے طلباء کے لیے سیکھنے کے مزید بہتر مواقع بنا سکتے ہیں۔
11) ٹیکنالوجی کا استعمال (Use of Technology)
جدید ٹیکنالوجیز آج کلاس رومز میں ناقابل یقین حد تک مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ ابھی کلاس روم میں چلیں اور آپ حیران رہ جائیں گے کہ صرف ایک دہائی میں چیزیں کتنی بدل گئی ہیں۔ ٹیکنالوجی ہر جگہ ہے۔ البتہ نئی سیکھنے کی ٹیکنالوجی کو مناسب طریقوں سے استعمال کرنا ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال طلباء کی معلومات تک رسائی میں مدد کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے ۔
آج کل آرٹیفشل انٹیلی جنس (AI) کی مدد سے طلبا اپنے تعلیمی مسائل حل کر رہے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔ ہر سکول میں کمپیوٹر لیب اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہونا ضروری ہے۔ طلبا سے موبائل چھیننے کی بجائے انہیں موبائل کے ذریعے ڈیجیٹل ایجوکیشن کی جانب گامزن کرنا چاہیے۔ طلبا کو آٹھویں جماعت تک اس قابل بنا دینا چاہیے کہ وہ لیپ ٹاپ، ٹیب یا موبائل فون کے ذریعے کئی پروجیکٹس کر سکنے کے قابل ہو سکیں۔
12) ٹیچر پروفیشنلائزیشن(Teacher Professionalization)
اساتذہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج تیزی سے بدلتا ہوا تعلیمی ماحول ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز تیزی سے کلاس رومز میں آ رہی ہیں تاکہ ہمارے تمام طلباء کے لیے سیکھنے کو ذاتی بنانے اور مدد کرنے میں ہماری مدد کی جا سکے۔اساتذہ کی ٹریننگز مسلسل ہونی چاہییں۔ اساتذہ کی بھرتی کے وقت قابلیت اوراہلیت کو مدِ نظر رکھا جائے نہ کہ تعلقات وسفارش کو۔ ایک مثالی ادارہ کی تشکیل میں معلمین کاکردار کلیدی ہوتا ہے لہٰذا اساتذہ کی ملازمت میں ترقی اور تنخوا ہوں میں اضافے جیسی ترغیبات کواستعمال کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کو خوب سے خوب تر بنایا جا سکتا ہے۔
ہمیں سیکھنے کو بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال، اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طالب علموں کو بہترین سیکھنے کا موقع ملے، 21ویں صدی میں اساتذہ کو مسلسل تربیت اور مدد دی جا رہی ہے۔ انہیں بہترین تدریسی طریقوں سے متعلق تمام تازہ ترین تحقیق جاننے کی ضرورت ہے۔ انہیں خود سے سوالات کرنے، نئی حکمت عملی آزمانے اور اپنے پورے کیریئر میں ماہرین سے سیکھنے کے مواقع کی ضرورت ہے۔13) جدید نصاب اور جدید طریقہ

تدریس(Modern Curiculum & Modern Teaching Methods) اکیسویں صدی ہم سے پرانے اور روایتی نصاب اور طریقہ تدریس کی بجائے جدید دور سے ہم آہنگ نصاب اور اس کے پڑھانے کے طریقوں کا تقاضا کرتی ہے۔ وہی ادارہ جو آج کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے نصاب تیار کرے اور اس نصاب کو بچوں کی وسیع تر لرننگ کو دیکھتے ہوئے طریقہ ہائے تدریس وضع کرے ہی مثالی ادارہ بن سکتا ہے۔ اداروں میں تجرباتی طریقہ تدریس اور پروجیکٹ طرز کی تعلیم پر فوکس کیا جانا چاہیے۔
14)تخلیقی صلاحیت(Creativity in Schools)تخلیقی صلاحیت ایک ایسی مہارت ہے جس کی آنے والی دہائی میں لیبر مارکیٹ مانگ کرے گی
(Csikszentmihalyi, 2006)۔

21ویں صدی میں طلباء کو اس انداز میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ وہ آج کی غیر متعین زندگیوں کے چیلنجوں سے نمٹ سکیں۔اس مقصد کے لیے، تخلیقی صلاحیت انفرادی، سماجی، اور عالمی مسائل کو حل کرنے کا مظہر وسائل اور ایک وصف ہے۔ اگرچہ نظم و ضبط اور مواد مختلف ہو سکتے ہیں، تخلیقی صلاحیتوں کی ہر جگہ ضرورت ہوتی ہے (Beghetto, 2010)۔اس لیے اکیسویں صدی کے ہر ادارے کو بچوں کی تخلیقی صلاحیت پر فوکس کرنا ہوگا۔
15)مسلسل جائزہ (Continuous Assessment)اکیسویں صدی میں سکولوں میں بچوں کی قابلیت جانچنے کے لیے مسلسل جائزہ کے اوپر بہت فوکس کیا جا رہا ہے۔ ہر طرف گریڈز گریڈز اور گریڈز۔ طلبہ کی متعلقہ سکولوں میں ترویج و ترقی پر دھیان ضروری ہے۔ 16)غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں(C0-Curricular Activities)
آج کل تعلیمی اداروں میں غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں استعمال ہو رہی ہیں جو کسی بھی سکول کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جاتی ہیں۔


You may also like

Leave a Comment