(بین الاقوامی نیوز ڈیسک) — امریکہ کی معروف جامعہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی ترجیحی فنڈنگ کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ معاہدہ علمی آزادی اور ادارہ جاتی خودمختاری کے منافی ہے۔ایم آئی ٹی کی صدر سیلی کورن بلتھ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ تجویز یونیورسٹی کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے کیونکہ سائنس کی فنڈنگ صرف علمی قابلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ سیاسی شرائط پر۔
پائی نیوز میںرپورٹر پولی نیش کی رپورت کے مطابقٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے نو امریکی جامعات کو ایک نیا ’’اکیڈمک کمپیکٹ‘‘ ارسال کیا تھا جس میں غیرملکی طلبہ کے داخلوں پر 15 فیصد کی حد مقرر کرنے، نسل یا جنس کی بنیاد پر بھرتی پر پابندی اور پانچ سال تک ٹیوشن فیس منجمد رکھنے جیسی شرائط شامل تھیں۔ اس کے بدلے میں حکومت ان اداروں کو ترجیحی فنڈنگ اور دیگر مالی مراعات دینے کی پیشکش کر رہی تھی۔ایم آئی ٹی پہلی یونیورسٹی ہے جس نے اس پیشکش کو باضابطہ طور پر مسترد کیا ہے۔ کورن بلتھ نے امریکی وزیرِ تعلیم لنڈا میک میہن کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ’’ہمیں اُن خیالات کو بھی سننا چاہیے جو ہمیں ناگوار لگیں، اور اختلاف رکھنے والوں سے احترام کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے۔‘‘
کمپیکٹ کی شرائط کے مطابق، ان اداروں کو ایسے تمام شعبے ختم کرنے ہوں گے جو قدامت پسند نظریات کو ’’کم تر‘‘ سمجھتے ہیں، اور اساتذہ کو اپنی سرکاری حیثیت میں سیاسی گفتگو یا عمل سے گریز کرنا ہوگا۔اگر یہ معاہدہ نافذ ہوتا تو امریکی حکومت کو غیرملکی طلبہ کے ریکارڈ اور تادیبی کارروائیوں تک رسائی حاصل ہو جاتی، جب کہ کسی بھی ملک سے صرف 5 فیصد طلبہ داخل کرنے کی حد مقرر کی گئی تھی۔
دوسری جانب، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’جو کیلیفورنیا یونیورسٹیاں ٹرمپ کے اس غیرمعقول معاہدے پر دستخط کریں گی، انہیں ریاستی فنڈنگ سے فوراً محروم کر دیا جائے گا۔‘‘نو جامعات میں شامل دیگر اداروں میں وینڈر بلٹ یونیورسٹی، ڈارٹماؤتھ کالج، یونیورسٹی آف پنسلوانیا، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، یونیورسٹی آف ٹیکساس، یونیورسٹی آف ایریزونا، براؤن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ورجینیا شامل ہیں۔
کئی جامعات کے اساتذہ یونینز اور طلبہ تنظیموں نے اس معاہدے کو ’’ٹرمپ کا فاشسٹ کمپیکٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف یونیورسٹی آف ٹیکساس نے اب تک اس تجویز کو ’’اعزاز‘‘ قرار دیا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ ٹرمپ انتظامیہ کے مخالفِ امیگریشن رجحان کو مزید واضح کرتا ہے، اور بظاہر ان جامعات کو بھی متنبہ کرتا ہے جہاں غیرملکی طلبہ کی شرح 15 فیصد سے زیادہ ہے۔ایم آئی ٹی کا یہ فیصلہ امریکی اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں آزادیِ رائے اور علمی خودمختاری کے دفاع کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔