Home خبریں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان (او یو پی پی) نے اسلام آباد میں اسکول لیڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، پالیسی سازوں اور تعلیمی ماہرین نے شرکت کی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان (او یو پی پی) نے اسلام آباد میں اسکول لیڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، پالیسی سازوں اور تعلیمی ماہرین نے شرکت کی۔

by Ilmiat

):آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان (او یو پی پی) نے اسلام آباد میں اسکول لیڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، پالیسی سازوں اور تعلیمی ماہرین نے شرکت کی۔ حکمرانی، سفارت کاری اور پالیسی سازی کے مرکز کی حیثیت سے اسلام آباد نے تدریس، سیکھنے اور جانچ کے نظام میں بہتری اور قومی سطح پر تعلیمی تعاون کے فروغ سے متعلق بامعنی گفتگو کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم فراہم کیا۔استقبالیہ خطاب میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے پاکستان کے تعلیم کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہارت پر مبنی نصاب، اساتذہ کی مؤثر تربیت، جدید تدریسی طریقہ کار، ہمہ جہت تعلیم اور ڈیجیٹل مہارت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔

یہی وہ عناصر ہیں جو طلبہ کو تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی دنیا میں کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اس تعلیمی سفر میں آپ کے ہمراہ رہے گا۔ ہم اپنی اعلیٰ تعلیمی روایات، اساتذہ کی تربیت اور اس یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان کا ہر بچہ ایسی تعلیم کا مستحق ہے جو معیاری، بامقصد اور انسان دوست ہو۔کانفرنس کا عنوان’’ امپاورنگ لرنرز فار امپیکٹ ‘‘تھا، جس میں تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ممتاز ماہرین اور پینلسٹس نے شرکت کی، جن میں ڈاکٹر شاہد صدیقی، ڈاکٹر شعیبہ منصور، ڈاکٹر تبسم ناز، عین شاہ، بُگرہ اوزلر، حسن ستار اور راحیل سجاد شامل تھے۔

شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جدت، اشتراک عمل اور باہمی تعاون کے ذریعے اسکولوں میں بامعنی اور پائیدار تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ڈائریکٹر برائے امپیکٹ اینڈ لرننگ ڈیزائن Dr. Penelope Woolf نے کہا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی تعلیمی حکمت عملی بنانے کے لیے پُرعزم ہے جو حقیقی اثر پیدا کریں اور موثر ثابت ہوں۔ تحقیق پر مبنی لرننگ ڈیزائن، جدید تدریسی طریقہ کار اور اپنے عالمی تجربے و مہارت کے امتزاج سے ہم ایسا تعلیمی حل فراہم کرتے ہیں جو اساتذہ کو بااختیار بناتے ہیں، علم و فہم کو فروغ دیتے ہیں اور ہر طالب علم کے لیے بہترین تعلیمی نتائج کو یقینی بناتے ہیں۔

لاہور اسکول آف اکنامکس کے فیکلٹی آف سوشل سائنسز، میڈیا اسٹڈیز، آرٹ اینڈ ڈیزائن کے ڈین ڈاکٹر شاہد صدیقی نے تعلیمی قیادت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کو ایسے ماحول میں ڈھالنے کی ضرورت ہے جو تجسس، تخلیقی صلاحیت اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیں، جہاں ہر طالب علم کی انفرادی صلاحیت کو تسلیم اور اس کا اعتراف کیا جائے۔ ایسا ماحول وہی اساتذہ تشکیل دے سکتے ہیں جو غور و فکر اور خود احتسابی کے ذریعے حقیقی تبدیلی لانے والوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی پیشہ وارانہ نشوونما اور تربیت میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔انہوں نے تعلیم کی انقلابی قوت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی تعلیمی قیادت انتظامیہ سے بالاتر ہے، یہ دراصل جستجو، تبدیلی اور انفرادی و ادارہ جاتی ارتقاء کی ایسی ثقافت کو فروغ دینے کا نام ہے جو اساتذہ کو وژن، بصیرت اور ہمدردی کے ساتھ نئی نسلوں کی تربیت اور رہنمائی کے قابل بناتی ہے۔

وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی ڈپٹی ایجوکیشن ایڈوائزر ڈاکٹر شعیبہ منصور نے کہا کہ تعلیم ایک ایسی طاقت ہے جو معاشروں کو بدلنے اور بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسکول لیڈرز اس تبدیلی کے علمبردار ہیں۔ طلبہ کو بااختیار بنانا صرف انہیں امتحانات کے لیے تیار کرنا نہیں بلکہ انہیں رہنمائی، جدت طرازی اور اثر پیدا کرنے کے قابل بنانا ہے۔ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی اس قابل تحسین کاوش کی دل سے قدر کرتی ہوں جس نے تعلیمی قیادت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک بامقصد اور مؤثر پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔

دن بھر جاری رہنے والی پریزنٹیشنز اور پینل مباحثوں میں متعدد اہم موضوعات زیر بحث آئے، جن میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق طلبہ کی تیاری، جدید تدریسی طریقوں کے ذریعے تبدیلی کی قیادت، تعلیمی اداروں میں باہمی تعاون پر مبنی قیادت کا فروغ اور او یو پی پی کے مخلوط سیکھنے کے وسائل کے ذریعے ڈیجیٹل مستقبل کو اپنانا شامل تھا۔تقریب کا اختتام ایک جامع اور دلچسپ سوال و جواب کے سیشن پر ہوا، جس میں شرکاء کو او یو پی کی قیادت اور ماہرین کے ساتھ براہِ راست تبادلہ خیال کا موقع ملا۔

#ilmiatonline#Oxford University Press Pakistan

You may also like

Leave a Comment