اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں پائیدار دنیا کے لیے مذہبی رواداری کے موضوع پر منعقد ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی۔ کمشنر بہاول پور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور اختتامی سیشن کے مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر سینئر ڈین فیکلٹی آف کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر شازیہ انجم مہمان اعزاز تھیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان، برونائی دار السلام، امریکہ، یوگنڈا، بیلجیم اور ملائشیا سمیت متعدد ممالک سے پروفیسر ڈاکٹر ہرمن،پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی ملتان، پروفیسر ڈاکٹر سعید الرحمن چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب، ڈاکٹر عبدالصمد،ڈاکٹر عائشہ قرأۃ العین اور اللہ بخش کلیار ممبر نظریاتی کونسل شریک ہوئے۔اختتامی روز دو متوازی سیشن منعقد ہوئے۔ جن میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق میں عالمی امن کا کردار، مذہبی امور میں جامع نقطہ نظر، رواداری اور مذہبی امور میں مذہبی ہم آہنگی کا کردار،اقلیتوں کے ساتھ مسلمان حکومتوں کا طرز عمل، بین المذاہب ہم آہنگی اور عالمی تعلقات میں نفسیات فہمی کا کردار، مذہبی آزادی اور انسانی حقوق میں عالمی امن کا کردار،مذہبی فرقوں میں باہمی رواداری کا استحکام، سماجی ترقی میں بین المذاہب ہم آہنگی کا کردار، موسمی تبدیلیوں کا تدارک، اقوام متحدہ کے تحت بین المذاہب تنظیموں کے کردار و اثرات کا تحقیقی جائزہ، اقتصادی ترقی اورا ستحکام میں مذہبی ترقی کا کردار، پاکستانی معاشرے میں مسیحی، ہندو اور سکھ برادری کی خدمات جیسے امور اہم موضوعات شامل تھے۔ ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربیک اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمن اور کانفرنس کی فوکل پرسن ڈاکٹر سجیلہ کوثر نے کانفرنس میں شریک ملکی اور غیر ملکی مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر سجیلہ کوثر نے کانفرنس کی سفارشات پیش کیں جن کے اہم نکات میں متنوع مذہبی کمیونٹیز کے درمیان افہام و تفہیم اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے بین المذاہب مکالمے اور تعاون کو فروغ دیں۔ ایسے تعلیمی پروگراموں کو نافذ کریں جو مذہبی ہم آہنگی کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ابتدائی عمر سے ہی تمام عقائد کے لیے رواداری، ہمدردی اور احترام سکھاتے ہیں۔ ایسی پالیسیاں اور اقدامات تیار کریں جو مذہبی تعلیمات اور عقائد پر مبنی ماحولیاتی ذمہ داری اور پائیداری کی حوصلہ افزائی کریں۔ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لازمی اجزاء کے طور پر مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی وکالت کریں۔ نچلی سطح پر بین المذاہب اقدامات کی حمایت کریں جو کمیونٹیز کے اندر سماجی انصاف، مساوات اور شمولیت کو فروغ دیتے ہیں۔ نوجوانوں کو بااختیار بنائیں کہ وہ بین المذاہب مشغولیت اور پائیدار تعاون اور امن کے لیے پل بنانے کی کوششوں میں فعال کردار ادا کریں۔ مذہبی غلط فہمیوں کا مقابلہ کرنے، مکالمے کو فروغ دینے اور تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں۔ مذہبی رہنماؤں اور اداروں کو اخلاقی معاشی طریقوں کو فروغ دینے میں مشغول کریں جو سماجی ذمہ داری اور مساوی ترقی کو ترجیح دیتے ہیں۔ مشترکہ سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مذہبی برادریوں کے درمیان ثقافتی تبادلے اور تعاون کی حوصلہ افزائی کریں۔ تفہیم اور شواہد پر مبنی طریقوں کو آگے بڑھانے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کی تعمیر پر تحقیق اور اسکالرشپ کو فروغ دیں۔ صلاحیت سازی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کریں جو مذہبی رہنماؤں کو اپنی برادریوں میں مثبت تبدیلی اور مفاہمت کے ایجنٹ بننے کے لیے بااختیار بناتے ہیں۔مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بین المذاہب کونسلز یا فورمز قائم کریں تاکہ جاری بات چیت اور تعاون کو آسان بنایا جا سکے۔ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جامع اور جامع نقطہ نظر کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی سازی کے عمل میں مذہبی نقطہ نظر اور اقدار کو شامل کریں۔ مذہبی خطوط پر ہمدردی، ہمدردی اور یکجہتی کو فروغ دینے والے عقیدے پر مبنی انسانی اور خیراتی اقدامات کے لیے تعاون فراہم کریں۔ ہم سب کو متحد کرنے والی مشترکہ انسانیت کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی روایات کے بھرپور تنوع کو منائیں اور فروغ دیں۔یہ سفارشات وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور دیگر مذہبی اداروں کو بھیجی جائے گی۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں پائیدار دنیا کے لیے مذہبی رواداری کے موضوع پر منعقد ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر
45