امریکہ میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا ہے جو تمام چینی شہریوں کو طلبہ ویزے جاری کرنے پر پابندی لگا سکتا ہے، تاکہ چین کے مبینہ طور پر امریکی ویزہ پروگرام کے “استحصال” کو روکا جا سکے۔
بل کا تعارف اور مقصد
یہ قانون، جس کا نام “اسٹاپ چائنیز کمیونسٹ پرائنگ بائی ونڈی کیٹنگ انٹیلیکچوئل سیف گارڈز ان اکیڈمیا ایکٹ” (Stop CCP VIASs Act) ہے، ریپبلکن کانگریس مین رائلی ایم مور نے 16 مارچ کو متعارف کرایا۔ مور کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریباً 3 لاکھ چینی شہری امریکی اسٹوڈنٹ ویزا پر آتے ہیں، جس سے چین کو جاسوسی، فوجی راز چرانے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ ان کے مطابق، کانگریس کو فوری طور پر چینی طلباء کے ویزے بند کر دینے چاہئیں۔
تنقید اور ردعمل
اس بل پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ تعلیمی ماہرین، ایشیائی امریکی گروپس، اور کچھ سیاستدانوں نے اسے نسلی تعصب پر مبنی اور غیر متناسب قرار دیا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے ایک ماہر، شان کارور کے مطابق، گزشتہ سال چینی طلباء میں سے صرف 0.0017% جاسوسی میں ملوث پائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے زیادہ مؤثر اور مخصوص اقدامات کیے جانے چاہئیں بجائے اس کے کہ تمام چینی طلباء پر پابندی عائد کر دی جائے۔

قانونی عمل اور ممکنہ اثرات
یہ بل ریپبلکن کنٹرول شدہ ایوان اور سینیٹ میں منظوری کے بعد ہی قانون بنے گا، مگر کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی طلباء کی 50 بلین ڈالر کی معیشتی شراکت کو دیکھتے ہوئے اس کے پاس ہونے کے امکانات کم ہیں۔ تاہم، اس قانون کے محض تعارف سے ہی چینی طلباء کے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
تعلیمی ماہرین کے مطابق، اگر یہ قانون پاس ہو جاتا ہے، تو چینی طلباء برطانیہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کا رخ کر سکتے ہیں، جس سے امریکی اداروں کو مالی نقصان پہنچے گا۔ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے عہدیدار ایڈی ویسٹ نے کہا کہ “چین کو مکمل طور پر دشمن تصور کرنا غلط ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون زیادہ مفید ثابت ہوگا بجائے کہ ایک دوسرے کو الگ تھلگ کیا جائے۔”ویسٹ نے کہا، “امریکہ آنے کے لیے اسٹوڈنٹ ویزا کے غلط استعمال کا رجحان ان افراد میں زیادہ عام ہے جو یہاں حقیقی طور پر تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یہ حقیقت ہماری برادری کے کچھ افراد تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں، لیکن یہ بالآخر امیگریشن مخالف جذبات کو مزید بھڑکاتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ برطانیہ کے تعلیمی ضابطہ کار نظام سے سیکھ سکتا ہے، جو اداروں کو زیادہ خود مختاری دیتا ہے، یا آسٹریلیا کے PRISMS سسٹم سے، جو حقیقی وقت میں معلومات کے اشتراک کے لیے ایک مؤثر مثال ہے۔
اگرچہ ریپبلکن سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ چین کے “سخت قومی سلامتی کے قوانین” کے باعث انہیں یہ سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا، لیکن حالیہ برسوں میں چینی حکومت نے امریکی طلباء کے حوالے سے اپنے مؤقف میں نرمی دکھائی ہے۔
اس کے علاوہ، امریکی اداروں کے ساتھ مزید شراکت داری کے لیے، چینی حکومت نے بین الاقوامی تبادلوں کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات متعارف کرائے ہیں، جن میں 2030 تک 50,000 نوجوان امریکی طلباء کو چین میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔( بشکر یہ پائی نیٹ ورک)

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پولی نیش